آج ایسا لگتا ہے کہ جیسے پاکستان کو لوٹنے والو ں نے اِسے سونے کا انڈادینے والی مُرغی سمجھ رکھاہے، جس کا جہاں سے بس چل رہاہے، بس.. وہ اِسے نوچ نو چ کر لوٹنے اور اپنے دامن بھرنے کے چکر میں غرق ہے، کسی کو کسی کا کچھ خیال ہی نہیں ہے،آج اگرکسی کو کچھ خیال ہے تو بس اُسے اپنی ہی جیبیں بھرنے اور اپنے ہی بینک اکاونٹس بڑھانے اور اپنی نام وری کی فکر ہے یہاں مجھے یہ کہتے ہوئے ذرابھی عارمحسوس نہیں ہورہی ہے کہ آج میرے مُلک کے حکمران ہوں کہ سیاستدان، بیوروکریٹس ہوں کہ قومی اداروں کے سربراہان غرض کہ اَب تووہ گلی کوچوں، محلے بازاروں ، شہرشہراورکریہ کریہ میں قائم اِنسانیت کی خدمت میں لت پت رہنے والے فلاحی اداروں کے کارندے ہی کیوں نہ ہوں اِن سب کے نزدیک اپنے ہی مفادات عزیزہیں ، اَب موجودہ لمحات میں مجھے بڑے افسوس کے ساتھ یہ بھی کہنا پڑرہاہے کہ آج اِنسانیت کی خدمت کا دم بھرنے والے ہمارے مُلک کے معروف فلاحی اداروں کی مفاد پرستی اور موقع پرستی بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے۔
یہ سب بھی زمانے کی بدلتی رُت کے ساتھ اپنے مفادات میں سب سے آگے ہیں یوںہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ آج اِن کی مفادپرستی اور موقعہ پرستی بھی سب سے زیادہ عروج پر ہوتی ہوئی محسوس کی جاسکتی ہے اِس کی ایک تازدہ مثال گزشتہ دِنوں میرے ساتھ پیش آئے اُس واقعے کی ہے جس نے مجھے میرے شہر میں اِنسانیت کی خدمت کا دعوی ٰ کرنے والے ایک چھیپانامی فلاحی ادارے کی نام نہا د کارکردگی کے سارے بھید اُس وقت کھول دیئے جب مجھے اِس ادارے کی ایمرجنسی ایمبولنس سروس 1020 سے ایمبولنس کی خدمت درکار تھی مگر ادارے کی جانب سے تعاون کے بجائے ٹکے سے جواب کے بعد مجھے جو مایوسی ہوئی سو ہوئی مگر اِس ادارے سے بروقت ایمبولنس نہ ملنے کے باعث میری بھابھی کا جو انتقال ہوااور اِس کے انتقال سے اِس کے دومعصوم پھول جیسے بچے اپنی شفیق اور محبت کرنے والی ماں کے سائے سے محروم ہوگئے ہیں۔
اِس کا بہت دُکھ ہے اگر چھیپا کی بروقت ایمبولنس مل جاتی اور مرحومہ کو اسپتال پہنچادیاجاتاتو ممکن تھاکہ مرحومہ کو نئی زندگی مل جاتی اور آج اِس کے بچے بھی اپنی ماں کی شفقت اور اِس کے سائے سے محروم نہ ہوتے …آج اِس واقعہ کو بیان کرنے میں ،میں لغوی کا استعمال نہیں کروں گااور من وعن یوں ہی بیان کروں گاجیساکہ میرے ساتھ اُس وقت یہ واقعہ پیش آیا۔
Jumat ul-Mubarik
عرض یہ ہے کہ وہ دومئی 2014 بروز جمعتہ المبارک کے صبح صادق کے پانچ بجکر پچیس منٹ کا وقت تھا (یہاں واضح کرتاچلوں کہ اِس روز شہر میں ایک بڑی سیاسی جماعت کے کارکنوں کی ہلاکت کی وجہ سے اِس جماعت کی جانب سے دی جانے والے کال پر یوم سوگ بنایا جارہاتھا، اور یہ سلسلہ پچھلے روز جمعرات کی شام سے ہی جاری تھاجس کی وجہ سے شہر کے بیشتر علاقوں میں معاملات زندگی مفلوج ہوکر رہ گئے تھے،سڑکوں پر سناٹاتھا، پبلک ٹرانسپورٹ سڑکوں سے غائب تھیں،)اِن لمحات میںجب میرے تیسرے نمبروالے چھوٹے بھائی کی بیوئی اور میری سب سے اچھی اور شریف النفس بھابھی کی طبیعت اچانک خراب ہوگئی تھی، اِن کی طبیعت کے یوں اچانک خراب ہونے پر گھرمیں ایک گہرام برپاتھا، ہر طرف بس یہی ایک شعور تھاکہ جلد ی سے ایمبولنس منگوائی جائے۔
