خوشنودی

Egypt

Egypt

مصر اس وقت اپنی تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف مذہبی قوتیں ہیں جو اپنے حقو ق کی جنگ لڑ رہی ہیں جبکہ دوسری جانب فوجی جنتا ہے جو سٹیٹسکو کو برقرار رکھنے کیلئے ا یڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے اور اپنے مخالفین کو کچلنے کیلئے وہی پرانے استبدادی ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ ٢٠١١ میں کئی عشروں کے آہنی جبر کے بعد مصر نے اپنے جمہوری تشخص کا اظہار کیا تھا اور اظہار بھی ایسا جاندار کے پوری دنیا ان کے اس اظہار پر انگشت بد ندان رہ گئی تھی۔

تحریر چوک کے نام سے دنیا پہلے بار آشنا ہوئی تھی۔ایک ایسا ملک جس میں چند ہزار افراد کا ا حتجاج بھی حیرت سے دیکھا جاتا تھا سی ملک کے تحریر چوک میں لاکھوں لوگوں کے احتجاج نے پوری دنیا کو ششدر کر کے رکھ دیاتھا اور یہ اخوان السلمون کی جہدِ مسلسل کا ثمر تھا کہ لوگ آمریت کے خلاف سراپا احتجاج بن گئے تھے۔کسی کو یقین نہیں آتا تھاکہ یہ وہی مصری ہیں جو سالہا سال سے جبر کو برداشت کرنے کے عادی ہیں اور جن کی رگوںمیں آزادی و حریت کا خون بالکل سفید ہو چکا ہے ۔٢٠١١ ایک ایسا سال تھا جس میں مصریوں نے اپنا نیا تشخص ابھارا تھا اور دنیا پر ثابت کیا تھاکہ وہ جمہوری تبدیلی کے بالکل اہل ہیں ۔تحریر چوک جمہوری آزادیوں کا نیا استعارہ بنا تھا جو ہر کس و ناکس کی زبان پر تھا۔ عوام کے پر زور احتجاج پر حسنی مبارک کو مستعفی ہونا پڑا تھا اور محمد مرسی ایک صاف اور شفاف انتخا بات کے بعد مصر کے نئے صدر منتخب ہوئے تھے اور یوں کل کے سیکولر اور نام نہاد ترقی پسند مصر سے ایک مذہب پسند جماعت کی حکمرانی کی نمود ہوئی تھی جسے یورپ کیلئے برداشت کرنا ممکن نہیں تھا۔حسنی مبارک کا تیس سالہ اقتدار پلک جھپکنے میں ہوا کے ایک ہی تندو تیز جھونکے سے سوکھے پتوں کی طرح ہوا میں بکھر گیا تھا۔

اسے خود سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس کے ساتھ یہ انہونی کیسے ہو گئی ہے کیونکہ وہ تو اپنے بیٹے کو اقتدار منتقل کرنے کی منصوبہ بندی کر چکا تھا۔حسنی مبارک کا اقتدار بچانے کی بڑی کوششیںکی گئیں لیکن کوئی بھی کوشش بار آور نہ ہوسکی۔چشم ِفلک نے دیکھا کہ کل کا آمرِِ مطلق عدالت کے کٹہرے میں لایا گیا اور اس سے اس کی کرپشن اور لوٹ مار کا حسا ب مانگا گیا ۔اسے آہنی پنجرے میں قید کر کے عدالت لایا جا تا ہا اور پھرا پنی طویل العمری، خود ساختہ بیماری اور سابقہ فوجی ہونے کے ناطے اسے ہسپتال میں دا خل کروا دیا گیا۔وہ اب بھی اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کی پاداش میں زیرِ حراست ہے لیکن اب اسے یقین ہے کہ اس کے خلاف کوئی قانون حرکت میں نہیں آئیگا کیونکہ اس کا احتساب کرنے والی جماعت اخوان المسلمون اقتدار کے ایوانوں سے نکالی جا چکی ہے اور اس کی جگہ فوجی جنرل فتح السیسی حکومت کی بھاگ ڈور سنبھالے ہوئے ہے جو حسنی مبارک کو ٹا نگنے کی بجائے سہولیات بہم پہنچا رہا ہے۔

