صوبہ سندھ کے ضلع تھرپارکر میں بسنے والے 15 لاکھ لوگوں کی مشکلات اور پریشانیوں کا لوگوں کے سامنے آنکھوں دیکھے حالات کا ذکر کیا تو کئی ایک سے جواباً یہ سننے کو ملا کہ تھرپارکر کے لوگ اگر اس قدر سختیوں میں گھرے ہیں تو علاقہ چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟ ایسی جگہ جہاں پانی کی ایک بوند حاصل کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں، وہاں رہنے کی ضرورت کیا ہے؟ لیکن کیا ایسا ممکن ہے…؟
عملاً تو ہرگز نہیں، کیونکہ اگر اس نظریے کو بنیاد بنایا جائے تو ملک کا شاید ہی کوئی دیہات بچے کہ جہاں سے علاقہ چھوڑ کر شہروں کی جانب کوچ کا مشورہ نہ دیا جا سکے بلکہ بہت سے شہر بھی شاید خالی کرنے پڑ جائیں جس سے ملک غیر آباد تو دشمن کا کام آسان ہو جائے گا۔ تھرپارکر کو تو چھوڑنا اور خالی کرنا تو ہر لحاظ سے اس خطہ کو دشمن بھارت کے حوالے کرنے کے مترادف ہو گا کیونکہ یہ ضلع بھارت کی سرحد پر واقع ہے جہاں1971ء کی جنگ کے دوران بھارتی افواج کئی کلو میٹر پاکستانی حدود میں گھس آئی تھیں۔
بھارتی افواج کو پاک فوج کے ایک بہادر جوان نے اس طرح روکا کہ اس نے یہاں واقع گرینائٹ کی پہاڑیوں پر کئی مشین گنیں نصب کر دیں اور پھر وہ دوڑ کر کبھی ایک گن سے فائر کرتا تو کبھی دوسری سے… یوں سامنے دشمن بھارت کی افواج کو اندازہ ہی نہیں ہو پایا تھا کہ ان کے مقابلے میں کتنی فوج کھڑی ہے اور یوں پھر کئی گھنٹے اس طرح معرکہ آرائی کے بعد پیچھے سے کمک پہنچی تو بھارتی فوج کو پسپا کیا گیا۔ یہاں اسلام کوٹ کے پاس اس عظیم معرکہ کی یادگار بھی تعمیر ہے۔
مٹھی سے ہمارا سفر اسلام کوٹ کی طرف عالمی شہرت یافتہ تھرکول پاور پراجیکٹ کی جانب رخ کیاجس سے آج پاکستان اور اہل پاکستان کی بے شمار امیدیں وابستہ ہیں۔ یہاں توانائی کے 3 بڑے منصوبے زیر تکمیل ہیں اور جس منصوبے پر کام جاری ہے وہ معروف ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر ثمر مبارک مند کا تجویز و شروع کردہ ہے۔
تھرپارکر کا شمار دنیا کے چند بڑے صحرائوں میں ہوتا ہے تو اس کے نیچے کوئلے کا دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ذخیرہ بھی دفن ہے۔ یہ ذخیرہ 1991ء میں دریافت ہوا تھا۔ اس ذخیرے کی دریافت کے بعد پاکستان کا شمار دنیا کے ان چوٹی کے 20 ممالک میں ہونے لگا جن کے پاس کوئلے کے اتنے وسیع ذخائر ہیں۔ یہاں کوئلے کے ذخائر کا اندازہ 9 ہزار مربع کلو میٹر لگایا گیا ہے جن میں اندازے کے مطابق 175 ارب ٹن کوئلہ موجود ہے جو ملک کی توانائی کی تمام تر ضرورت کو سینکڑوں سال تک بآسانی اور انتہائی سستے داموں پورا کر سکتا ہے۔
Dr. Samar Mubarak Mand
ڈاکٹر ثمر مبارک مند اس حوالے سے کہتے ہیں کہ تھر کے ذخائر کو جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے زمین کے اندر ہی گیس میں تبدیل کیا جا سکتا ہے اور اس گیس کو مائع ایندھن یعنی ڈیزل میں بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ڈاکٹر ثمر کہتے ہیں کہ 2005ء میں ایک نئی ٹیکنالوجی آئی ہے جس کے ذریعے کوئلہ اندر ہی جلا کر اس سے گیس پیدا کی جا سکتی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے چین، امریکہ، آسٹریلیا، ازبکستان اور جنوبی افریقہ سمیت کئی ممالک میں بجلی پیدا کی جا رہی ہے۔ چین میں اس نوعیت کے 10 کنویں کھودے جا رہے ہیں۔ آسٹریلیا میں تھرکول جیسے ذخائر سے 4 ہزار میگاواٹ، ازبکستان میں 400 میگاواٹ، سپین میں 550 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے حالانکہ ان ممالک کے ذخائر بہت کم ہیں جبکہ پاکستان کے کوئلہ ذخائر کا شمار دنیا کے عظیم ترین ذخائر میں ہوتا ہے۔
