گذشتہ ماہ کی صورتحال کا حوصلہ افزاء پہلو یوم شہداء کے موقع پر پاکستانی افواج کے کمانڈر انچیف جنرل راحیل شریف کا خطاب ہے کہ جس سے اسلام اور پاکستان سے محبت کرنے والے ہر سچے پاکستانی کے دل کو اطمینان حاصل ہوا۔ انھوں نے دو ٹوک انداز میں کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا جس سے 1948ء کے شہدائے کشمیر کی قربانیوں کی یاد تازہ ہو گئی۔ مقبوضہ کشمیر سے سید علی گیلانی، شبیر شاہ اور دیگر حریت قائدین نے آرمی چیف کے اس بیان پر نہایت خوشی اور مسرت کا اظہار کیا۔
بلکہ سید علی گیلانی نے کہا کہ جنرل راحیل کے کشمیر پر بیان سے وہ غلط فہمیاں دور ہو گئیں جو بھارتی پروپیگنڈے کے نتیجے میں پیدا ہوئی تھیں۔ بھارت یہ کہہ کر کشمیریوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ پاکستان مسئلہ کشمیر سے دستبردار ہو گیا ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ کے کنوینر غلام محمد صفی کے مطابق حریت چیئرمین سید علی گیلانی نے جنرل راحیل شریف کے بیان کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے موجودہ آرمی چیف نے کشمیریوں کے دلوں کی صحیح طور پر ترجمانی کی ہے۔
اسی طرح پاکستان سے کشمیریوں کے حق میں مؤثر آواز بلند کرنے والے جماعة الدعوة پاکستان کے امیر اور والد گرامی حافظ محمد سعید نے کہا کہ جنرل راحیل شریف کے اس بیان نے اہل پاکستان اور اہل کشمیر کے دل خوش کر دیے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پاک افواج پر یہ فرض بھی ہے اور قرض بھی کہ قائداعظم محمد علی جناح کے بولے گئے شہ رگ کے الفاظ کو سامنے رکھتے ہوئے مقبوضہ کشمیر سے بھارتی افواج کو پسپا کریں اور اہل پاکستان و اہل کشمیر کی سوفیصد حق پر مبنی تحریک کی پشتیبانی بھی کریں۔اس اعتبار سے جنرل راحیل کا بیان گذشتہ ماہ کی صورتحال کا نہایت خوش کن پہلو ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے، اتنی ہی کم ہے۔
وطن عزیز پاکستان کی گزشتہ ماہ کی صورتحال کا دوسرا پہلو نہ صرف باعث تشویش ہے بلکہ اہل پاکستان کو بہت کچھ سیکھنے کا درس بھی دیتا ہے اور وہ حکومتی و نشریاتی اداروں کا ٹکرائو، باہمی پھوٹ اور اختلاف ہے۔فی الحقیقت یہ اللہ تعالی کے عذاب اور پکڑ ہی کی ایک کیفیت ہے بلکہ گزشہ ماہ کے حالات کو اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو پاکستان میں ایک طرف قحط سالی، بھوک وپیاس کی وجہ سے اموات ،پکی ہوئی گندم پر ژالہ باری تو دوسری طرف ایک دین اور ایک ہی ملک کی شہریت کے حامل(سرکاری ہوں یا غیر سرکاری) پاکستانی مسلمانوں میں پھوٹ اور اختلاف جیسی آفات نے اہل پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ بد قسمتی سے اس پھوٹ اور اختلاف کا تاثر اگرچہ ابتدائی طور پر مشرف کیس کی آڑ میں فوج پر حکومتی وزراء کی طرف سے غیر ذمہ دارانہ، بے جا اور بے قابو تنقید کی وجہ سے ابھرا۔
مسائل کا حل کرتے وقت تھوڑا بہت اختلاف فطری طور پر ہو سکتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں بنتاکہ کوئی نشریاتی ادارہ اس اختلاف کو بڑھاچڑھا کرنشر کرنے کا ایسا سلسلہ شروع کر دے جو ختم ہونے کا نام ہی نہ لے اور بات کو بڑھاتا ہی چلا جائے۔اسے نہ ہی اپنے دین، ملک، قوم کے مفاد کا احساس ہو اور نہ ہی اس بات کا ادراک کہ اس سے ملک دشمن فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ حامد میر پر حملہ ہو گیا جو کہ قابل مذمت تھا لیکن پھر اس کے بعد جو ہوا وہ سب حدود و قیود کوپار کر گیا۔
