برونائی دارالسلام کے سلطان حسن البلقیہ نے مملکت میں یکم مئی 2014ء سے شرعی قوانین کے نفاذ کا اعلان کر دیا ہے۔ان قوانین کو ”شریعہ پینل کوڈآرڈر 2013” کا نام دیا گیا ہے۔ شرعی قوانین کے تحت ناجائز جنسی تعلقات میں ملوث غیر شادی شدہ مردوخواتین کو کوڑے مارے جائیں گے اور زناکرنے والے شادی شدہ مردوں اور عورتوں کو سنگسار کیا جائے گا۔ شرعی قوانین کے نفاذ کے پہلے مرحلے میں جیل تک جانے اور جرمانے کی سزائیں سنائی جائیں گی۔ یہ سزائیں نماز جمعہ چھوڑنے ، نامناسب رویہ رکھنے اور غیر شادی شدہ حاملہ خواتین کوسنائی جا سکیں گی۔ دوسرے اور تیسرے مرحلے میں سخت سزائیں دی جائیں گی۔
دوسرے مرحلے میں شراب پینے اور چوری کرنے پر بالترتیب کوڑے لگانے اور ہاتھ کاٹنے کی سزا دی جاسکے گی جبکہ تیسرے مرحلے میں زنا میں ملوث افراد کیلئے سنگساری اور توہین رسالت میں مرتکب افراد کیلئے سزائے موت کے قوانین کا نفاذ کیا جائے گا۔ ان قوانین کے تحت زناکرنے والے غیر شادی شدہ جوڑوں کو کوڑے مارے جائیں گے اور اسقاط حمل پر سخت سزا سنائی جائے گی۔ان قوانین کا اطلاق صرف مسلمانوں پر ہو گا۔برونائی دارالسلام مشرقی یا جنوب مشرقی ایشیا میں وہ پہلا ملک ہے جس نے اسلامی شرعی قوانین قومی سطح پر متعارف کروائے اور ان کا نفاذ کیا ہے۔
اس سے پہلے سلطان حسن البلقیہ نے 1996ء میں اسلامی فوجداری فوجداری سزائیں بھی اپنی ریاست میں متعارف کروائی تھیں۔ اس موقع پر سلطان کا کہنا تھا ” میں اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہوں اور اْس پر پورا یقین رکھتے ہوئے اعلان کرتا ہوں کہ جمعرات یکم مئی 2014ء سے شرعی قوانین کے پہلے مرحلے کا نفاذ کر دیا جائے گا جبکہ دیگر مراحل کا نفاذ بعد میں کیا جائے گا۔اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے قوانین وضع کئے ہیں تاکہ ہم انصاف کے حصول کے لئے ان کو بروئے کار لائیں۔ دین اسلام کے تحت یہ اقدام ضروری تھا۔ ایسے نظریات کبھی بھی ختم نہیں ہوں گے کہ شرعی سزائیں ظالمانہ اور غیر منصفانہ ہیںلیکن اللہ نے خود کہا ہے کہ حقیقت میں اسی کا قانون منصفانہ ہے۔اللہ کے قوانین کے مقابلے میں ان نظریات کی کیا اہمیت ہے۔
یہ بات قطعی طور پر غلط ہے کہ ہم میڈیا کی وجہ سے شرعی سزائوں میں عمل درآمد پر تاخیر کر رہے ہیں۔ ہماری نظر صرف اللہ تعالیٰ کی رضا پر ہے ۔” برونائی کے سلطان نے بین الاقوامی میڈیا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی بھی سختی سے مذمت کی جنہوں نے کوڑے، سنگساری اور سزائے موت جیسے اسلامی سزائوں پر تنقید کی تھی۔برونائی دارالسلام کی 70 فیصد آبادی مسلم ہے جو مملکت میں شرعی قوانین کا نفاذ چاہتی ہے۔ لیکن دنیا بھر میںجمہوریت کی دعویدار اور حقوق انسانی کا ڈھنڈورا پیٹنے والی تنظیمیں شرعی قوانین کے نفاذ کی شدید مخالفت کر رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے سنگساری جیسی سزاؤں پر ‘شدید تشویش’ کا اظہار کیا ہے۔ انسانی حقوق کے ادارے ہیومن رائٹس واچ نے برونائی میں ان آئینی تبدیلیوں کو مکمل طور پر ناقابل جواز قرار دیا ہے۔
Human Rights
ہیومن رائٹس واچ ایشیا کے ڈپٹی ڈائریکٹر فل رابرٹسن کے مطابق ، ” یہ قرون وسطیٰ کی سزاؤں کی طرف واپسی ہے۔ یہ اکیسویں صدی کی اقدار کے متوازی ہیں اور برونائی میں انسانی حقوق کے حوالے سے ایک بڑا دھچکا ہیں۔ ”برونائی دارالسلام میں شریعت کے نفاذ کے بعد متعدد بین الاقوامی کاروباری اداروں اور ثقافتی تنظیموں نے معاشی بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔ کاروباری، مالی اور مشاورتی معاونت فراہم کرنے والے بین الاقوامی ادارے ”ورجن” کے سربراہ رچرڈ برینسن نے برونائی کے سلطان کے بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ”ورجن”کا کوئی ملازم یا ان کا گھر والا نہ تو سلطان کے ہوٹل میں قیام نہیں کرے گا اور نہ ہی کسی بھی ایسے ادارے کے ساتھ کاروباری تعلق رکھا جائے گا جس کا برونائی کے سلطان سے براہ راست یا بالواسطہ تعلق ہوگا۔
