بادشاہ شہاب الدین محمدشاہ جہاں کو۔۔۔ کون نہیں جانتا دنیا کے سات عجائب میں شامل ایک عجوبہ تاج محل اسی نے تعمیر کروایا تھا لاہورکا شالا مار باغ ،جامعہ مسجد اور لال قلعہ دہلی بھی اسی کے شاہکارہیں شاہ جہاں اپنے بڑے بیٹے داراشکوہ کو اپنا جانشین بنانا چاہتا تھا لیکن دوسرے بیٹے اورنگ زیب عالمگیر نے اپنی فہم و فراست ،بہتر منصوبہ بندی اور جنگی حکمت ِ عملی سے نہ صرف اپنے حریف داراشکوہ کو شکست سے دو چار کر دیا۔
اس جنگ میں داراشکوہ مارا گیا بلکہ اورنگ زیب عالمگیر نے اپنے والد شاہ جہاں کو گرفتار کرکے گوالیارکے قلعہ میں قید کردیا اورنگ زیب عالمگیرہرماہ اپنے باپ کی خبر گیری کیلئے اس سے ملنے جایا کرتا تھا ایک مرتبہ ملاقات کے دوران شاہ جہاں نے اپنے بیٹے سے کہا”اس قید ِ تنہائی سے میں تنگ آگیاہوں وقت ہے کہ گذرتاہی نہیں کچھ بچے قلعہ میں بھیج دیں میں ان کو پڑھا لکھا کر دل لگا لوں گا۔۔۔یہ سن کر اورنگ زیب عالمگیر مسکرایا اور شاہ جہاں کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر جو الفاظ ک ہے۔
وہ تاریخ بن گئی۔۔ اورنگ زیب نے کہا ”قید میں بھی بادشاہت کی خو نہیں گئی اب آپ بچوں پر حکومت کرنا چاہتے ہیں”۔۔۔ حقیقتاً حکومت ہے ہی ایسی چیز جس سے دل بھرتا ہی نہیں ۔۔حکومت کے حق اور مخالفت میں لوگ ہی نہیں سوچیں بھی تقسیم ہو جاتی ہیں ہر گھر میں بحث،مباحثہ ہر گھر میں اپوزیشن۔۔۔ پاکستان میں یہی کچھ ہوتا آیاہے اور یہی کچھ ہونے والا ہے۔
11مئی 2014 ئ۔ موجودہ جمہوری حکومت کا پہلا سال۔۔۔ برسراقتدار مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادی اس دن کو یوم ِ جمہوریت کے طورپر منانے کی تیاریاں کررہے ہیں جبکہ اپوزیشن میں شامل تحریک ِ انصاف نے انتخابی دھاندلی کے خلاف جبکہ عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید نے نواز شریف گورنمنٹ کو ہدف بنارکھاہے ،جماعت اسلامی حکومتی پالیسیوں پر سیخ پاہے اور شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان عوامی تحریک سیاست نہیں ریاست بچائو کے سلوگن پر میدان میں ہے ان تمام جماعتوں نے اس روز11مئی کویوم ِ احتجاج منانے کااعلان کررکھاہے حالات بتاتے ہیں MQMبھی اپوزیشن کی حمایت کااعلان کردے گی یعنی ملکی سیاست میں ایک بار پھر ” دما دم مست قلندر” کی کیفیت کا نزول اور سیاست میں محاذ آرائی کا ظہور ہونے کا خدشہ ہے۔
Democracy
اس سے جڑا ایک خدشہ اور بھی ہے جس کااظہار ایک” باغی ”نے کیا ہے کہ جمہوریت کو کوئی خطرہ ہوا تو وہ میاں نوازشریف کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔۔۔اسی انداز میں سابقہ صدرآصف زرداری نے بھی اپنے عزم کو دہرایاہے کہ عام انتخابات میں دھاندلی کے باوجود ہم میاں نوازشریف کے ساتھ ہیں اب یہ تو ہمیں معلوم نہیں خطرہ جمہوریت کو ہے یا سیاستدانوں کو۔۔ لیکن ایک بات ہے جب سے موجودہ عام انتخابات ہوئے ہیں عمران خان مسلسل رولا ڈال رہے ہیں کہ دھاندلی ہوئی ہے۔