یہ فتنے اور غلطیوں کی ایسی لمبی قطار ہے جو اگر شروع ہو جائے تو پھر جلد ختم ہونے کا نام نہیں لیتی اور غلطی پر غلطی ہوتی ہی چلی جاتی ہے۔پھر اگر اس کا ارتکاب کرنے والے سے کوئی پوچھے تو وہ اپنی غلطی کبھی نہیں تسلیم کرتا بلکہ ہمیشہ اپنی غلطی کا ذمہ دار دوسرے ہی کو قرار دیتا ہے۔ خدانخواستہ جب فتنے کی کیفیت ایسی ہو جائے پھر غلطیوں کو فل سٹاپ نہیں لگا کرتا اور ملک، قوم، ملت ہر چیز تباہ ہو جایا کرتی ہے۔ اللہ تعالی اپنے دین کو ، ہم سب کو اورملک و قوم کو اپنی عافیت میں رکھے اورحفاظت فرمائے۔ آمین
Electronic Media
گذشتہ ماہ کے حالات کا تجزیہ کرنے کے حوالے سے پرنٹ میڈیا،الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا سمیت ہر فورم پر مختلف قسم کے تجزیے اور تبصرے دیکھنے کو ملے۔ ہر شخص اپنی اپنی سوجھ بوجھ اور فہم کے مطابق تجزیے اور تبصرے پیش کرتا نظر آیا۔فی الحقیقت قرآن پاک اور احادیث رسول eکی نگاہ سے اگر ایسی کیفیت کو دیکھا جائے تو یہ اللہ کی پکڑ اور اللہ کا عذاب ہے جو جب آتا ہے تو پھر کسی عام وخاص،حاکم ومحکوم، سرکاری و غیر سرکاری، چالاک و بیوقوف کو نہیں دیکھتا بلکہ ہر ایک کو اپنا شکا ربنا لیتا ہے۔ سوائے ان اصلاح کرنے والوں کے جو اللہ کے عذاب سے ڈراتے ہیں اور اپنے ملک اور اپنی قوم کی تعمیری انداز میں اصلاح کا اہتمام کرتے ہیں۔ اسی بات کو اللہ رب العالمین نے اپنے کلام پاک میں اس انداز سے بیان فرمایا:( وَ مَا کَانَ رَبُّکَ لِیُھْلِکَ الْقُرٰی بِظُلْمٍ وَّ اَھْلُھَا مُصْلِحُوْنَ ) ] سورہ ہود: ١١٧[”اور آپ کا رب بستیوں کو اس وقت تک عذاب دے کر ہلاک نہیں کرتا جب تک اس میں اصلاح کرنے والے موجود ہوں۔”
چنانچہ خوش قسمت ہوتی ہیں وہ قومیںاور ملک کہ جن میں ایسے مواقع پر ریفارم کرنے والے مصلحین خاموش رہنے کی بجائے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے قوم کی صحیح سمت میں تعمیری انداز سے رہنمائی کرتے ہیں۔اس اعتبار سے جماعة الدعوة پاکستان کی قیادت کا یہ نہایت مستحسن قدم تھا کہ اس صورتحال پر خاموش رہنے کی بجائے انہوں نے استحکام پاکستان کنونشن کا انعقاد کیا اور ملک بھر کی دینی،سیاسی وسماجی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے حکومت،میڈیا اور تمام اہل پاکستان کو ایک دعوتی جماعت ہونے کی حیثیت سے اللہ کے عذاب کی ایسی کیفیات سے بچانے کے لئے اپنے معاملات کی اصلاح کرنے کی دعوت دی۔ انبیاء کے مشن کی مخالفت کرنے والوں کی طرح اگرچہ جماعة الدعوة کے مثبت اور اصلاحی انداز پر بھی بہت ساری زبانوں نے پروپیگنڈہ کرنے کی کوشش کی کہ یہ کالعدم تنظیم ریلیاں کیوں نکال رہی ہے؟
Allah
وغیرہ وغیرہ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا والے جتنا مرضی کالعدم کا پروپیگنڈہ کر لیں جب تک اللہ کی طرف سے پابندی نہ لگے تو دنیا کے کالعدم کے پروپیگنڈے کی کوئی حیثیت نہیں۔ ہمارا تو یہ ایمان ہے اور تاریخ بھی گواہ ہے کہ اچھے اور خیر کے کام کو جب بھی کوئی کالعدم کہتا ہے تو اللہ کی قسم! وہ خود کالعدم ہو جاتاہ ے۔ ویسے بھی الحمد للہ پاکستان کی عدالتوں کے مطابق جماعة الدعوة کالعدم نہیں ہے کیونکہ وہ مثبت اور تعمیری انداز میںملک و قوم کی اصلاح اور تعمیر و ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کر رہی ہے اور ان شاء اللہ کرتی رہے گی۔