جمہوریت بھی آ گئی خطرے میں اے وطن جب سے تیرے سیاسی رہبر بدل گئے ہاں! یہ عوام ہی تو ہیں جوکسی زمینی مخلوق کو اٹھا کر آسمان کی اونچی بلندیوں تک پہنچا سکتی ہیں اور اُڑنے والے کو زمین پر لاکر کچل بھی سکتی ہیں۔ اور وہ راستہ ہے بیلٹ پیپر کا، جس پر مہر لگانے سے پہلے سوچنا سمجھنا چاہیئے اور پھر اس کا حق ادا کرنا چاہیئے۔ بیلٹ پیپر کی پاور عوام کی مٹھی میں ہوتی تھی اب ان کی انگلیوں کی تھمب کے اشارے پر۔ (ہو سکتا ہے کہ آئندہ آنے والے انتخابات میں مشینی ووٹ کا استعمال لاگو ہو جائے )منتخب ہونے والے عوام سے اپنے چہرے کو چھپا کر ٹھنڈے کمروں کی ہوا کھانے والے ہمارے رہبروں کو بھی چونکہ انگلی کی اس اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
اس لئے الیکشن کے زمانے میں وہ غریبوں کی بستیوں کا رُخ کرتے ہیں اور پھر ٹھنڈے کمروں میں مقید ہو جاتے ہیں تا وقت کے پانچ سال پورے ہونے کو آجائیں۔ انہیں لوڈ شیڈنگ کا کیا غم! ان کے گھروں میں تو بلند و بالا دیو ہیکل جنریٹروں کی تنصیب ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے ان کی زندگیوں پر لوڈ شیڈنگ کا کوئی عذاب نہیں ہوتا۔ادھر بجلی بند ہوئی ادھر ان کے گھروں کا آٹو میٹک سسٹم آن ہو جاتا ہے۔ یہ ہے امیر کبیر رہبروں کی زندگی اور غریب عوام کی زندگی کا فرق! اسی طرح ہر سطح پر یہ فرق واضح نظر آتا ہے بس کوئی دیکھنے اور سمجھنے والا دل و دماغ ہونا چاہیئے۔اس درد کو محسوس کرنے والا درد مند دل ہونا چاہیئے، تاکہ آئندہ جب انگلیوں کے تھمب کا استعمال کرنے کا زمانہ آئے تو سمجھ بوجھ کے ساتھ یہ حق ادا کیا جا سکے۔
ویسے تو سیاسی رہبربھی عوام کی انگلیوں کے اشارے پر رہتے ہیں لیکن قیمتی انگلیوں کے مالک عوام سمجھ ہی نہیں پاتے کہ یہ سفید پوش رہبر و رہنما آتے تو ہیں انگلی پکڑنے لیکن ان کا اصل مقصد انگلی پکڑتے پکڑتے پائینچا پکڑنے کا بھی ہوتا ہے۔ ملک کے رہبروں نے ملک کی سیاست کو تجارت بنا کر رکھ دیا ہے جس کے نتیجے میں آپ دیکھ رہے ہونگے کہ ہر طرف قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے، مہنگائی اپنے عروج پر ہے جس کی وجہ سے سادہ لوح غریب عوام بھوک سے مر رہے ہیں۔
Load Shedding
بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہو یا گیس کی لوڈ شیڈنگ، پانی کی کمی کا سامنا ہو کہ ٹارگٹ کلنگ کی اذیت کا ، ہر معاملے میں عوام ہی پِس رہے ہیں، عوام کا ہی نقصان روز افزوں ہو رہا ہے۔ عوام کی دُکھی ہو رہی ہے، ایسے میں حکمران کہاں ہیں۔ وزیر داخلہ صاحب نے کل ہی گیارہ مئی کے حوالے سے ایک پریس کانفرنس میں یہ کہا کہ عوام کی داد رسی اور ان کی زندگیوں کی ذمہ داری حکومت کی ہے۔ پھر یہ ذمہ داری پورے ملک میں کیوں نہیں؟شہرِ قائد میں بلا ناغہ درجنوں لاشیں گرا دی جاتی ہیں مگر یہاں حکمران نظر کیوں نہیں آتے یا ان کے اقدامات نظر کیوں نہیں آتے؟ شہرِ قائد کے ماتم کناں لوگ ہر روز اپنے پیاروں کو قبروں کے حوالے کر رہے ہیں ، اس کیفیت کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جن کے گھروں سے جنازے اٹھتے ہیں، ان کے سروں پر اور بقیہ تمام اہلِ وطن پر حفاظت کے اقدامات نظر کیوں نہیں آ رہے؟
کیا حصولِ اقتدار کا نشہ اتنا چڑھ گیا ہے کہ نگاہیں مبرہن نمایاں اور آشکارا حقائق کے سامنے بند ہو گئی ہیں؟ طوطا چشمی کرنے اور شتر مرغ بننے سے حقائق تبدیل نہیں ہو جاتے۔ کیونکہ عوام خواب دیکھتے دیکھتے اور انتظار کرتے کرتے تھک گئے ہیں ۔ عوام اب اس سادہ لوحی کو سمجھ چکے ہیں غالباً اور رہبران ان کی سادگی پر فدا فدا ہو رہے ہیں۔ بات یہ ہے کہ تعمیری اور جدیدیت پر مشتمل کام کرنے کے لئے جس کردار اور فکر کی ضرورت ہے اور جس جگر کاری کا اس میں پالا پڑتا ہے ان سے شاید ہمارے رہبران محروم ہیں۔ انہیں تو اتھل پتھل، مشورہ، ہنگامہ ، سازش اور مذمت سے ہی فرصت نہیں۔ ہر دھماکے کے بعد یا ہر کلنگ کے بعد اور اس جیسے دوسرے جرائم کے بعد کمیشن تشکیل دے دی جاتی ہے مگر کیا آج تک کوئی کمیشن کی رپورٹ منظرِ عام پر آئی یا کوئی مجرم کو سزا ہوئی۔
