آٹے کیلئے لائن میں لگی بوڑھی ماں کے جھریوں زدہ چہرے پر پہلی بار حقیقی خوشی کے آثار نظر آئے ایک ایسی خوشی جو دل سے پھوٹتی ہے اور چہرے پر آ کر لوسی دینے لگتی ہے اس خوشی کے استفسار سے پہلے ہی بوڑھی ماں بول اٹھی کہ بغاوت کی فصل پک چکی ہے تبدیلی اب اِس قوم کا مقدر ہے پھر مجھے عمران خان کے وہ الفاظ یاد آئے جوزندہ دلوں کے شہر لاہور کی فضائوں میں معلق ہو کر رہ گئے۔
اس نے کہا تھا کہ “مایوسی غصے میں بدلی تو انقلاب آئے گا” میں آٹے کیلئے لائن میں لگی بوڑھی ماں کے الفاظ پر سوچنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہاں قابل احتساب اقلیت کے ہاتھوں ناقابل احتساب اکثریت یرغمال ہو جہاں غیر منصف اہلیت کے ہاتھوں عوام کا حق خود ارادیت سبوتاژ ہو جہاں حکمرانوں اور عوام کے درمیان غلام اور آقا کا فرق بتدریج بڑھ رہا ہو جہاں 7643افراد کے ہاتھوں 18کروڑ لوگوں کا معاشی گینگ ریپ ہو جہاں جہالت پسندی اور روشن خیالی کے درمیان معرکہ آرائی ہو رہی ہو جہاں ڈگری یافتہ نسل نو کو بے روزگاری کا ناسور، رشوت ، سفارش ،اقرباپروری،منشیات ،خودکشی اور ظلم و استحصال کی صورت ڈس رہا ہو جہاں جمہوریت ، جمہور کو سوکھے پتوں کی طرح پائوں تلے کچل رہی ہو جہاں راستے تحفظ اور شہری پناہوں کے طلب گارہوں جہاں گلیوں کے پیچ و خم میں بارود بھرا ہو جہاں امن لا قانونیت، مذہبی جنونیت،افراط زر ، نام نہادد ہشت گردی،غربت، بے روز گاری، بدمعاشی، حکمرانوں کی من مرضی کے تاریک کنویں میں ڈوب رہا ہو جہاں صبحیں اور شامیں نوحہ گری کی نذرہو رہی ہوں جہاںذوق تخریب تعمیر کے تصورمیں رچ بس گیا ہو جہاں آدرش،روشنی،پیمان زندگی،تہذیب کا تقدس پامال ہو رہا ہو
جہاں اسیر ذہنوں میں تعمیری سوچ بھرنے والے حکیم سعید اور غازی صلاح الدین کا قتل سیاسی مصلحتوں کا نتیجہ ٹھہرے اور قاتل اس لیئے عدالتیں رہا کردیں کہ ثبوت نہیں تھے جہاں کھربوں روپے کے بجٹ سے عوام کیلئے صرف دس ارب مختص ہوں جہاں ہر ماہ مہنگائی اور حکمرانوں کے منی بجٹ کے ساتھ لاشوں میں اضافہ ہوتا ہو جہاں حکومت وقت مقتدر طبقات کے تحفظ کیلئے محاصل کا بوجھ عوا م کی کمر پر لادنے کیلئے بالواسطہ ٹیکس عائد کرتی ہو جہاں سیاست کے منفی رحجانات اور منافقانہ رویے بھائی کو بھائی اور بیٹے کو باپ سے لڑا رہے ہوں۔
Depression
جہاں کرپٹ بیور و کریسی اپنے بھتیجوں، بھانجوں کو ملازمتوں سے نواز کر، “ضرورت ہے ” کے اشتہا ر کے ذریعہ میرٹ کی دھجیاں بکھیر تی ہو جہاں ہر شعبہ ناانصافیوں، کھوکھلے نعروں، سمگل شدہ ثقافت اور ذہنی ڈیپریشن کی زد میں ہو جہاں افلاس سے وعدوں کا دم گھٹنے لگا ہو جہاں خواہشا ت کی آنکھیں نابینا اور جذبے سچائی کی سولی پر لٹکے ہوں جہاں 18 کروڑ لوگوں کی خود اعتمادی کے پر نوچ لیے گئے ہوں جہاں بیقرار، کج نصیب، رائندہ درگاہ قوم کی سوچوں نے آنیوالے دنوں کیلئے کفن سی لئے ہوں جہاں لہو ٹپکتی نظر یں خزاں کا موسم اگا رہی ہوں جہاں غموں کی کھیتی آنسوئوں سے سیراب ہو رہی ہو۔
وہاں مایوسی کا غصے میں بدلنا یقینی امر ہے اور انقلاب کسی ہراول کا منتظر ہے۔ 98 فیصد لوگوں کے یقین کی لو تھر تھرا رہی ہے کہ قیادت کی کسوٹی پر کون پورا اترے گا، بغاوت کی ہولناک خاموشی کاتسلسل ٹوٹنے والا ہے کہ ضبط کی رفاقت کو 67سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے۔
نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط جبرو استبداد،ظلم و ناانصافی کا نقاب الٹے گا کہ ارتقا کا مزاج تغیرات سے افزوں ہے دھوکے کی بنیاد پر ظلم کے طویل اقتدار کی دیوار کب تک کھڑی رہے گی آخر اسے گرنا ہے،زمین بوس ہونا ہے 11 مئی اسی تبدیلی کا نقطہ آغاز ہے۔