دُنیا میں دو قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ایک امیر اور دوسرے غریب۔ امیروں کی امیرریاں مت پوچھو اور غریب کو مہنگائی سانس نہیں لینے دیتی۔مہنگائی کا اژدھا منہ کھولے کھڑا ہے۔دہشت گِردی کا خوف کھل کر سانس نہیں لینے دیتا۔ غریب بیچارہ کتنا بے بس ہے۔اپنی خوشیاں تک نیلام کر دیتا ہے۔اپنے آقا، اپنے جاگیردار کی خوشی کی خاطر خود بھوکا مر جاتا ہے مگر جاگیردار کے بچوں کے لئے جتن کرتا رہتا ہے۔
ابھی ہی مزدور ڈے منایا گیا ہے۔سوچ طلب بات تو یہ ہے مزدوروں، غریبوں کا دن ہوتا کونسا ہے؟۔مزدور ڈے میں مزدوروں کو چھٹی نہیں ملتی۔اس دن امیروں، جاگیرداروں، سیاسی لوگوں، سرکاری لوگوں کو چھٹی ہوتی ہے۔مزدور تو یک دن کام نہ کرے تو بچے بھوکے مرتے ہیں۔بیچارہ غریب بارہ بارہ گھنٹے فیکٹڑیوں میں، کارخانوں، کھیتوں میں کام کرتا ہے اور معاوضہ آٹھ گھنٹوں کا بھی نہیں ملتا۔سیاسی لوگ،وزیراعلیٰ اعلان فرما دیتے ہیں ،اور افسر فائل کالی کرکے دے دیتے ہیں۔صر ف کاغذی کاروائی ہوتی ہے،عمل نہیں ہوتا۔
غریب کا کیا ہے ۔اس کا گھر اپنا نہ دھرم اپنا۔اس کی بیٹیاں بے آبرو ہوں،اس کے بیٹوں کو جھوٹے الزام میں جیل کی سلاخوں کی نذر کیا جاتا ہے۔غریب کی کوئی عزت نہیں، ہمیشہ اپنے جاگیردار کی عزت بڑھانے کے لئے اپنی عزت کی دھجیاں اڑواتا رہتا ہے۔اپنے بچے پالنے کے لئے اپنے جسم کا حصہ،جگر ،دل فروخت کر دیتا ہے۔ امیروں کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگتی۔جن کے دم سے یہ ہیں ان کے دم نکالتے پھرتے ہیں کیسے امیر ہیں،اپنے پائوں پر کلہاڑیاں چلاتے ہیں۔
غریب دو روٹی کو ترس رہا ہے اور امیروں کو زحمت نہیں ہوتی کہ ان کے سروں پر شفقت بھراہاتھ ہی رکھ دیں۔ روٹی چھیننے والے ان کو روٹی کیونکر دیں گے۔غریب کو جوتی کی نوک تلے رکھتے ہیں۔جن کی وجہ سے ان کی شان و شوکت ہے،ان کی آن بان ہے۔محل گاڑیاں ہیں،فیکٹریاں چل رہی ہیں،شہرت ہے۔غریب نے ان کو خاک سے اٹھا کر تخت پر بیٹھا دیا ،یہ ہیں کہ ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے۔غریب کو حقیر سمجھتے ہیں۔جیسے غریب انسان نہیں جانور ہو، جن سے کام بس کا م لیا جاتا ہے۔
Poor Peoples
غریب سے گلاس ٹوٹ جائے قیامت برپا ہو جاتی ہے، غریبوں کے دل ٹوٹ جائیں کیونکر پروا ہوگی۔امیروں کی گاڑیوں کے نیچے غریبوں کے بچے کچل دیئے جاتے ہیں،ان کی عزتوں کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ہم دنیا کی بات کیا کریں، دنیا کو چھوڑیں !۔پاکستان کا جائزہ تو لیں، کتنے غریب بلک بلک کر جان دے گئے۔ کتنوں کو کتوں کے آگے پھینک دیا۔کتنوں کو الزام لگا کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا۔سچ پوچھو تو پاکستان کا قانون، غریبوں کے لئے ہیں۔ عدالتیں، جیلیں غریبوں کے لئے ہیں۔غریب کو انصاف کا ملنا بس ایک خواب ہے۔آج تک کسی بھی غریب کو انصاف ملاہو تو مجھے بتائیں۔وہ دور چلا گیا جب شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پیا کرتے تھے۔
