ِصحافت کے عالمی دن کے حوالے سے مرکز فلسطین برائے انسانی حقوق نے اپنی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی فوجیوں نے صحافیوں کے لیے پیشہ وارنہ فرائض کی ادائی ایک ڈرونا خواب بنا رکھا ہے۔ گذشتہ پانچ مہینوں کے دوران ان علاقوں میں صحافیوں کو 135 مرتبہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔عالمی یوم صحافت کے موقع پر جاری ہونے والی سینٹر کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوجیوں نے صحافتی فرائض سرانجام دینے والے افراد پر 135 مرتبہ حملے کیے۔
آزاد صحافیوں کے خلاف روا رکھنے والے اسرائیلی مظالم میں انہیں شخصی طور پر نقصان پہنچانا، مار پیٹ کرنا اور ایسے اقدامات کرنا جن سے انسانیت کی تذلیل ہوتی ہے، جیسے امور شامل ہیں۔ صحافیوں کو بغیر وجہ بتائے محبوس رکھنا اور انہیں فرائض کی ادائیگی کے سلسلے میں مخصوص علاقوں میں داخلے کی اجازت نہ دینا بھی شامل ہے۔ صحافیوں کو بعض مواقع پر رپورٹنگ سے روکنا بھی صہیونی فوجیوں کا من پسند مشغلہ ہے۔ پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی میں معاون آلات کی ضبطی، بیرون ملک سفر پر پابندی اور گھروں پر وقت بے وقت چھاپے ایسے اوچھے اقدامات ہیں کہ جنہیں دہرا کر اسرائیل سچائی کی آواز دبانا چاہتا ہے۔ صحافیوں کی نجی گاڑیوں سمیت ان کے دفتری آلات کو چھیننا اور توڑنا ایسے امور ہیں کہ جن کے بکثر ت رونما ہونے کی وجہ سے صحافی اپنے فرائض سر انجام نہیں دے سکتا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مسجد اقصی کی اسرائیلی تسلط سے آزادی کی جنگ کے آغاز سے ابتک اسرائیلی 15 صحافیوں کو موت کے گھاٹ اتار چکے ہیں۔ اسرائیلی فوجی صحافیوں پر براہ راست فائر کھولنے سے بھی نہیں چوکتے اور بہت سے حالات میں انہوں نے طاقت کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے ارادی طور پر صحافیوں کو نشانہ بنایا۔اسرائیلی فوج کی پکڑ دھکڑ اور انتہائی نامساعد حالات میں فلسطینی صحافیوں نے عالمی یوم صحافت جکڑ بندیوں کی فضا میں منایا۔
اگر بات کی جائے پاکستان کی تو گذشتہ ایک دہائی میں صحافتی اداروں نے خوب ترقی کی ہے لیکن صحافیوں کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی وہ آج بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ یہاں ان کے لیے مشکلات مسلسل بڑھ رہی ہیں۔پاکستان میں جمہوریت مستحکم ہو رہی ہے ۔ پاکستان کے انتخابات پر آزاد الیکٹرونک میڈیا کا رائے عامہ ہموار کرنے میں اہم کردار ہے۔ اسی وجہ سے سیاسی جماعتیں اربوں روپے کے اشتہارات ریڈیو،ٹی وی اور اخبارات کو دئیے۔اس سیاسی اشتہاری مہم میں انٹرٹینمنٹ چینلز کو بھی شامل کر لیا گیا لیکن پاکستان میں میڈیا کارکنوں کے مسائل اور مشکلات میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ ان میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہاہے۔طاقت ور سیاسی اور غیر سیاسی گروہوں کے علاوہ ریاستی ادارے بھی میڈیا کو موم کی ناک کی طرح اپنی مرضی کے مطابق موڑنا چاہتے ہیں،اگر ایسا نہ ہوتو صحافیوں کو ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔
Journalist