اس دوران35پنکچروںکی باز گشت بھی سنائی دی لیکن الیکشن کمیشن اور حکومتی پارٹی نے ایک نہ سنی جن ،جن حلقوںمیں بھی دوبارہ گنتی ہوئی ہزاروں غیر تصدیق شدہ ووٹ ڈالے جانے کا انکشاف ہوا جس پر تحریک ِ انصاف نے شور مچایا کہ یوں لگتا ہے سارے کا سارا انتخابی عمل مشکوک ہے اب اگر سابقہ صدرآصف زرداری بھی یہ فرمارہے ہیںکہ عام انتخابات میں دھاندلی کے باوجود ہم میاں نوازشریف کے ساتھ ہیں” تو دال میں کالا ہو سکتاہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔
ا تنی منظم دھاندلی کیونکرہو سکتی ہے؟ عدلیہ اور فوج مملکت کے بڑے ستون ہیں وہ ایک پارٹی کی حمایت میں کیوں اس حد سے گذر جائیں گے۔۔اب رہی شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری کی بات تو۔۔۔وہ تو شروع سے ان انتخابات کو فراڈ الیکشن قراردے رہے ہیں ان کا کہناہے موجودہ سسٹم کے تحت الیکشن سے کوئی تبدیلی نہیں آسکتی وہی ٹیکس چور، وہی قومی خزانہ لوٹنے والے بڑے بڑے مگر مچھ، موروثی سیاستدان اسمبلیوں میں پہنچ جائیں گے عوام اور مسائل وہی رہیں گے۔شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری کا یہ بھی کہنا تھا مروج انتخابی نظام سے عام آدمی کا استحصال ہورہاہے باری کی سیاست ملک و قوم کیلئے خطرناک ہے۔
اس لئے ہم نے”سیاست نہیں ریاست بچائو ”کا نعرہ لگایاہے اب تلک شیخ الاسلام نے جتنی بھی باتیں کی ہیں وہ درست ثابت ہوئی ہیں واقعی اس سسٹم ،ان سیاستدانوں اوراس سیاست نے لوگ ہی نہیں سوچیں بھی تقسیم کرکے رکھ دی لیکن عوام کا پھر بھی کوئی فائدہ نہیں ہورہا وہی محرومیاں عوام کا مقدر ہیں ۔۔حکمران جماعت سے وابستہ لوگ اپو زیشن کی اس طرز ِ سیاست کے سخت خلاف ہیں ان کا خیال ہے کہ حالات جو بھی ہوں جمہوری نظام چلتے رہنا ہی سسٹم کی کامیابی ہے عمران خان، شیخ رشید اور۔شیخ الاسلام جس کلچرکو زندہ کررہے ہیں ا س سے واقعی جمہوریت کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں اگر اس ایجی ٹیشن سے”کچھ” ہوگیا تو اس سے احتجاج کرنے والوں کوسیاستدانوں کو کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔
یہ بات درست ہے لیکن ایک بات سمجھ نہیں آرہی میاں نواز شریف حکومت۔ عمران خان کے مطلوبہ 4 حلقوں میں دوبارہ گنتی سے گریزاں کیوں ہے؟ یعنی گنتی کا مطالبہ منظور کرکے معاملہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش نہیں کی ملک گیر احتجاج قبول کرلیا یہ منظق سمجھ سے باہرہے؟ اس کے باوجود دو” شیخوں”شیخ رشید اور علامہ طاہرالقادری کا عمران خان کی قیادت میںمیدان میں آنا خطرے کی گھنٹی ثابت ہو سکتاہے لیکن قوی امیدہے موجودہ حکومت کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں۔
سیاسی ٹمپریچر مزید بڑھنے سے حالات خراب ہوئے تو تبدیلی دو طرح سے آ سکتی ہے ایک جنرل وحیدکاکڑ کے سے انداز میں وزیر ِ اعظم کی عزت سے گھرواپسی،نئے انتخابات یا پھر پرویز مشرف سٹائل میں سب کچھ فنش میاں نوازشریف کا کمال یہ ہونا چاہیے وہ فہم و فراست اور تدبرسے تبدیلی کے دونوں راستے بند کردیں لیکن اس کیلئے اپوزیشن جماعتوںکی بے چینی دور کرنا بھی ان کا فرض ہے اب دیکھیں میاں نوازشریف کون سا راستہ اختیارکرتے ہیں اور عمران خان دارا شکوہ ثابت ہوتے ہیں یا اورنگ زیب۔اس کا فیصلہ ہونا باقی ہے۔