امریکی صدر باراک ابامہ نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ: اللہ مجھے مسلمانوں پر مظالم بند کرنے کی توفیق دے۔ امریکی صدر کے اس بیان کے بعد مسلمانوں کی اکثریت نے اسے زیادہ اہمیت نہیں دی اور ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک روایتی بیان ہے ورنہ حقیقت میں صدر امریکہ مسٹر ابامہ بھی اسی راہ پر چل رہے ہیں جس پر اس کا پیشرو سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش چل چکے ہے۔ جبکہ بعض مسلمان اس بیان کو نیک شگون بھی قرار دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ باراک ابامہ نے پچھلے دنوں مسلم اکثریتی ملک ملیشیا ء کا دورہ کیا تھا۔ 1966 کے بعد کسی بھی امریکی صدر کا یہ پہلا ملیشیائی دورہ تھا۔ اس سے پہلے 1966 میں اس وقت کے امریکی صدر جانسن نے ملیشیا کا دورہ کیا تھا۔ ملیشیا کے اپنے اس دورے میں ابامہ نے جہاں حکومتی زعماء اور دیگر طبقات کے عہدیداران سے ملاقاتیں کی ہے تو وہی وہ ملیشیا کے دارالحکومت کوالاالمپور کے سب سے بڑی نیشنل مسجد بھی گئے۔
جہاں انہوں نے ملک کے مفتی اعظم جناب اسماعیل محمد سے بھی ملاقات کی ہے۔ العربیہ کے مطابق امریکی صدر مسجد کے مختلف حصوں کا دورہ کرنے کے علاوہ مسجد سے متصل مزارات پر بھی گئے۔ اس دوران اس نے مسلمانوں کے بارے میں اپنے جذبہ خیر سگالی کا اظہار بھی کیا اور مذہب اسلام کو وہ احترام دینے کی کوشش بھی۔ جو کہ اس مذہب کا شایان شان ہے۔ تقریباً ایک گھنٹے کی ملاقات میں جہاں دیگر امور پر دونوں شخصیات کے مابین گفتگو ہوتی رہی، تو وہی مفتی اعظم نے صدر امریکہ کی توجہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ متعصبانہ روئیے ،غیر منصفانہ سلوک اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کی طرف دلاتے ہوئے صدر سے اس سلسلے میں کردار ادا کرنے کو کہا۔ اس کے جواب میں مسٹر ابامہ نے کہا کہ مظلوم کوئی بھی اور کسی بھی مذہب کا ہو، میں ان کی مدد کرنا چاہتا ہوں اور ہر صبح جب میں نیند سے بیدار ہوتا ہوں تو ان جھگڑوں کے خاتمے کی کوششوں میں جت جاتا ہوں جو انسانی معاشروں پر منفی اثرات مرتب کر رہے ہیں۔
اس موقع پر ابامہ نے مفتی اعظم سے درخواست کی کہ وہ دعا کریں کہ اﷲ پاک مجھے مسلمانوں پر مظالم بند کرنے کی توفیق دے۔ اس سے پہلے کوالامپور ہی میں جامعہ ملایا کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ: ہم سب کو انسانوں کے درمیان نسلی امتیاز کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے قارئین گرامی! سوال یہ ہے کہ کیا جو کچھ ابامہ نے کہا ہے ، وہ ان کی دل کی آواز ہے یا صرف مسلمانوں کو بے وقف بنا کر ان کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش؟ میں سمجھتا ہوں کہ جو کچھ ابامہ نے کہا ہے۔ اس کی مثال ”رات گئی بات گئی،، جیسی ہے۔ کیونکہ جو شخص دوسری دفعہ صدارت میں ہونے کے باوجود اپنے عوام کو وہ حقوق نہ دلاسکے جس کا انہوں نے ان سے انتخابی مہم نے دوران وعدہ کیا تھا۔ تو وہ مسلمانوں کا ہمدرد کیسے ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر آج امریکہ کی معیشیت دباؤ کا شکار ہے ۔ جس کے نتیجے میں بے روزگاری کی شرح بڑھ رہی ہے اور غربت میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔
United States
