کار بڑا ساگیٹ کراس کرتے ہوئے اندر داخل ہوئی اور ابھی ٹھیک سے رکی بھی نہیں تھی اسلم ٹھیکیدار لپک کر اس کے قریب پہنچ گیا۔ ڈرائیور نے کار کا دروازہ کھولا تو بیگم صاحبہ بڑے وقار سے نیچے اتریں اور ابھی دو تین قدم اٹھائے تھے کہ یکایک رک گئیں۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو ٹھیکیدار کو اپنا منتظر پایا۔
انکی نظریں اس کے چہرے سے ہٹ کر لان کی طرف اٹھیں تو وہ بے ساختہ چونک اٹھیں۔ ”اسلم ! یہ سب ورکرز یہاں کر رہے ہیں۔ کیسا مجمع لگا رکھا ہے ان لوگوں نے؟۔ بیگم صاحبہ یہی سب بتانے کے لئے تو میں آپ کے پاس دوڑاچلا آیا ہوں۔ وہ…. بیگم صاحبہ…. میں نے انہیں آدھے دن کی چھٹی دے دی ہے۔
آج لیبر ڈے ہے ناں۔۔۔۔تو میں نے سوچا مجھے بھی آج کے دن انہیں رعائت دے دینی چاہئے۔آپ آج کی دیہاڑی دیں تاکہ انکو مزدوری دے کر رخصت کر دوں”۔”تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا۔کام شروع ہونے سے پہلے میں نے تمہیں کیا تھا ؟ کچھ یاد ہے تمہیں ؟۔”ہاں جی آپ کو دس دن میں کام مکمل کر کے دینا ہے اور آپ کے ساتھ دیہاڑی طے ہوئی تھی۔
Pakistani Labour
اسکی آواز ایک دم بیٹھ سی گئی تھی۔”سات دن گزر گئے ہیں اور ابھی آدھا کام باقی ہے۔تم لوگ ہو ہی ایک نمبر کے کام چور۔ اگر ٹھیکہ طے ہوتا تو اب تک کام ختم کر کے ساری رقم اینٹھ بھی چکے ہوتے۔ میں سب سمجھتی ہوں۔غضب خدا کا کام یونہی پڑا ہوا اور یہ صاحب لیبر لیڈر بننے کے چکر میں ہیں۔
جاؤ جا کر کام کرو رنہ آج کی دیہاڑ ی ختم۔ ایک پائی بھی نہیں دوں گی۔دیتے رہناپھر اپنی جیب سے۔ سمجھے تم اوراسلم یوں سر ہلاتے ہوئے مزدوروں کی جانب بڑھ گیا جیسے اسے ساری بات اب سمجھ میںآئی ہو۔
یہ اور بات کہ اس کے کانوں میں بیگم صاحبہ کی اس تقریر کے الفاظ، جو اس نے کچھ ہی دیر پہلے ایف ایم ریڈیوپر سنی تھی اور جس سے متاثر ہو کر اس نے چھٹی کا فیصلہ کیا تھا۔
ایک دم گونجے لگے تھے ”کتنی عجیب بات ہے کہ آج ایک طرف مزدوروں کا عالمی منایا جا رہا تو دوسری جانب بیچارے غریب مزدور مئی کی چلچلاتی دھوپ میں آج بھی کام کر رہے ہیں۔ کیسی دو عملی ہے کہ ہم بڑی بڑی باتیں کرنے والے انہیں سال میں ایک بار بھی ایک دن کی اجرت ہمدری میں نہیں دے سکتے۔