بھارتی انتخابات میں مسلمانوں پر مظالم

Narendra Modi

Narendra Modi

ہند و انتہا پسند تنظیم بی جے پی کی طرف سے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کی جانب سے الیکشن جیتنے کی صورت میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے اعلانات کے بعد مذکورہ تنظیم نے اپنے جلسوں میں اسٹیج پر رام مندر کے ماڈل اور اپنے بھگوان رام کی تصاویر لگانا شروع کر دی ہیں اور ہندو مسلم فسادات کی آگ بھڑکانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ ہندو انتہا پسند تنظیم بی جے پی نے ایک بار پھر اعظم گڑھ جہاں مسلمان کثیر تعداد میں رہائش پذیر ہیں اسے دہشت گردوں کا اڈہ قرار دیکر منافرت کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔

بی جے پی کے ریاستی صدر ڈاکٹر لکشمی کانت واجپائی نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ہندوستانی آئین کے اصل مسودہ میں ہندوئوں کے بھگوان کرشن، ارجن، بھگوان رام نٹراج اور دیگر دیوتائوں کی تصاویر بھی بنی ہوئی تھیں تاہم بھارت کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرونے آئین کی دوسری کاپی سے ان دیوتائوں کی تصاویر ہٹوا دی تھیں۔ بھارت کے ”باجنا” گاؤں میں سماج وادی پارٹی کے کارکنوں نے ایک 80 سال کے دلت کو مار مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس شخص کا قصور محض اتنا تھا کہ اس نے یہ راز افشاں کرنے سے انکار کردیا کہ اس نے ووٹ کس کو ڈالا ہے۔

اس شخص کو سیاسی کارکنوں کے تشدد کے باعث سر پر شدید چوٹیں آئی تھیں اور یہ ہسپتال میں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ گاؤں کے دیگر افراد کو بھی دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ گاؤں چھوڑ جاؤ یا پھر اسی قسم کے انجام کے لئے تیار رہو۔ ہلاک ہونے والے شخص کے بیٹے نندرام کی جانب سے سیاستدان موتی لال یادو کے بیٹوں کے خلاف ایف آئی ار کاٹ دی گئی ہے لیکن اس کے مطابق اسے انصاف کی توقع نہیں۔ یہ واقع دلتوں کے خلاف طاقتور ذاتوں کی جانب سے تشدد کی تازہ ترین مثال ہے۔بھارتی ریاست آسام میں انتہا پسند ہندوؤں کے مسلمانوں کے گھروں پر حملوں میں خواتین اور بچوں سمیت 30 افراد مارے گئے۔

ریاست آسام کے ضلع کوکراجھارکے گاؤں بالاپارا جن میں جدید اسلحے سے لیس 20 سے 25 ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کے 3 گھروں پر اچانک حملہ کردیا جس کے نتیجے میں 4 خواتین اور 3 بچوں سمیت 8 افراد موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے جب کہ حملے میں 2 افراد زخمی بھی ہوئے۔آسام ہی کے ضلع بکسہ کے نواحی گاؤں میں بھی ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کے ایک گھر میں گھس کر اندھا دھند فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں 2 خواتین سمیت 3 افراد جاں بحق ہو گئے، دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ انتہا پسندوں کی جانب سے حملے بوڈو لینڈ جزیرے میں ان کے خلاف ہونے والے آپریشن کا انتقام معلوم ہوتے ہیں۔

بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں کوکراجھار اور باسکا کے اضلاع میں تشدد کے دو واقعات میں مزید لاشیں ملی ہیں جس کے بعد ہلاک ہونے والوں کی تعداد 30 ہو گئی ہے۔ پہلے دن 10 لاشیں برآمد ہوئی تھیں، دوسرے دن 12 اور سنیچر کو مزید آٹھ لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ ہلاک ہونے والے افراد بنگالی مسلمان تھے اور مبینہ طور پر انھیں بوڈو قبائلیوں نے نشانہ بنایا۔ باسکی ضلعے کے ناراین گڑی علاقے سے مزید آٹھ لاشیں ملی ہیں جن میں پانچ بچے اور خواتین شامل ہیں۔