ایسا عوام نے غالباً نہیں دیکھا مگر عوام کو اب بھی صبر ہے اور ساتھ ساتھ انتظار بھی کہ وہ وقت ضرور آئے گا جب ہمارے ملک میں بھی شادیانے بجیں گے، ہر طرف امن و امان کا بول بالا ہوگا، ہمارا ملک جنت نظیر کہلاتا ہے تو ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ ہمارا ملک جنت نظیر بن بھی جائے۔ایسے سیاست کاری کے دور میں عوام کو اتنے کے دور میں اللہ تعالیٰ دین و ایمان کو سلامت رکھے۔
عوام کو سبز باغ دکھا کر اقتدار میں آنے والوں نے مایوسیوں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ اب قوم کے پاس سوائے انتظار کے اور کوئی چارہ نہیں بچا۔ اور دوسرا راستہ احتجاج کا ہے جو عوام شہر شہر ، گلی گلی ہر روز ، ہر معاملے میں کر ہی رہے ہیں اور یہ طریقۂ کار کو عوام ضائع نہیں کرتے، کیونکہ اگر ایسا ہو گیا تو ظالم اور کرپٹ لوگوں کو ہر دور میں اقتدار میں آنے کا موقع میسر آ جائے گا۔قوم کے سامنے اور ساتھ ہی حکمرانوں کے سامنے بھی کئی طرح کے گمبھیر مسائل ہیں ان میں سرِ فہرست لوڈ شیڈنگ، مہنگائی، بے روزگاری، غربت اور جہالت۔ انہی پر ہمہ گیر اور ہمہ جہت کام کرکے قوم کی سب سے بڑی خدمت کی جا سکتی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اب تک ان مسائل پر تہہ دل سے اچھے اور بڑے پیمانے پر کام نہیں ہوا ہے۔ اگر قائدین خلوص اور ایمانداری کے ساتھ یہ تمام کام کر دیں تو قوم کا مستقبل روشن ہو سکتا ہے۔ غربت کو دور کرنے کا تو کسی کے پاس ادنیٰ تر پروگرام بھی نہیں ہے اور تعلیم کا حال تو آپ سب کے سامنے ہے۔ مہنگائی کا رونا عوام رو ہی رہی ہے، نوجوان ڈگریاں ہاتھوں میں لے کر نوکریوں کے لئے در بدر بھٹک رہے ہیں۔ ان تمام مسائل کی طرف حکمرانوں کی خلوصِ نیت کے ساتھ پیش قدمی بہت حوصلہ افزا ہو سکتی ہیں۔
شاعر کہتا ہےنہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے ائے پاکستاں والو! تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں آج ملک کی فضا میں فرقہ پرستی کی بو کو صاف محسوس کیا جا سکتا ہے۔ آج بھی پُر کشش ایشوز تلاش کرنے اور عوام کو بے مطلب کی بحثوں میں الجھانے کے راستے ڈھونڈیں جا رہے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو اس میں عوام ہی ایندھن بن رہے ہیں۔ ہر موج کے جال میں سینکڑوں مگر مچھ اپنے مہیب جبڑے کھولے شکار کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ نہ جانے ابرِ بہار کے اس قطرے پہ کیا گزرے جو سیپ کے منھ میں گہر بننے کے انتظار میں ہے۔
جمہوریت کی کھیتی سے اب تک روزی نہ پا سکنے والے حرماں نصیب دہقاں اکٹھے ہو کر ہر خوشہ گندم کو جلانے کے در پے نظر آتے ہیں، سوکھے پتوں کے ڈھیر کی طرح ہمارا مستقبل جلتا ہوا محسوس ہو رہا ہے لیکن کسی گوشے سے تشویش و پریشانی کی لہر دکھائی نہیں دیتی، بلکہ شرارت آمیز مسکراہٹ رقص کرتی دیکھی جا سکتی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جو لوگ اس چکی میں پس رہے ہیں یا جن کو تختہ مشق بنایا جا رہا ہے وہ آنے والی سُرخ آندھی سے بے خبر ہیں۔ باہمی اخوت ، آپسی ہمدردی اور مثالی محبت پر اپنا کل سنوارنے کی کوشش کریں ، کسی کے پائوں میں کانٹا بھی چبھے تو ہر ایک کو اس کی چبھن اور کسک محسوس کرنی چاہیئے، اسی کا نام اخوت ہے۔ اور ہمارے ملک کو اس کی اشد ضرورت ہے۔