اس کے علاوہ مسٹر ابامہ کو اپنے ملک سے نسلی و مذہبی تفریق ختم کرنے میں بھی ناکامی کا سامنا ہے۔ جس کے نتیجے میں جہاں سیاہ فام امریکیوں کو گوروں کے مقابلے میں زیادہ معاشی مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ تو وہی مسلمان امریکیوں کو بھی صرف مسلمان ہونے کی وجہ سے تعصب کا سامنا ہے۔ حالانکہ معیشیت کی بہتری اور نسلی تفریق کا خاتمہ ابامہ کے ترجیحات میں شامل تھا۔ ایسے میں بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کے بارے میں ابامہ کے جذبات یقیناًً کسی لطیفے یا مذاق سے کم نہیں۔ کیونکہ جب ہم عالمی سطح پر مسلمانوں کے بارے میں امریکی پالیسی کو دیکھتے ہیں۔ تو اس میں یہودی لابی کا کردار صاف نظر آتا ہے اور کون نہیں جانتا کہ مسلمانوں کے بارے میں یہودیوں کی سوچ ہمیشہ سے معتصبانہ رہی ہے۔ لہٰذا اگر باالفرض ابامہ مسلمانوں کے بارے میں اپنی سوچ تبدیل کرنا چاہے بھی، تو تب بھی وہ ایسا نہیں کر سکتا، کیونکہ امریکی سوچ پر قابض یہودی اسے ایسا کرنے نہیں دیں گے۔
شائد یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے انتخابی منشور کے برعکس اب تک سابق صدر جارج واکر بش کے نقش قدم پر اس سے بھی زیادہ تیزی سے چل رہے ہے ۔ اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ وہ شخص جو ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کا حامی تھا۔ آج کس طرح اسرائیل کے پشت پر کھڑے ہوکر ان کی پشت پناہی کررہا ہے۔ اس کے علاوہ کشمیر کے منصفانہ حل کی خواہش تو شائد ایک ڈراؤنا خواب تھا ۔ جو ابامہ نے دیکھا تھا۔ لہٰذا اب وہ اس کا تذکرہ کرنا بھی پسند نہیں کرتا۔ کشمیر و فلسطین کے حوالے سے ابامہ کے کردار کو دیکھنے کے بعد ذرا افغانستان اور پاکستان کے بارے میں ان کے کردار کا جائزہ لیجیے۔ تو نظر یہ آتا ہے کہ اس خطے کے مسلمانوں کے خون کا تو وہ اس قدر رسیا ہوچکا ہے کہ افغانستان میں ان کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے امریکی اور اس کے اتحادیوں نے نہ تو معصوم بچوں کو معاف کیا، نہ جنازوں کا احترام کیا، نا شادی کے تقریبات کو ماتم کدے بنانے سے گریز کیا اور ناہی قرآن مقدس کی حرمت کو خاطر میں لایا۔ بلکہ ہر جگہ اپنی درندگی کے وہ نشان نقش کیں جو مٹانے سے بھی نہیں مٹ سکیں گے۔ پاکستان کا حال بھی افغانستان سے کم نہیں ۔ ڈرون حملے ابامہ کے دور میں فاٹا سے نکل کر بندوبستی علاقوں تک پھیل گئے۔ ان حملوں میں جاں بحق افراد کی تعداد سینکڑوں سے نکل کر ہزاروں میں جاپہنچی جن میں اکثریت بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کی ہیں۔ وطن عزیز کی بازاریں اور مساجد بلیک واٹر کی درندگی کا نشانہ بنے، ان کارروائیوں میں ہزاروں افراد لقمہ اجل بنے تو ہزاروں مستقل اپاہج بھی ہوئے۔ سلالہ میں افواج پاکستان کے غیور جوانوں پر امریکی بمباری ، ایبٹ آباد اپریشن اور ریمند ڈیوس کیس کے بارے میںکیا کہنا ،کہ وہ تو ابامہ انتطامیہ کی طرف سے مسلمانان پاکستان و مسلمانان عالم کے لیے خاص تحائف تھے۔ اس کے علاوہ اگر نظر باقی دنیا پر دوڑائی جائے۔ تو مصر سے لے کر شام تک، سوڈان سے لے کر میانمار تک، صومالیہ سے لے کر یمن تک عراق سے لے کر لیبیا تک اور مالی سے لے کر انگولا تک ابامہ کے سرپرستی میں امریکہ، اسکے اتحادی و ایجنٹ کس طرح مسلمانوں سے ان کے حقوق چھین کر انہیں جبر و ستم کا نشانہ بنا رہے۔ وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔
Muslims
لہٰذا انتہائی ادب و احترام کے ساتھ ملیشیاء کے مفتی اعظم جناب الشیخ اسماعیل محمد کی خدمت میں عرض ہے کہ وہ مسلمانوں کے حقوق صلیب کے علمبردار باراک ابامہ سے مانگنے کے بجائے مسلمان حکمرانوں کی توجہ اس طرف دلائیں۔ اگر آپ اور آپ جیسے دیگر معزز شخصیات اس سلسلے میں بھر پور کردار ادا کرنے کی کوشش کریں تو امید ہے کہ مسلم حکمرانوں کو اپنا بھولا ہوا سبق یاد آجائے۔ لیکن اگر آپ جیسے معزز اور قابل احترام شخصیات یہودیوں کے نرغے میں گھرے باراک ابامہ سے مسلمانوں کے لیے مدد مانگتے رہے تو میرے خیال میں یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہو سکے گی۔ بلکہ یہ خواہش، خواہش ناتمام ہی رہے گی۔