گذشتہ کئی سالوں سے صحافیوں کو جان سے مارنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔صحافیوں کی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ کے مطابق 1992 سے اب تک پاکستان صحافیوں کے لئے دنیا بھر کے خطرناک ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے جہاں 100 کے قریب صحافی اور میڈیا کارکن مارے جا چکے ہیں۔ ایسے میں میڈیا آرگنائزیشن کو بھی اپنے اپنے فرائض سرانجام دینے ہیں، یہ صرف حکومت کا نہیں میڈیا کا بھی فرض ہے کہ وہ انہیں بلٹ پروف جیکٹس دے، ان کی انشورنس کی جائے، کیونکہ جو قوتیں دہشتگردی کے ذریعے صحافیوں بولنے سے رکوانا چاہتی ہیں وہ بہت سرگرم ہیں۔
کہاجاتاہے کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستانی قوم ریاست کے چار ستونوں میں سے تین ستونوں سے مایوس اور دلبرداشتہ ہو کر چوتھے ستون یعنی صحافت سے اپنی امیدیں اور توقعات وابستہ کر کے بیٹھی ہوئی ہے تو ان توقعات، امیدوں اور خواہشوں کو کچلنے کی ایک مذموم کوشش کی جا رہی ہے۔
حکومت کو اندازہ بھی نہ ہو گا کہ ریاست کا یہ چوتھا ستون کنکریٹ سے بھی زیادہ مضبوط اور طاقتور ہے جو عوام کے دلوں پر راج کرتا ہے اور اسے گزند پہنچانا یا جھکانا مشکل ہی نہیں اب ناممکن بھی ہے کیونکہ صحافی برادری اپنے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے یا شب خون مارنے کی اجازت کسی کو نہیں دے سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم تو خود دوسروں کی جنگ لڑتے اور دوسروں کو حقوق دلاتے ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی ہمارے حقوق غصب کرے اور ہم کٹھ پتلی بنے رہیں یا اپنے پاوں کٹوا لیں۔ دنیا بھر میں ”میڈیا” ایک طاقت کی اکائی مانا جاتا ہے۔
خاص طور پر پاکستان میں آمریت اور جمہوریت کی لڑائی میں صحافی اس قدر طاقتور، باشعور اور زیرک ہو چکا ہے کہ وہ اپنے آگے کسی جبری طاقت کو نہیں مانتا۔ سچ ہی دنیا کی سب سے عظیم طاقت ہے اور میڈیا کا کام ہے کہ سچ کا علم بلند رکھے کیونکہ آپ ”سچ” سے صرف نظر کر کے نہ تو کامیاب ہو سکتے اور نہ ہی کسی کا دل جیت سکتے۔ جن صحافیوں کی وجہ سے ہر مارشل لا کی مدت کا دورانیہ مختصر ہوا یا ختم ہوا اور جمہوریت کو پنپنے اور سانس لینے کا موقع ملا۔ ملک میں بدنظمی، ناانصافی، حق تلفی اور کرپشن کے سدباب میں صحافت نے جو اہم اقدامات کئے۔
انہیں نہ نظرانداز اور نہ ہی فراموش کیا جا سکتا ہے۔ آج پاکستانی معاشرے میں جو تھوڑا بہت سکون اور امن باقی ہے وہ صحافیوں کی شب و روز محنت و ریاضتوں کا نتیجہ ہے۔ آج پاکستان میں اگر جمہوریت کا سر سلامت ہے تو اس کا سو فیصد کریڈٹ صحافت کو جاتا ہے۔ جمہوریت کی بحالی میں سیاستدانوں کا کردار بمشکل بیس سے تیس فیصد رہا ہے۔ اصلی کردار صحافیوں نے ادا کیا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے ہزاروں یادیں مگر صحافت کاایک دن ہے، پاکستان میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات صرف اور صرف اپنی ذات تک ہی محدود ہو چکی ہے؟۔ ہزاروں میڈیا ورکرز سے تو ان کے اہلخانہ بھی پریشان ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں میڈیا کوایک سازش کے تحت ناکام بنایا جا رہا ہے۔