ایک نقطے نے محرم سے مجرم بنا دیا کیا خوب حقیقت ہے کہ آج پنجاب کے خادم اعلی جناب میاں شہباز شریف بھی اسی ایک نقطے کی زد میں آچکے ہیں آجکل چونکہ سوشل میڈیا بڑا مضبوط ہو گیا ہے ہر کوئی اپنی رائے بڑی غیر جانبداری اور مضبوطی سے دیتا ہے خاص کر فیس بک اور ٹوئٹر کے صفحات پر آپ سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں رہ سکتی اب سوشل میڈیا پر میاں شہباز شریف کے وعدوں کی سب تقریرں موجود ہیں جس میں میاں صاحب نے بجلی کے بحران کو ختم کرنے، پیپلز پارٹی کے کرپٹ لیڈروں کو سڑکوں پر گھسیٹنے سمیت متعدد دعوے کیے تھے اور یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر میں ایسا نہ کروں تو میرا نام شہباز شریف نہیں انہی وعدوں اور دعووں کی برخلافی پر آجکل سوشل میڈیا پر میاں شہباز شریف کا جو نام زیر گردش میں ہے۔
اس میں بھی صرف ایک نقطہ نیچے سے اوپر کردیا گیا اور اسی ایک نقطے کی تبدیلی سے سوشل میڈیا پر جو نام لکھا اور پڑھا جارہا ہے وہ میاں شہناز شریف ہے موجودہ حکومت کو برسراقتدارآئے ہوئے ایک سال سے زائد کا عرصہ گذر چکا ہے اور الیکشن سے قبل مسلم لیگ ن کی قیادت نے عوام سے جو وعدے کیے تھے انکو پورا کرنا تو ایک طرف انکی طرف توجہ دینا بھی ان حکمرانوں نے گوارا نہیں کیاعوام کی بنیادی ضرورت پانی ہے مگر بجلی کا بحران اتنا شدت اختیار کر گیا ہے کہ پانی بھی غریب آدمی کی پہنچ سے دور نکل گیا ہے نہ بجلی آتی ہے اور نہ ہی سرکاری ٹیوب ویل چلتے ہیں اور نہ ہی پانی لوگوں کے گھروں تک پہنچتا ہے گرمیوں کی شدت میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے بڑے شہروں کے چھوٹے گھروں میں رہنے والے شہری دن کو تو معاشی صورتحال سے پریشان رہتے ہی تھے مگر اب تو بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے راتیں بھی جاگ کر پریشانی کے عالم میں گذار رہے ہیں انسان خود تو اپنی ہر پریشانی اور دکھ برداشت کر سکتا ہے مگر گرمی سے بچوں کا رونا برداشت نہیں ہوتا اور اندر ہی اندر حکومت کے خلاف جو لاوا پک رہا ہے وہ اسے بہا کرلے جائیگا۔
Load Shedding
ابھی ایک سال قبل ہی کی تو بات ہے کہ میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلی تھے اور مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی بجلی کی لوڈ شیڈنگ اس وقت بھی اپنے عروج پر تھی اور میاں شہباز شریف نے مرکزی حکومت کے خلاف مینار پاکستان میں احتجاجی کیمپ لگا دیا تھا اور خود مظاہروں میں جاکر پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف نعرے لگوایا کرتے تھے اور پھر اپنی الیکشن مہم کے دوران عوام سے جو بڑے بڑے وعدے اور دعوے کیے تھے اقتدار میں آتے ہی انہیں پس پشت ڈال دیا گیا یہ میاں برادران کی بہت خوش قسمتی ہے کہ انہیں اپوزیشن نہ ہونے کے برابر ملی مگر بدقسمتی سے مسلم لیگ ن اپنی حکومت کے خلاف خود ہی اپوزیشن کا کردار ادا کررہی ہے کیونکہ ملک میں جب روزگار، بجلی اورگیس کا بحران ہو، لاقانونیت ہو، افسر شاہی ہو، رشوت اور سفارش کا کلچر ہو،انصاف بکتا ہو، عزتیں سرعام لٹتی ہو، انصاف کے حصول کے لیے جان کی قربانی ہو، بادشاہ سلامت اپنے وزیروں کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوںاور سپیکر قومی اسمبلی کو خادم اعلی سے ملاقات کے لیے بھی وقت لینا پڑتا ہوتو پھر وہاں اپوزیشن کی ضرورت نہیں رہتی حکومتی اراکین ہی اپنے لیڈروں کے خلاف خفیہ اپوزیشن بن جاتے ہیں اسی لیے تو شیخ رشید کا دعوی ہے کہ حکومتی اراکین اسمبلی اسے کہتے ہیں کہ شیخ صاحب ان کو تن کے رکھیں۔
ہم تمھارے ساتھ ابھی تو یہ باتیں اندرکھاتے کی ہیں مگر اب باہر نکلنا شروع ہوگئی ہیں اس لیے ضروری ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت الیکشن سے قبل عوام سے کیے ہوئے وعدوں پر عمل کریں معافی مانگنے اور شرمندہ ہونے کا وقت ہے اور نہ یہ چیزیں اب ملیں گی کیونکہ ایک قاتل بھی جرم کرنے کے بعد معافی ضرور مانگتا میاں صاحب ابھی بھی عوام آپ کے ساتھ ہیں اور وقت آپ کے ہاتھ میں ہے ملک میں بڑھنے والی برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں کراچی میں جو بے گناہوں کادن رات خون بہہ رہا ہے اسے روکیں کیونکہ ایک گھر کا جب چراغ گل ہوتا ہے تو جس پر بیتتی ہے وہ جانتا ہے کہ آج وہ جس کی لاش اٹھا رہا ہے۔
اسے جوان کیسے کیا تھا اور بچے نہ دنوں میں پیدا ہوتے ہیں اور نہ ہی منٹوں میں جوان ہوتے ہیں انکی پرورش میں والدین کو جن مشکلات سے گذرنا پڑتا ہے یہ وہی جانتے ہیں کہ کیسے انہوں نے اپنی خواہشات کا گلا دبا کر اپنے بچوں کو پروان چڑھایا اور پھر ایک ہی پل میں کیسے انکے سپنے چکنا چور ہوجاتے ہیں کراچی سمیت ملک بھر میں مارے جانے والے تمام بے گناہوں کا خون حکمرانوں کے سر پر ہے جسکا انہیں حساب دینا پڑے گا۔
ان وحشی درندوں سے بے گناہ معصوم انسانوں کو بچائیںان بے موت مارے جانے والے بچوں کی جگہ زرا اپنے بلاول اور حمزہ کو بھی رکھ کر دیکھیں شائد کچھ احساس ہوجائے میاں صاحب اب بھی وقت ہے کہ آپ عوام سے کیے ہوئے تمام وعدوں پر عمل کرلیں ورنہ ابھی تو صرف ایک نقطہ نیچے سے اٹھا کر اوپر لگنے سے صرف نام تبدیل ہوا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ ساری بساط ہی لپیٹ دی جائے اور پھر آپ کے پاس سوائے پچھتاوے کے اور کچھ نہ رہے۔