انقلاب کا خواب

Poet

Poet

برلن بیورو کے مطابق یورپ کے ممتاز ایشین صحافی و شاعر،سیاسی تجزیہ نگار، کالم نویس،ریڈیو و ٹی وی فنکار،کئی ادبی، صحافتی،سیاحتی،سیاسی، سماجی و رفاہی تنظیمات کے اعزازی سربراہ شکیل چغتائی کا نیا کالم اپنا انٹرنیشنل کے ذریعہ حاضر ہے: کالم لکھے کافی عرصہ ہو گیا۔کبھی ذاتی مسائل،گھریلو پریشانیاں، بیماریاں آڑے آتی رہیں، کبھی عدیم الفر صتی اور کبھی کوئی سفر درپیش رہا۔ بہرحال اب جبکہ ١١ مئی کا دن سر پر آگیا ہے،میراکالم وقت کی ضرورت ہے۔ جی ہاں جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے پاکستانیوں کی اکثریت ملک عزیز میں انقلاب کا خواب دیکھتی رہتی ہے۔یہ اور بات ہے کہ یہ خواب کبھی پورا نہیں ہوتا۔اس کا حشر وہی ہوتا ہے جو علامہ اقبال اور قائد اعظم کے خوابوں کا ہوا ہے۔پاکستان کا خاکہ،اسکے حصول کی جدوجہد،اس کا قیام یہ سب ان خوابوں کے حصے تھے مکمل خواب نہیں۔

پاکستان کے عوام توروٹی ، کپڑے اور مکان کے ساتھ ساتھ حقیقی جمہوریت ،عادلانہ نظام حکومت، قانون کی بالادستی اور حقوق کی برابری، قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پر ملازمتوں کے حصول،ہنر مندی اور صلاحیت کی بناء پر یکساں ترقی کے مواقع،مقابلہ اور محنت کے حساب سے زراعت، تجارت، سیاحت،صحافت اور ثقافت کے میدانوں میںبرتری کی منازل کے خواب دیکھتے دیکھتے اپنی عمر گزار دیتے ہیں۔پھر وہ یہ خواب اپنی اولادوں کو منتقل کر کے اس ملک کی مٹی میںدفن ہو جاتے ہیں اور کچھ کو تو وہ بھی نصیب نہیں ہوتی۔کیونکہ وہ ہجرت پر مجبور ہوکر کسی اور دیس جا بستے ہیںاور واپسی کے خواب دیکھتے ہوئے کبھی تابوت میں واپس ہوتے ہیں اور کبھی پردیس کی مٹی میں ہی گم ہو جاتے ہیں۔

اب تک پاکستان میںکئی فوجی اور سیاسی حکمرانوں نے عوام کو جوخواب دکھائے،ان میں سے کوئی بھی مکمل طور پر پورا نہیں ہوا۔جزوی طور پر کامیابیاںان کا مقدربنیں۔ذوالفقار علی بھٹو کا پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کا خواب میاں نواز شریف کے دور حکومت میں پورا ہوا، اسلامی بلاک کا خواب ادھورا رہ گیا۔ایوب خان کا بنیادی جمہوریت کا خواب پورا تو ہوا مگر اسکی غلط تعبیر نے عوام کے خواب چکنا چور کر دئے۔ جنرل ضیاء الحق کا اسلامی نظام حکومت کا خواب پورا نہ ہوا،صرف شریعت کورٹ تک جا کر بات ختم ہوگئی۔بے نظیر بھٹو کے خوابوں کو انکے بابا کی طرح بڑی طاقتوں کی نظر لگ گئی اور ان دونوں کو یہ خواب دیکھنے کی سزا دی گئی۔پرویز مشرف کا صحافت کی آزادی کا خواب پورا ہوکر خود ان کے گلے پڑ گیااور کارگل پر قبضہ اور برتری کا خواب میاں نواز شریف نے بڑی طاقتوں سے معذرت کر کے ردی کی ٹوکری میں ڈال دیا۔

آصف زرداری نے کئی وعدے پورے کئے،اسیطرح نواز شریف نے بھی،مگر حالات میںبنیادی تبدیلی نہ لاسکے،عوام کا خواب پورا نہ ہوا،
اب پاکستان کی دو اہم شخصیات نے پاکستان کے عوام کو انقلاب اور تبدیلی کے خواب دکھائے ہیں اور عوام نے اس پر ایک بار پھر لبیک کہا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ اس مرتبہ دونوں میں سے کون آخری وقت تک اس خواب کی تعبیر کے لئے ڈٹا رہتا ہے۔کیونکہ یہ عوام کے ساتھ ساتھ ان دونوں کی آئندہ سیاسی،سماجی اور تاریخی حیثیت کے تعین کا سوال ہے۔انہیں ہر فیصلے سے پہلے ہزار مرتبہ سوچنا ہوگا۔