امریکا میں خواتین کے حقوق کی علمبردار تنظیم ”فیمینسٹ” نے بھی نیویارک میں سلطان برونائی ہی کے ہوٹل میں منعقدہ سالانہ عالمی حقوق نسواں ایوارڈز کی تقریب منسوخ کردی ہے۔برونائی دارالسلام بر اعظم ایشیاء کے مشرقی جانب، جزائر شرق الہند میں واقع ایک مسلم ملک ہے۔ سرکاری طور پر اس کو دی نیشن آف برونائی، دی ایڈوب آف پیس کہا جاتا ہے۔ بورنیو کے جزیرے پر واقع یہ واحد خود مختارملک ہے جبکہ باقی جزیرہ اندونیشیا اور ملائیشیاء کا حصہ ہے۔ اس کا کل رقبہ 5765 مربع کلومیٹر ہے۔ اس کی 381 کلومیٹر لمبی سرحد ملائیشیاء سے ملتی ہے۔ علاقائی سمندری پانی کی حد 500 مربع کلومیٹر ہے ۔ سرکاری زبان مالے اور سرکاری طور پر برونائی کا مذہب اسلام ہے۔ برونائی کی آبادی کم و بیش 4لاکھ 87ہزار ہے۔ آبادی میں مرد 50.5فیصد جبکہ خواتین 49.5فیصد ہیں۔ 70 فی صد آبادی مسلمان اور 15 فیصد آبادی عیسائیوں پر مشتمل ہے۔
باقی ماندہ15 فیصد مقامی قبائلی اور دوسرے غیر مسلم گروپ پر مشتمل ہے۔برونائی میںاسلامی قوانین پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔ سلطنت میں شراب کی فروخت اور اس کا استعمال ممنوع ہے۔ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی سرگرمیوں کی بھی کڑی نگرانی کی جاتی ہے لیکن اسلامی قوانین کا صرف مسلمانوں پر اطلاق کیا جاتا ہے۔یکم جنوری 1984ء کو برونائی دارالسلام برطانیہ سے آزاد ہوا۔ 1999ء سے 2008ء کے دوران اس کی معاشی ترقی کی شرح 56فیصد تک رہی۔ خام تیل اور قدرتی گیس کا ملکی آمدن میں 90فیصد سے زیادہ حصہ ہے۔یہاں روزانہ 167000 بیرل خام تیل پیداہوتا ہے جو جنوب مشرقی ایشیاء میں چوتھے نمبر پر ہے۔یہاں 25 ملین مکعب میٹر قدرتی گیس بھی روز پیدا ہوتی ہے جس سے یہ دنیا میں نواں بڑا قدرتی گیس پیدا کرنے والا ملک ہے۔برونائی میں فی کس قوت خرید دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔
جنوب ایشیائی ریاستوں میں برونائی انسانی ترقی کے اعشاریئے میں دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ لیبیا کے بعد برونائی دنیا کا دوسرا ملک ہے جہاں قرضے قومی آمدنی کا صفر فیصد ہیں۔ برونائی5واں امیر ترین ملک ہے۔برونائی کے شہریوں کو ایشیا میں بلند معیار زندگی حاصل ہے۔ حکومت شہریوں کو ہر طرح کی طبی سہولیات، چاول کی قیمت میں رعایت اور گھرمہیاکرتی ہے۔برونائی میں 4 سرکاری ہسپتال، 16 مراکز صحت اور 10 کلینک ہیں۔ میڈیکل کالج کوئی نہیں اور ڈاکٹر بننے کے لئے طلباء و طالبات کو ملک سے باہر جانا پڑتا ہے۔ایک ڈاکٹر کی فیس محض ایک برونائی ڈالر ہے۔ اگر کسی وجہ سے ملک میں علاج ممکن نہ ہو تو سرکاری خرچے پر مریض کو دوسرے ملک بھیجا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے سعودی عرب میں شرعی قوانین اور سزائیں نافذ ہیں۔ جہاں مجرم کے چوری کرنے پرہاتھ کاٹے جاتے ہیں، زناپر کوڑے اور سنگسار کیا جاتا ہے اور قتل کی سزا قتل دی جاتی ہے۔ ان شرعی سزائوں کی وجہ سے سعودی عرب میں شرح جرائم دنیا بھر میں سب سے کم ہیں۔ اب سعودی عرب کے بعد برونائی دارالسلام دوسرا ملک ہے جس نے سرکاری طور پر اسلام کے شرعی قوانین کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ ان شرعی قوانین کے فیوض سے برونائی دارالسلام بھی دارالامن بن جائے گا۔