کانگریس کی صدر سونیا گاندھی نے ان ہلاکتوں پر گہرے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے ان کی سخت مذمت کی۔انھوں نے کہا: ‘بھارت کی اکثریت لوگوں کو منقسم کرنے والی اور شدت پسند قوتوں کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دے گی۔’پولیس کے مطابق حملہ آوروں نے جمعرات کی رات ریاست کے کوکراجھار اور باسکا اضلاع میں دو مقامات پر اندھا دھند فائرنگ کی۔بھارتی میڈیا میں یہ اطلاعات ہیں کہ یہ حملے 24 اپریل کی پولنگ کا نتیجہ ہیں۔یہ دونوں علاقے بوڈولینڈ علاقائی کونسل (بی ٹی سی) میں شامل ہیں، جہاں دو برس پہلے بھی بوڈو قبائلیوں اور بنگالی مسلمانوں کے درمیان بڑے پیمانے پر فسادات ہوئے تھے۔بھارتی خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا کیمطابق حکومت نے متاثرہ علاقے میں گشت کے لیے فوج کی مدد حاصل کر لی ہے اور مرکز سے نیم فوجی دستوں کی دس کمپنیاں بھی طلب کی گئی ہیں جبکہ علاقے میں کرفیو لگا دیا گیا ہے۔بوڈو قبائلیوں کا الزام ہے کہ سرحد پار بنگلہ دیش سے آنے والے مسلمان غیر قانونی طور پر اس علاقے میں آباد ہوگئے ہیں۔

Elections

Elections

یہ علاقہ بھوٹان کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ بنگلہ دیش سے آ کر ہندوستان میں بسنے والے لوگوں کا مسئلہ اس الیکشن میں بھی اہم انتخابی موضوع رہا ہے اور وزارت عظمیٰ کے لیے بی جے پی کے امیدوار نریندر مودی نے چند روز قبل مغربی بنگال میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 16 مئی کو انتخابی نتائج کا اعلان ہونے کے بعد غیر قانونی تارکین وطن کو واپس بھیج دیا جائے گا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ تشدد کی ان واقعات کا پارلیمانی انتخابات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس علاقے میں 24 اپریل کو ووٹ ڈالے گئے تھے جس میں ایک قبائلی اور ایک غیر قبائلی امیدوار کے درمیان سخت مقابلہ ہوا۔

آسام پولیس کیسربراہ ایل آر بشنوئی کے مطابق جمعرات کی شام تقریباً سات بجے پہلے واقعے میں تین افراد ہلاک ہوئے، جبکہ کوکراجھار میں حملہ آدھی رات کے قریب کیا گیا اور اس میں سات لوگ مارے گئے۔پولیس کے مطابق دونوں حملوں میں اے کے سیریز کی رائفلیں استعمال کی گئیں اور حملہ آوروں کا تعلق نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈو لینڈ سے بتایا جا رہا ہے۔واضح رہے کہ سنہ 2012 میں آسام میں بوڈو قبائل اور مسلمانوں کے درمیان خوں ریز تصادم ہوئے تھے جن میں 100 سے زیادہ افراد مارے گئے تھے اور لاکھوں افراد بے گھر ہوئے تھے۔ مرنے والوں اور بے گھر ہونے والوں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ نریندر مودی سے بھارت کے مسلمان خوفزدہ نہیں ہیں بلکہ نفرت کرتے ہیں کیونکہ نریندر مودی کے ہاتھ ہزاروں بے قصور مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئی ہیں۔

بی جے پی آر ایس ایس کی سیاسی شاخ ہے جس کو اقتدار میں لانا گویا ہندوستان کو دوبارہ تقسیم کے دہانے پر پہنچناہوگا۔ ہندوتوا کے نام پر ملک کو بچانے کا نعرہ لگانے والے آرایس ایس کے پرچارک اپنے ماضی کو فراموش کرچکے ہیں۔ ہندوستان کی آزادی میں کسی بھی قسم کا رول آر ایس ایس نے کبھی ادا نہیں کیا جبکہ آر ایس ایس کاقیام 1925میں عمل میں آیا مگر ہندوستان آزاد ہونے کے بعد ہندوستان کو برصغیر کا عظیم جمہوری ملک بننے میں آر ایس ایس نے بڑی رکاوٹیں کھڑی کی۔ ہندوتوا نظریہ کیساتھ اس ملک کو آر ایس ایس نے ہندوراشٹر بنانے کی کئی کوششیں کی۔ گجرات میںجہاں پر2002سے قبل عیسائی مبلغین کو زندہ جلانے اور نن کی عصمت ریزی کے واقعات پیش ائے اور 2002 میں جس طرح منظم انداز میں مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی اور معصوم بچوں اور عورتوں کو بی جے پی و آر ایس ایس کے درندوں نے اپنا نشانہ بنایا۔

اسی طرح ہندوستان بھر میں گجرات کے تجربہ کو روبعمل لانے کا وعدہ ہی گجرات ماڈل کو ہندوستان بھر میں پیش کرنے بی جے پی و آر ایس ایس کا دعویٰ ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے قومی سکریٹری ورکن راجیہ سبھا ڈی راجہ کا کہنا ہے کہ نریند ر مودی دستور ہند کی سختی کے ساتھ مخالفت کرنے والی آرایس ایس تنظیم کے نظریات پر کام کررہے ہیں جو ملک کو ایک اورتقسیم کے دہانے پر پہنچا دے گا۔

Mumtaz Awan

Mumtaz Awan

تحریر:ممتاز اعوان
برائے رابطہ:03215473472