ان میں سے ایک پاکستان تحریک انصاف کے سر براہ عمران خان ہیں،جو پہلی مرتبہ تبدیلی کا نعرہ لے کر سیاست میںتبدیلی کی بنیاد بنے۔ان کی موجودہ تحریک تبدیلی کے ساتھ ساتھ انتخابات میں دھاندلی کے خلاف ہے۔تاہم وہ اسی نظام کے تحت تبدیلی چاہتے ہیں،اسلئے اسے انقلاب کی تشریح کے مطابق انقلابی تحریک نہیں کہا جا سکتا۔یہ ایک احتجاجی تحریک ضرور ہے،جو انکے بتائے ہوئے چار حلقوں میں دوبارہ گنتی سے منسلک ہے۔ اگر حکومت انکی بات مان لیتی ہے توتحریک کا مقصد پورا ہو جائے گا۔تاہم وہ اس مرتبہ بھی اپنی تحریک کو علیحدہ چلانا چاہتے ہیں۔ اس کی وجہ بظاہر تو یہی ہے کہ انکے خیال میں ان کا موقف ڈاکٹر طاہر القادری سے بالکل مختلف ہے۔

وہ اس نظام کو ختم کرنے کے حق میں نہیںہو سکتے۔اول تو وہ خود ایک صوبے میں حکومت چلا رہے ہیں اور چلتی ہوئی حکومت کون چھوڑتا ہے۔دوسرے وہ اور انکے کئی نامور ساتھی یہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ کسی بھی انقلابی تحریک کے نتیجہ میں ہونے والی تبدیلی کا سہرا کسی اور کے سر بندھے۔کیونکہ وہ ”تبدیلی” کے نعرہ کو صرف PTI اور عمران خان تک محدودرکھنا چاہتے ہیں۔جبکہ پاکستان کی کئی اور پارٹیاں بشمولMQM, APML, PAP بالترتیب الطاف حسین،پرویز مشرف اور شیخ رشیدکی قیادت میں ”تبدیلی” کے نعرے بلند کرتی رہی ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ ١١ مئی کو اپنا وزن کسی ایک کے پلڑے میں ڈالتی ہیں یا سیاسی مصلحت کے تحت دونوں جگہ شرکت کر کے اپنے تعلقات برقرار رکھتی یا بہتر بناتی ہیں۔

جہاں تک پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری کی تحریک انقلاب کا تعلق ہے،ان کے خطابات اور اعلانات کی روشنی میں یہ اس فرسودہ اور کرپٹ نظام کے خلاف اعلان جنگ ہے،جس میں ایک فریق کی فتح تک یہ جنگ جاری رہتی ہے۔اس مرتبہ انہوں نے خود صلح صفائی کے تمام راستے بند کردئے ہیں۔لہٰذابظاہر تو یہی لگتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب قوم کوحقیقی انقلاب کے راستے پر لے جانا چاہتے ہیں۔تاہم انہوں نے فی الحال اس تحریک کے آغاز کا اعلان کیا ہے اس میں شرکت کا نہیں۔وہ قائد انقلاب کے طور پراس وقت ہی سامنے آئیں گے جب وہ عوام کے ساتھ کھڑے ہوکر موسم کی صعوبتیں ،حکومت کی زیادتیاں اورمخالفین کی باتیںبرداشت کر رہے ہوں گے۔ان کے پیروکار تو ان پر اندھا اعتماد کرتے ہیں،مگر انقلاب کی کامیابی کے لئے لازم ہے کہ انقلاب کا ہر سپاہی، ہر کارکن، ہر متوالا قائد انقلاب کے پیچھے ہو۔اس کی باتوں پر یقین رکھتا ہو، اس کے احکامات کی پیروی کرے، اس کے ان تمام فیصلوں کو قبول کرے ،جو انقلاب کی منزل آسان بناتے ہوں،جو امن کی راہ پر چلتے ہوئے انقلابی تبدیلی کا باعث بنیں،جو عدم تشدد پر کاربند رہتے ہوئے مقاصد کے حصول میں معاون ثابت ہوں۔یہ وقت گھر میں بیٹھنے کا نہیں،طاہر القادری کی آواز میں آواز ملانے کا ہے۔اسکے ساتھی بن کر کھڑے ہونے کا ہے،اس کے ساتھ مل کر آگے بڑھنے کا ہے۔انقلاب صرف سوچنے سے نہیں عمل کرنے سے آیا کرتے ہیں۔ انقلاب کے طریقے مختلف ہو سکتے ہیں مگر مقاصد انقلابی رہتے ہیں۔