فوجی جنتانے ایک بار پھر اقتدارر قبضہ کر لیا ہے اور اخوان المسلمون کوپہلے کی طرح ایک بار پھر خلافِ قانون قرار دے دیا گیا ہے اور اس کی ساری قیادت کو گرفتار کر کے جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔ابھی تک کسی کو یہ سمجھ نہیں آسکی کہ اخوان المسلمون کا قصور کیا تھا؟اس نے جمہوری جدو جہد کے نتیجے میں اقتدار تک رسائی حاصل کی تھی لیکن اسے غیر جمہوری طریقے سے ہٹا نا بالکل بلا جواز تھا جسکی منطق ہر کسی کی سمجھ سے بالاتر ہے ۔اخوان المسلمون بے شمار قربانیاں دینے کے بعد اقتدار کی مسند پر جلوہ افروز ہوئی تھی تو مصری عوام نے سکھ کا چین لیا تھا کہ اب آمریت کی سیاہ رات کا خا تمہ ہو جائیگا اور ایک اجلا اور انصا ف پسند معاشرہ وجود میں آجائیگا لیکن مغرب کے تعصب اور فوجی جنتا کی ریشہ دوانیوں نے اس منزل کو مزید دور کر دیا ہے۔ یورپ جو کہ جمہوری قدروں کا علمبردار ہے وہ محمد مرسی کی حکومت کی برخاستگی میں پیش پیش تھا کیونکہ اسے اسلامی انقلاب کے نام سے خوف آتا ہے۔امریکہ اور یورپ کو جس چیز سے سب سے زیادہ ڈر ہے وہ اسلام کا نام ہے۔ اس کی انتہائی کوشش ہے کہ کسی طرح سے مسلمانوں کو اس عالمی کلچر کا حصہ بنایا جائے جس میں اسلامی قدروں کی تضحیک کا پہلو نمایاں ہو۔

America

America

اسلامی جماعتوں کی موجودگی میں ایسا ہونا ممکن نہیں ہوتا کیونکہ وہ اپنی آئیڈیالوجی سے دستبردار ہونے کیلئے راضی نہیں ہوتیں اس لئے مغرب اس کوشش میں رہتا ہے کہ اسلامی جماعتوں کو کسی نہ کسی بہانے دیوار کے ساتھ لگا دیا جائے اور ان قوتوں کی پشت پناہی کی جائے جو اس کے عالمی کلچر حصہ بننے کیلئے تیار ہوں اور اخلاقی قدروں کو زیادہ سنجیدگی سے نہ لیتے ہوں۔یہ بات صرف مصر کی حد تک ہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ بہت سے دوسرے اسلامی ممالک میں بھی یہی روش دیکھی جا سکتی ہے۔جن ممالک میں بھی مذہبی جماعتوں کو کامیابی ملی امریکہ نے ایک عالمی سازش کے تحت وہاں پر اسلامی جماعتوں کو اقتدار منتقل نہیں ہونے دیا اور اگر منتقل بھی ہوا تو انھیں جلدی ہی فارغ کر دیا گیا۔ہمارے سا منے الجزائر، مراکش، تیونس، فلسطین اور مصر کی مثا لیں موجود ہیں جہاں پرمذہبی جماعتوں کو زیرِ عتا ب رکھا گیا اور ان کے قائدین کو اقتدار کی مسند پر بیٹھنے کی بجائے زندانوں کی تنگ و تاریک کوٹھریوں میں رکھا گیااور ان پر انسانت سوز مظالم کی انتہا کر دی گئی۔۔۔

حیران کن بات تو یہ ہے کہ پہلے محمد مرسی حکومت کو ایک غیر آئینی طریقے سے ختم کیا گیا اور پھر اس کے بعد اس کے کارکنوں پر زندگی کو اجیرن بنایا گیا اور حکومت مخالف کارکنوں کو چن چن کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ان پر ٹینک چڑھا دئے گئے اور اگر انھوں نے مسجد میں پناہ لینے کی کوشش کی تو مسجد کو مظاہرین سمیت جلا ڈالا یاگیا۔حال ہی میں اس کے ٥٢٩ کارکنوں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے جس پر پوری دنیا میں غم و غصہ کا اظہار کیا جا رہا ہے اور جمہوریت پسند لوگ اسے انسانیت اور انصاف کا خون قرار دے کر اس کی مذمت کر رہے ہیں لیکن امریکہ اور یورپ بھنگ پی کر سوئے ہوئے ہیں اور ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ساری اسلامی حکومتیں بھی امریکی سوچ کی غلام بنی ہوئی ہیں اور ظلم کو ظلم ،سفاکیت کو سفاکیت اور شب کو شب کہنے سے گریزاں ہیں۔