یہاں پیدا ہونے والی بجلی کی پیداواری لاگت 4 روپے سے ساڑھے چار روپے فی یونٹ پڑے گی۔ یوں اس سے ملک میں صنعتی انقلاب آ جائے گا۔ پاکستان کا 5 ارب ڈالر کا پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات کا بل 60 فیصد کم ہو جائے گا۔ گھریلو صارفین کیلئے سستی بجلی فراہم کرنا ممکن ہو جائے گا۔ ابھی تک یہاں کسی ملکی اور غیر ملکی کمپنی کو ٹھیکہ نہیں دیا گیا جبکہ بلاک نمبر 2 اینگرو کیمیکل اور سندھ کول مائننگ کمپنی کو دیا گیا ہے جس میں 40 فیصد حصص اینگرو کیمیکل اور 60 فیصد سندھ حکومت کے ہیں۔ یہاں تھرکول پاور پراجیکٹ پر کام کرنے والے انجینئرزسے بھی ملاقات کی اور وہ کنویں بھی دیکھے جن میں زیر زمین آگ لگا کر اب گیس باہر نکالی جا رہی ہے۔ اس دوران میں جب سارے سندھ سے ہٹ کر اس علاقے میں سب سے بہترین سڑکیں تیزی سے تعمیر ہوتی دیکھیں جن سب کا رخ تھرپارکر کی طرف تھا تو یقین آ گیا کہ ان شاء اللہ وہ وقت دور نہیں جب پاکستان توانائی کے حوالے سے مکمل طور پر خود کفیل ہو جائے گا۔
اس کے بعد نگرپارکر کی طرف سفر شروع کیا تو برادر خالد سیف نے سڑک کے ایک کنارے انتہائی قیمتی پتھر گرینائٹ کا طویل پہاڑی سلسلہ دکھایا تو دوسری طرف چائنا مٹی کے کارخانے، جہاں ہر طرف سفیدی بکھری ہوئی تھی۔ گرینائٹ وہ قیمتی پتھر ہے جس کا استعمال آج کل عمارتوں کی تعمیر اور ان کی آرائش میں کثرت سے ہوتا ہے اور اس سے طرح طرح کے نوادرات بھی بنائے جاتے ہیں۔ یہاں اس قیمتی پتھر کے وسیع ذخائر ہیں جنہیں کاٹ کاٹ کر ملک کے تمام حصوں بلکہ بیرون ملک بھی بھیجا اور اس سے زرمبادلہ کمایا جا رہا ہے جبکہ یہاں پائی جانے والی چائنا مٹی پنجاب سمیت ملک بھر میںپھیلے برتن بنانے والے کارخانوں کو ابتدائی تیاری کے عمل سے گزارنے کے بعد منتقل کی جاتی ہے۔
جہاں اس سے بننے والے برتن ملک میں بھی فروخت ہوتے ہیں تو باہر کی دنیا کو بھی بھیجے جاتے ہیں۔ نگر پارکر شہر سے تھوڑا ہی پہلے ایک پٹرول پمپ پر کھڑے بڑے ٹرک دیکھے جن پر صحرائی ٹرکوںجنہیں یہاں کیکڑا کہا جاتا ہے ،سے پیاز کی بوریاں اتار کر لوڈ کی جا رہی تھیں۔ مقامی ساتھیوں نے بتایا کہ یہاں کچھ علاقے میں پانی ہے جہاں سبزیاں خصوصاً پیاز سب سے زیادہ کاشت کیا جاتا اور پھر سارے ملک کو بھیجا جاتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوا کہ اگر تھرپارکر کو پانی مہیا کر دیا جائے تو یہی صحرائی زمین معدنیات کے ساتھ ساتھ زراعت کے میدان میں بھی ملک کے کسی حصے سے پیچھے نہ رہے۔
تھرپارکر میں اگر دنیا کا ایک بڑا صحرا ہے تو اس صحرا کو دنیا بھر میں اس لحاظ سے سب صحرائوںپر فوقیت و انفرادیت حاصل ہے کہ یہ سرسبز اور آباد صحرا ہے۔ اس صحرا میں پائے جانے والے سبزے پر پلنے والے جانور ملک بھر میں صحت مند گوشت کی فراہمی کا بڑا ذریعہ ہیں۔ یہاں ہر طرف انسان کم لیکن جانور بہت زیادہ دکھائی دیتے ہیں بلکہ یہاں کے شہروں میں بھی دن رات یہ جانور آزادی سے گھومتے پھرتے ہیں، کیونکہ یہاں جرائم خصوصاً چوری چکاری نہ ہونے کے برابر ہے۔اس وقت دنیا میں صحت مند اور تازہ گوشت کی فراہمی بڑے مسائل میں سے ایک بنتا جا رہا ہے۔ اگر یہاں اس آباد و سرسبز صحرا کو انتہائی معمولی رقم خرچ کر کے پانی مہیا کر دیا جائے تو اس علاقے کو بآسانی ملک و بیرون ملک جانوروں اور گوشت کی سپلائی کا سب سے بڑا مرکز بھی بنایا جا سکتا ہے۔
یہاں کے صحرا کے نیچے اگر کوئلے کے اتنے وسیع ذخائر موجود ہیں تو یہیں پانی کا وسیع ذخیرہ بھی دریافت ہو چکا ہے جسے اب صرف باہر لانے کی ضرورت ہے۔ وسیع رقبے پر پھیلا ضلع تھرپارکر پاکستان کی ترقی اور معیشت کی مضبوطی کیلئے ریڑھ کی وہ ہڈی ثابت ہو سکتا ہے جو سارے ملک کو تن تنہا سنبھالا دینے اور اسے ہر لحاظ سے آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تھرپارکر کے انہی لوگوں اور اس خطہ کو زندہ و جاوداں رکھنے کیلئے جماعة الدعوة اور اس کا رفاہی ادارہ فلاح انسانیت فائونڈیشن عرصہ 10 سال سے اس وقت سے سرگرم ہے جب دنیا نے اس کا نام بھی کبھی کم ہی سنا تھا۔ اسی تھرپارکر کیلئے ملک و ملت کو جگانے کا مشن لئے فلاح انسانیت فائونڈیشن کے چیئرمین جناب حافظ عبدالرئوف گلی گلی، نگر نگر گھوم رہے ہیں۔ آوازہ حق بلند کر رہے ہیں۔ پھر کون کون ہے جو اس کے لئے اپنا حصہ ڈالنے کیلئے آگے بڑھتا ہے۔