Afghanistan

Afghanistan

یہ نہ فرانس ہے، نہ روس، نہ مصر ہے ،نہ لیبیا،نہ ایران ہے، نہ ترکی،نہ یوگوسلاویہ ہے، نہ بوزنیا اور نہ ہی افغانستان۔ یہ مملکت خداداد پاکستان ہے،اس کا نقلاب بھی پاکستانی طریقے سے ہی آئے گا اور وہ راستہ عوام کو ڈاکٹر طاہر القادری نے بتا دیا ہے،جس میں نہ کوئی پتہ ٹوٹے گا اور نہ کوئی گملہ،نہ کسی کے کاروبار کا نقصان ہوگا، نہ املاک اور ٹرانسپورٹ کا۔یہ وہ پرامن انقلاب ہے جو عوام کی طاقت سے آئے گا۔لہٰذا اسے کامیاب بنانے کے لئے عوام کی ضرورت ہوگی۔اگر عوام اس وقت بھی اپنی حالت بدلنے کے لئے میدان میں نہیں آئے تو انکی حالت کبھی نہیں بدلے گی۔عوام کو اپنی تمام تر سیاسی،مذہبی،مسلکی،قومیتی اور گروہی وابستگیاں بھلا کرپاکستان میں عوامی حکومت کے قیام کی راہ استوار کرنے کے لئے اس انقلاب کا ساتھ دینا ہوگا۔فارسی کی مثال ہے ” آزمودہ را آزمودن جہل است” یعنی آزمائے ہوئوں کو آزمانا جہالت ہے۔پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے منتخب پارلیمان کو ربڑ اسٹامپ قرار دیتے ہوئے استعفےٰ دے کر اور پھر طویل عرصے تک تخلیقی اور رفاہی کاموں میں مصروف رہ کر ثابت کیا تھا کہ وہ تخلیق اور رفاہ عامہ کواسمبلی سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔انہوں نے طویل عرصے کی غیر حاضری کے بعد اسلام آباد تک لانگ مارچ کر کے دوبارہ سیاست میں نام پیدا کیا ہے۔گو اس لانگ مارچ کے نتائج وہ نہیں نکلے جن کی عوام کو توقع تھی،وہ بددل بھی ہوئے،ناامید بھی،مگر ان کا اعتماد ابھی مجروح نہیں ہوا،جس کا اظہار ١١ مئی کو ہوگا۔

پچھلی مرتبہ ڈاکٹر صاحب کو دھوکہ دیا گیا یا انہوں نے دھوکہ کھایا،اس پر بحث ہو سکتی ہے۔مگر یہ طے شدہ بات ہے کہ ان کی تمام باتیں سونے میں تولنے کی قابل تھیں،وہ سچی ثابت ہوئیں،دشمنوں کو بھی ماننا پڑاکہ طاہر القادری نے آئینی بات کی تھی۔یہ اور بات ہے کہ اس وقت بکا ہوا میڈیا، تنخواہ دار اور لفافہ اینکر،جانبدار سیاسی تجزیہ نگار،نام نہاد کالم نگار،نام نہاد آزاد عدلیہ اور سیاسی جماعتوں کی اکثریت پنجے جھاڑ کر انکے پیچھے پڑ گئی۔انکامذاق اڑایا گیا،انہیںغیرمحب وطن غیر ملکی قرار دیا گیا،انکی پٹیشن سنی ہی نہیں گئی۔اس سے ایک تو ڈاکٹر صاحب کی ان تمام اداروں کے بارے میں خوش فہمی ختم ہوئی اور دوسرے مجھ جیسے عوام کو، جو ان ملک دشمن عناصر کی چالیں سمجھ رہا تھا،ان سے مزید ہمدردی پیدا ہوئی۔

آج بھی یہ منافق اینکر،تیسرے درجہ کے سیاستدان،چھاج کے ساتھ چھلنی کا درجہ رکھنے والے پارٹی عہدیدار اور وزرائ،اپنے تئیں عقل کل سمجھنے والے کالم و تجزیہ نگار،پیسوں کی زبان بولنے والے صحافی ڈاکٹر طاہرالقادری کو فوج اور بیرونی طاقتوں کا ایجنٹ ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہم آج بھی دل و جان سے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ہیں اور اس انقلاب کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔اللہ نے توفیق اور وقت دیا تو ہم اور ہمارے ساتھی ان کے شانہ بشانہ ہوں گے۔ہمیں اس بات پر بھی فخر ہے کہ ہم ان کے سامنے سچائی کے اظہار سے نہیں گبھراتے۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوںکہ اس مرتبہ ہم اپنے قائدین اور رہنمائوں کو آخری فیصلے تک ہلنے نہیں دیں گے۔ہم ان کے لئے خون کی بازی لگانے کو تیار ہیں،مگر دم آخر ان کا چہرہ خود پر جھکا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں،ان کے ہاتھوں لحد میں اترنا چاہتے ہیں۔ یہ جنگ ہم سب نے مل کر لڑنی ہے۔

ابھی تو اس کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔اصل معرکہ تو جب ہوگا جب قائد انقلاب اس قوم کی قیادت کے لئے خود میدان میں اتریں گے۔اس وقت میں یہ کہتا ہوا ان کے ہمراہ ہوں گا،انشاللہ:
میں انقلاب کی خاطر نکل کے دیکھوں گا ٭ تو رہنما ہے ترے ساتھ چل کے دیکھوں گا
میں کام آگیا انجم تو یاد رکھنا مجھے ٭ اگر میں زندہ رہا خواب کل کے دیکھوں گا

Shakeel Chughtai

Shakeel Chughtai