ایک پولیس سٹیشن پر حملے کے ردِ عمل میں ٥٢٩ افراد کو موت کی سزا سنائی گئی ہے جو کہ انسانی تاریخ کا بڑا ہی انوکھا اور بے رحم فیصلہ ہے۔ہم نے تو اس طرح کے فیصلے انتہائی سفاک آ مریتوں میں بھی نہیں دیکھے چہ جائیکہ آج کل کے جمہوری دور میں اس طرح کے فیصلے رونما ہوں۔کیا امریکہ دنیا کو یہ بتانا چاہتا ہے کہ دنیا میں جمہوریت امریکہ کی مرضی کے بغیر کہیں بھی نہیں چل سکتی اور جس کسی نے بھی اپنی مرضی تھوپنے کی کوشش کی اسے نشانِ عبرت بنا دیا جائیگا۔ہم نے اس کے کئی نمونے ماضی بھی دیکھے تھے جب امریکہ مخالف قیادتوں کو عبر ت کا نشان بنا یا جا تاتھا اور جو کوئی جو امریکہ بہادر کی مدح سرائی کرتا تھا اسے اعزازات سے نوازا جاتا تھا۔ پاکستان نے اس سوچ کی وجہ سے بھاری قیمت ادا کی ہے۔

وزیرِ اعظم ذولفقار علی بھٹو کی پھانسی بھی اسی سوچ کا شاخسانہ تھا کیونکہ ذولفقار علی بھٹو نے امر یکی سپر میسی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔میری ذاتی رائے ہے کہ امریکہ کیلئے جمہوریت اہم نہیں بلکہ اس کیلئے یہ بات اہم ہے کہ اس کے ایجنڈے پر کون عمل پیرا ہوتا ہے ۔١٢ اکتوبر ١٩٩٩ میں جنرل پرویز مشرف کا شب خون بھی اس کا ایک اور نمونہ تھا۔اس شب خون کو پاکستان کا اندرونی معاملہ کہہ کر امریکہ نے اپنی جان چھڑا لی تھی اور اس نے شب خون کو جمہوری قدروں کا خون قرار دینے کی بجائے جنرل پرویز مشرف کو اپنا دوست بنا لیا تھا۔

جنرل پرویز مشرف کے شب خون کو تسلیم کرنا اور اس کے ساتھ تعلقات کو قائم رکھنا اس بات کا عندیہ تھا کہ جنرل پرویز مشرف امریکی پالیسیوں کو تسلسل دیں گئے اور ان کی ہاں میں ہاں ملائیں گئے۔جنرل پرویز مشرف کا دورِ حکومت امریکی خوشبودی کا منہ بولتا ثبوت تھا ۔امریکہ مشرف سے خو ش تھا تو اس کی حکومت بھی مستحکم تھی لیکن جہاں امریکیوں کو شک گزرا کہ جنرل مشرف ان کے ساتھ ڈبل کراس کر رہا ہے وہاں انھوں نے نئے دفادار تلاش کر کے جنرل مشرف کی چھٹی کروا دی۔بعد کی جمہوری حکومتیں امریکی خو شنودی اور وفاداری میں جنرل مشرف سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گئیں اور یوں جنرل پرویز مشرف کے زوال کے بعد پاکستان میں جمہوریت زندہ باد کا نعرہ عام ہوا۔

امریکہ کی خوشنودی کیلئے کچھ تو کرنا ضروری تھا سو وہ کیا گیا اور دل کھول کر کیاگیا تاکہ کسی کو شک نہ رہے کہ امریکہ ہی پاکستان کا اصلی حکمران اور حکمرانوں کو کبھی ناراض نہیں کیا جاتا۔۔۔

Tariq Hussain Butt

Tariq Hussain Butt

تحریر : طارق حسین بٹ (چیرمین پیپلز ادبی فورم)