اور اِنہیں قریبی کسی اسپتال لے جایاجائے تب راقم الحرف نے اپنے موبائل فون سے شہر کے معروف فلاحی ادارے چھیپاکی ایمرجنسی ایمبولنس سروس 1020پر فوری رابطہ کیا (یہاں اپنے قارئین کو یہ بھی بتاتاچلوں کہ چھیپا ایمبولنس سروس کا نمبر مجھے یوں بھی یاد ہے کہ اِس سروس کا موبائل نیوزالرٹ سے آنے والی نیوز کا دن میں کئی مرتبہ یہ پیغام چلتاہے کہ شہرمیں کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں چھیپا1020ایمبولنس سروس سے رابطہ کریں اور ایمبولنس کی فوری خدمات حاصل کریں یوں میں نے اِسے ترجیحی دی تب آپریٹر سے فوری طور پر اپنے پتے پر ایمبولنس کی روانگی کی درخواست کی مگر اُدھر سے آپریٹرنے مجھے فوراََ ہی یہ ٹکاساجواب دے دیاکہ” جناب ہم آپ کو فوری طور پر کسی بھی صورت میں دیئے گئے پتے پر ایمبولنس روانہ نہیں کرسکتے ہیں۔
کیوں کہ ابھی ہمارے کسی بھی پوائنٹس پر کوئی بھی ایمبولنس موجود نہیں ہے ،دن کے دس بجے تک اگر ایمبولنس پوائنٹس پر آئیں تو ہم آپ کے دیئے ہوئے پتے پر گاڑی روانہ کردیں گے تب تک کے لئے معذرت آپ کو ئی اور انتظام کرلیں ”اور پھر جب اِدھر اُدھر کافی دیر تک سرپھوڑنے کے بعد بھی کوئی سواری میسر نہ آئی تواِسی اثنامیں قضائے الہیٰ سے میری بھابھی انتقال کرگئیں، آج اِنہیں وفات پائے چھٹاروز ہے آج بھی جب میں اُس لمحے کو یادکررہاہوں تو مجھے بہت افسوس ہورہاہے اورمیں یہ سوچ رہاہوں کہ کیااَب چھیپا جیسے فلاحی ادارے کی عوامی خدمت محض دکھاواہے …؟؟اور اِسی طرح کیا ہمارے چھیپاجیسے فلاحی ادارے کے سربراہ ٹی وی چینل پر آکر جھولے میں پڑے لاوارث بچوں کو بن اولادجوڑوں میں باٹ کر یہ سمجھنے لگے ہیں کہ بس یہی اِن کی خدمت خلق ہے۔
یا یہ ادارے شہر میں رونماہونے والے کسی بڑے حادثے کی صورت میں ٹی وی چینلز کے کیمروں اور اخباری فوٹوگرافروں کے سامنے زخمیوں اور ہلاک شدگان کو اُٹھانے کے لئے لڑنے اور اپنا اسکوربڑھانے کے لئے ہی رہ گئے ہیں…؟؟؟ اَب کیا اِن کے نزدیک گھر سے کسی مریض کو اسپتال لے جانااِنسانیت کی خدمت اِس لئے نہیں رہاہے کہ گھرسے اسپتال لے جانے والے مریض کی کوریج کوئی ٹی وی چینل یا میڈیاکا نمائندہ نہیں کرے گا،اِس لئے کسی مریض کی خدمت سے چھیپاجیسے اور بہت سے ادارے بھی معذرت کرنے لگے ہیں، حالانکہ گھرسے کسی مریض یا کسی مرتے ہوئے اِنسان کی زندگی بچانے کے لئے اِسے اسپتال پہنچانابھی تو خدمت خلق کا اولین فریضہ ہے اپنے اِس عمل سے بھی توچھیپاجیسے فلاحی ادارے اپنی نیک نامی میں اضافہ کرسکتے ہیں ،میرے ساتھ پیش آیایہ واقعہ میرے لئے کوئی پہلانہیں ہے۔
اِس سے پہلے بھی میرے ایک جاننے والے مجھ سے چھیپاایمبولنس سروس 1020 سے متعلق ایسی شکایت بیان کرتے ہوئے مجھے کالم لکھنے کا کہہ چکے تھے مگر تب میں اُن کی بات کو گول مول کر گیا تھااور تب میں سوچا کرتا تھا کہ یہ ایساممکن نہیں ہوسکتا کہ جیسایہ صاحب کہہ رہے ہیں کیوں کہ یہ ادارہ اپنی نیک نامی میں اپنی مثال آپ ہے مگر اَب چونکہ ایساہی سچاواقعہ میرے ساتھ بھی پیش آچکاہے تو پھر میں نے یہ کالم لکھ کروہ کر دیا جو بحیثیت ایک کالم نگار کے مجھے کرناچاہئے ، آج یہ کالم لکھنے کا مقصد کسی کی ہتک کرنا مقصود تو نہیں ہے ہاں البتہ ..!اتنا ضرور ہے۔
ہمارے وہ فلاحی ادارے جو خدمت کے نام پر عوامی امداد سے چلتے ہیں اور جوابھی سے ہی ماہ رمضان میں مُلک کے غربیوں اور بے سہارالوگوں کی خدمت کی آڑمیں زکوة و فطرے اور چندے بٹورنے کے لئے اپنی نئی نئی منصوبہ بندیاں اور پروگرام ترتیب دے رہے ہیں اِن اداروں کو چاہئے کہ وہ اپنی اِنسانیت کی خدمات کو تمام ترشک وشہبات سے پاک کریں اور ایک اِنسان کی خدمت اِنسانیت کی خدمت سمجھ کریں ورنہ مجھے جیسے ابھی کتنے ہی ایسے ہوں گے جو اَب اِن کی نام نہاد اِنسانیت کی خدمت کی آڑ میں اِن کے مفادات اور موقع پرستی پر اپنے قلم سے اِن پر کاری ضرب لگائیں گے اور اِن کا چہر ہ بے نقاب کریں گے۔