شخص نے کسی دانشور سے دریافت کیا حضرت !کرپشن کی (Definition) تعریف کیا ہے؟ اس نے بلا تامل جواب دیا اپنے اختیارات سے تجاوز کرنا کرپشن ہے۔ اگر اس فارمولے پر عمل کیا جائے تو ہماری پوری کی پوری بیوروکریسی اور سارے کے سارے سیاستدان کرپٹ ہو جاتے ہیں یہ تو بڑی بات قلم سے لکھ دی گئی ہے۔ اور تو اور پاکستان میںتو ایک معمولی اہلکار اپنے دفتر کے افسر ِ اعلیٰ کے اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے بعینہ’ ایک کانسٹیبل کا بس چلے تو وہ SHO کے اختیارات انجوائے کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا خیر پاکستان میں یہ معمولی باتیں ہیں ہمارے پڑوسی اور دنیا کی سب سے بڑی سیکولر جمہوریت کہلوانے والے ملک میں کچھ ماہ قبل تیزی سے مقبولیت کے ریکارڈ قائم کرنے والی ”عام آدمی پارٹی ” نے دہلی میں سرکار بنائی تھی جب دہلی کے وزیر ِ اعلیٰ اروندک یجریوال کرپشن کے خلاف کے میدان میں آئے انکے اقدامات کو عوام نے بے حد سراہا لیکن اس کے باوجود ان کی کرپٹ عناصر کے آگے ایک نہ چلی جب انہوںنے کرپشن کے خلاف اسمبلی میں قانون سازی کرنا چاہی مگر ناکام رہے تو وہ احتجاجاً کابینہ سمیت مستعفی ہوگئے۔
اس کا ایک مطلب یہ بھی لیا جا سکتاہے کہ روندک یجریوال نے کرپٹ عناصرکے آگے ہتھیار ڈال دئیے۔۔۔ ان کا استعفیٰ ایک اچھی روایت ہے بلکہ اسے روایت ساز بھی کہا جا سکتاہے۔۔
پاکستان میں تو سرے سے ایسی کوئی روایت ہی نہیں یہاں تو ایک سابق صدر ۔۔دو سابق وزراء اعظم سمیت 8000سے زائد سیاستدانوں، فوجی افسروں ، بیورو کریسی میں کرپشن۔۔۔ کرپشن کا کھیل کھیلنے والوں کے خلاف مقدمات موجود ہیں۔۔ کرپٹ عناصر کی بیخ کنی کیلئے ”نیب ” جیسا ادار ہ موجود ہے۔۔انٹی کرپشن کا محکمہ بھی ہے۔FIA میںبھی کرپشن کے کئی معاملات کی تفتیش ہوتی ہے لیکن جس معاشرے میں رشوت کے الزام میں گرفتار ہونے والا رشوت دے کر چھوٹ جائے وہاں اصلاح ِ احوال کی تمام کوششیں دم توڑ جاتی ہیں یہ تو خود بھی شرمسارہو مجھ کو بھی شرمسار کر والا معاملہ ہے۔
لگتاہے کرپشن ہر ادارے کی رگ رگ میں سماگئی ہے اس لئے سائلین ذلیل و خوار ہوتے ہیں جونہی سائل نے باربار چکر لگانے سے تنگ آکر مجبوراً کسی اہلکارکی مٹھی گرم کی حالات ہی بدل جاتے ہیں جو کام کئی ماہ سے اٹکا ہوتاہے دنوںمیں ہو نے کی سبیل نکل آتی ہے ۔ایک اور اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کرپشن کی علامت بن چکی ہے بڑے بڑے رہنمائوںنے سیاست کو صرف اپنی ترقی کیلئے مخصوص کررکھاہے یہی لوگ جرائم پیشہ افرادکی سرپرستی کررہے ہیں کراچی ، بلوچستان اور دیگر شہروں میں امن و امان کا مسئلہ بھی اسی لئے الجھاہوا ہے۔
Democracy
کہ مجرم ذہنیت لوگوں نے سیاست اور جمہوریت کو یرغمال بنارکھا ہے جس کی وجہ سے حالات مزید خراب ہوتے جارہے ہیں یہ عناصر اتنے طاقتور ہیں کہ ان کی مرضی کے بغیر پولیس اور دیگر قانون نافذکرنے والے ادارے ان کے علاقوں میں قدم بھی نہیں رکھ سکتے اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس میں ہر قسم کی کرپشن کو حرام قرار دیا گیاہے اس کیلئے حرام اور حلال کا ایک وسیع تصور ا س کے مفہوم ومعانی کااحاطہ کرتاہے یہ الگ بات کہ اب پاکستانی معاشرے میں حرام اور حلال کی تمیز ختم ہو تی جارہی ہے یہی مسائل کی اصل جڑ ہے دولت کی ہوس ، ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ، معاشرہ میں جھوٹی شان و شوکت اورراتوں رات امیربننے کی خواہش نے اکثریت کو بے چینی میں مبتلا کرکے رکھ دیاہے۔۔انہی خواہشات نے اختیارات سے تجاوز کرنے پر مجبور کررکھاہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو دہلی کے مستعفی وزیر ِ اعلیٰ اروندک یجریوال نے بھارت کے بے ایمان معاشرے کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ رسیدکیاہے جس سے ہر کرپٹ کا منہ سرخ ہورہاہے۔۔۔پاکستان میں بھی ایسی ہی روایت کی طرح ڈالنی ہوگی ہمارے حکمران دن رات عوام کی خدمت کے دعوے کرتے رہتے ہیں میاں شہباز شریف اس خدمت کیلئے کچھ نہ کچھ کرتے نظرآتے ہیں ان کے اقدامات ا چھے بلکہ انقلابی بھی کہے جا سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود عوام کو کسی طور ریلیف نہیں مل رہی۔۔جتنا پاکستانی معاشرہ بگڑ چکاہے۔۔ متعدد محکموں کی کارکردگی سے جتنے لوگ تنگ ہیں یا پھر جتنی بہتری لائی جا سکتی ہے۔
ان کیلئے ایک مربوط حکمت عملی اور ٹھوس منصوبہ بندی کی اشد ضرورت ہے۔ انڈیا میں تو کرپشن کے خلاف ایک سماجی رہنما انا ہزارے ایک علامت بن کر ابھراہے اس کے بعد روندک یجریوال نے اس کی سوچ کو مزید تقویت دی حالانکہ ہمارا مذہب تو ہر قسم کی کرپشن کے خلاف ہے ہمارے مذہبی، سیاسی و سماجی ،مذہبی رہنمائوں اور اداروںکو کرپشن کے خلاف میدان میں آنا چاہیے جرأت مندی سے اس فتنے کا مقابلہ کیا جا سکتاہے علماء کرام حلال و حرام کے فلسفہ کو اجاگر کرنے کیلئے بڑے ممدو معاون ثابت ہو سکتے ہیں یہ بات سب سے اہم ہے کہ ایک مسلم معاشرے میں حلال و حرام کی تمیز کے بغیر کرپشن کا خاتمہ ناممکن ہے۔ کعبہ کو کس منہ سے جائو گے غالب شرم تم کو مگر نہیں آتی