ہم کب تک دوسروں پر الزام لگاتے رہیں گے کیا ہم سب وہ کام کرتے ہیں جو ہمیں کر نے چاہیے کیا ہم اپنے فرائض پورے کرتے ہیں میر ے خیا ل میں نہیں میرے سمیت ہر بندہ یہی چاہتا ہے کہ اس پر کوئی تنقید نہ کرے لیکن وہ دوسروں پر ہر طرح کی تنقید کرنے میں آزاد ہو اورجس پر بھی چاہئے جیسے چاہیے الزام لگائے اور ہم خود نیک ،صاف ،پارسارا کھلائے جیسے ہم دودھ سے دھولے ہوئے ہوں ہمارے فائد ے کی بات ہو تو ہم ہر انداز اپنا لیتے ہیں اس سے ہمیں مطلب نہیں ہوتاہمارے اس عمل سے کس کو کتنا نقصان پہنچے گا۔
لیکن اگر دوسرے کا فائدہ اس بات سے ہو رہا ہوجس کے لیے اس کو صرف ہمارا ایک منٹ ہی درکار ہو۔ہمارلیے ا یک منٹ یا لفط نکالنا ہی مشکل بن جاتا ہے بہت افسو س اور معذرت کے ساتھ ہر انسان اپنے حقوق اور فرائض سے دستبر دار چکا ہے ہماری عزتو ں کو سر عا م نیلا م کیا جا ر ہا ہے کبھی کلچر فسٹیو ل کے نام پر جشن بہاراں کے نام پر کبھی دیگر فحش ناموں سے حوا کی بیٹی کو ذلیل و خوار کیا جاتا ہے اور چند نادان قسم کی لڑکیاں بھی ایسے پروگرامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں ۔ آخرایسا کیوں ہوتا یہ سب ہر روز ہمارے پاس کئی خبریں آتی ہے۔
Government of Pakistan
جن کو سن کر دل دہل جاتا ہے حوا کی بیٹی کب تک رسوا ہو تی رہے گی کب تک اسکی عزت نیلام ہوتی رہے گی حکومت بھی حوا کی بیٹی کے لیے کوئی خاص پالیسی بنانے میں ناکام ہے کسی واقعے کے بعد چند روز بہت بڑی بڑی باتیں اور دعوے کیے جاتے ہیں بعد میں وہی خاموشی۔ ہمارے ہاں شروع سے ہی بچوں کو آزاد خیال بنادیا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے بچے خود سر اور برائی کے راستے پر گامزن ہوتے جا رہے ہیں۔
قائداعظم اور علامہ اقبال نے اس ملک کی بنیاد اسلام کے نا م پر رکھی تھی ہم ان کے تمام نکاتوںاور لاکھوں قربانیوں کو بھول گے ہیں آج کی نوجوان نسل کہتی ہے کہ ہمارے بڑوں اور بزرگوںکو کیا علم اب تو دور ہی ماڈرن ہیں ۔ معاشرے میں کیسا رہا جاتا ہے فیشن اور کھلا پن ہی زندگی کا حصہ ہے آپ نے خود کچھ کیا نہیں ہمیں کچھ کرنے نہیں دیتے ایشاء بالخصوص پاکستان کا یہ کلچر نہیں جو ہم اپنا رہیے ہیں یہ کلچر تو مغربی ممالک کا ہے آج وہ ممالک بھی دین اسلام کے اکژ ضابطوں کو اپنے مامالک میں قانونی حیثیت دے چکے ہیں اور ہم بدقسمت لوگ ہیں جو صاحب قرآن ہوتے ہوئے بھی پوری دنیا میں ذلیل و خوار ہو رہیے ہیں خدارا آج ہمارے پاس وقت ہے کہ ہم اپنے بچوںکی تربیت اپنے دین وکلچر کے مطابق کرئے ورنہ سوائے پچھتاوے کے ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
آج وقت ہے کہ ہم دوسرے انسانوںکا بھی احساس کرئے ۔انسان تووہی اچھا ہے جو دوسروں کی خوشی میں خوش ہو اور دوسروں کے غم میں برابر کا شریک ہو۔