گندم کی فصل آخری مراحل میں ہے۔غریب کسان دن ،رات فصلوں کی نگہداشت کرتا ہے مگر جب گندم کے ڈھیر لگتے ہیں اس کے گھر میں ایک کلو گندم نہیںجاتی۔آپ نے بھتوں پر مزدوروں کو اینٹیں بناتے تو دیکھا ہی ہوگا۔کیا کبھی ان مزدوروں کو ان اینٹوں سے بنے محلوں میں رہتے دیکھا ہے۔نہیں ناں۔سچ یہی ہے یہ مزدور اونچے اونچے محل تعمیر کرنے میں خون کا آخری قطرہ تک لگا دیتے ہیں مگر ان محلوں میں رہنا ان کا نصیب نہیں ہوتا۔
امیروں کا بگڑابیٹا غریب کی بیٹی کی عزت تار تار کردے تو کہا جاتا ہے بچہ تھا کھیل رہا تھا۔امیر کی بیٹی کی جوتی پر بھی نظر پڑ جائے توسر قلم کروا دیا جاتا ہے۔غریب کے بیٹے سے کوئی غلطی سر زد ہوجائے تو اسے خون خار کتوں کے آگے پھینک دیا جاتا ہے۔کیسا ملک ہے جہاں امیر، مرغ، کباب، برگر ہرن کھاتے ہیں اور غریب سوکھی روٹی کو بھی ترس رہا ہے۔امیروں کے بیٹے ٹیسٹ شدہ پانی پیتے ہیں اور غریبوں کے بیٹے تالاب کے گندے پانی کی دو بوندوں کے لئے ترس رہے ہیں۔ تھر میں پیاس سے کتنے بچے دم توڑ گئے۔
شاید قصور امیروں کا نہیں ان غریبوں کا ہے۔انہوں نے ووٹ دے کر ان کو اسمبلیوں تک پہنچایا ہے۔لیڈر بھی تو خود چُنتے ہیں۔یہ جو بڑی گاڑیاںلئے پھرتے ہیں غریبوں کی دی ہوئی ہیں۔ان کے بچوں کا بیرون ملک علاج ہوتا ہے تو غریبوں کے خون پسینے سے حاصل ہونے والی رقم سے۔ہاں ان غریبوں کو سزا ملنی چاہیے۔یہ سزا کے حق دار ہیں۔ان کے بچوں کو گاڑیوں کے نیچے کچل دینا چاہیے۔ان کی بیٹوئوں کی عزتیں نیلام ہونے کے لئے ہیں۔امیروں کا کیا ہے بیچارے سفید لباس میں بھلے لگتے ہیں ۔چاہے ان کے من کالے ہی کیوں نہ ہوں۔یہ جھوٹ بھی بولتے ہیں تو سچ لگتا ہے۔ وعدے کرتے ہیں تکمیل ہوتی ہے (خوابوں) میں۔
ان کے گھروں میں اے،سی،ائیر کیشڈنر چلتے ہیں تو ان غریبوں کی وجہ سے۔امیروں کو ٹھنڈی ہوا کے بغیر نیند نہیں آتی اور غریب خالی ہوا کا نام سن کر سو جاتے ہیں۔ملک میں افرتفری،بدامنی ہے تو ان غریبوں کی وجہ سے۔غریبوں نے حقیقی خدا کو چھوڑ دیا اور امیروں کا کوئی خدا ہی نہیں ہوتا۔وہ اپنی سلطنت کے خود حکمران ،خود خدا ہیں۔اب انقلاب لانا ہوگا،میرے وطن کے غریبوں اب بھی آپ نے اپنی حالت،اپنے نظریات، نہ بدلے تو روند دیئے جائوگے۔تمھارا نام ونشان تک مٹ جائے گا۔آئو یک جان ہوکر اس ملک سے بدامنی، مہنگائی۔ دہشتگردی، رشوت خوری، بددیانتی ختم کریں۔ تاکہ سکون سے جی سکو،آپ کے بچے بھی اعلی سے اعلی کالج یونیورسٹیوں میں پڑھ سکیں آپ کی بیٹوئوں کی عزتیں پامال نہ ہوں۔آپ کی عزت کی دھجیاں نہ اڑئیں۔ نظام بدلنا ہو گا، خود کو بدلنا ہو گا۔