قوم کو مبارک ہو کہ اداکارہ وینا ملک پاکستان آ چکی ہیں۔ اُس نے پریس کانفرنس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سیاست میں حصّہ لینے کا عندیہ تو دے دیا لیکن ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا کہ وہ کسی سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کرے گی یا اپنی ذاتی سیاسی جماعت بنائے گی۔ اگر اُس کا کسی سیاسی جماعت میں شمولیت کا ارادہ ہوا تو پھر ہماری اُس سے گزارش ہو گی کہ وہ تحریکِ انصاف میں شمولیت اختیار کر لے شاید اسی لیے شیخ رشید احمد صاحب نے وینا ملک کو 11 مئی کے دھرنے میں شرکت کی دعوت دے ڈالی جس پر وینا ملک نے کہا شیخ صاحب ہمارے بزرگ ہیں۔ وینا ملک کے اِس جملے پر پتہ نہیں وینا کے شوہرِ نا مدار سمیت سبھی حاضرین کیوں کھلکھلا کے ہنس دیئے۔
پریس کانفرنس میں وینا ملک نے یہ انکشاف بھی کیا جب بِلّی نہیں ہوتی تو چوہے ڈانس کرنے لگتے ہیں۔ اب میں پاکستان میں آ گئی ہوں، سب کو سیدھا کردوں گی۔ عوام کو نوید ہو کہ اب وہ چوہوں کی بجائے بِلّی کے ڈانس سے محظوظ ہو سکیں گے۔ اُس نے یہ بھی کہا کہ ہسپتال بنانا اُس کا خواب ہے اور وہ فلم انڈسٹری کے لیے ایک NGO بنانا چاہتی ہے۔ پتہ نہیں ہمارے گلوکاروں اور اداکاروں کے سَر پر ہسپتال بنانے کا بھوت کیوں سوار ہو گیا ہے، جسے دیکھو، ہسپتال بنانے کے چکر میں ہے یا پھر NGO بنانے کے لیے تُلا بیٹھا ہے۔ اِس سے پہلے اداکارہ مِیرا بھی ہسپتال بنانے کے لیے حکومت سے زمین مانگتی پھر رہی تھی۔ اب اِس دَوڑ میں وینا بھی شامل ہو گئی ہے۔ بہرحال یہ اُن کا ذاتی فعل ہے، ہمیں اِس سے کچھ لینا دینا نہیں۔ ہم تو بَس یہ چاہتے ہیں کہ وینا تحریکِ انصاف میں شامل ہو کر آج (11 مئی) کے احتجاجی جلسے میں شریک ہو۔
آج اسلام آباد کے ڈی چوک میںمیدان سجے گا اور محترم عمران خاں کی سونامی اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ جلوہ گر ہو کر یہ اعلان کرے گی کہ ہم سا ہو تو سامنے آئے۔ جبکہ دوسری طرف مُرشد کے پروانے، دیوانے، مستانے راولپنڈی میں دھمال ڈالیں گے۔ حق تو یہی تھا کہ ہم بھی بنفسِ نفیس” ریلی اور جلسے میں شرکت کرتے لیکن قسمت کے لکھے کو بھلا کون ٹال سکتا ہے۔ اِدھر ہم نے رختِ سفر باندھا، اُدھر سورج دیوتا جلال میں آگیا۔ ہم ٹھہرے تھوڑے تھوڑے بَرگر فیملی کی قبیل کے اِس لیے طے یہی کیا کہ ٹھنڈے ٹھار کمرے میں بیٹھ کر ہی ٹی وی سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی شرکت کو یقینی بنایا جائے۔
ویسے بھی ہم ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں جہاں یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کونسی راہ اپنائی جائے کیونکہ دونوں ہی ہمارے پسندیدہ لیڈر ہیں۔ اِس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ دونوں میں سے جو بھی وزیرِ اعظم بنے گا، ہم اسی کے ساتھ ہونگے۔ ہماری عدم شرکت کے باوجود اتنا ہمیں یقین ہے کہ ڈی چوک کے جلسے میں لاکھ دو لاکھ کا مجمع تو معمولی بات ہے ویسے بھی میڈیا اگر ساتھ دے تو دَس پندرہ ہزار کو بھی لاکھ دو لاکھ دکھانا الیکٹرانک میڈیا کے بائیں ہاتھ کا کام ہے لیکن ہمیں اِس کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم دھاندلی” پر یقین رکھنے والے لوگ نہیں۔
چند دِن پہلے مُرشد ڈاکٹر طاہر القادری نے ایک انٹر ویومیں فرمایا کہ اُن کے لاہور کے جلسے میں بیس بیس میل تک لوگ کھڑے ہوئے تھے اور اب جب وہ خود پاکستان تشریف لائیںگے تو ایک کروڑ نمازی’ حکومت چھین لیں گے ، ١١ مئی کو تو صرف اگلا لائحہ عمل طے کرنے کی کال دی جا رہی ہے جس میں اُن کی موجودگی ضروری نہیں۔ جبکہ مُرشد کے ایک مرید ٹی وی ٹاک شو میں کہہ رہے تھے کہ ایک کروڑ کے مجمعے کی بات کرکے مُرشد نے ”کَسرِ نفسی” سے کام لیا ہے، دَر حقیقت یہ مجمع دو سے تین کروڑ تک کا ہو گا۔
اینکر نے مُسکراتے ہوئے کہا کہ یہ تین کروڑ سمائیں گے کہاں تو مُرید سے تو جواب بَن نہ پڑا لیکن اگر ہم وہاںہوتے تو اینکر کو کہتے کہ اگر مُرشد لاہور جیسے شہر میں تینتیس ، تینتیس کلو میٹر پھیلا ہوا جلسہ کرکے دکھا سکتے ہیں تو دو، تین کروڑ کی کیا حیثیت ہے؟ ۔تینتیس کلومیٹر چوڑے مجمعے میں تو پانچ کروڑ بندے سما سکتے ہیں۔ اُس وقت بھی مُرشد نے کَسرِ نفسی سے کام لیتے ہوئے فقط پچیس تیس لاکھ پر ہی اکتفا کر لیا حالانکہ مجمع تو پانچ کروڑ کا تھا۔
Imran Khan
ہم نے تو اپنے پچھلے کالم میں ہی کہہ دیا تھا کہ اگر ہمارے کپتان صاحب کو وزیرِ اعظم نہ بنایا گیا تو پھر کھیڈاں گے ، نہ کھیڈن دیاں گے۔اب وزیرِ اعظم صاحب نے بھی یہ کہا ہے یہ کیا کہ جیت گئے تو ٹھیک ، ہار گئے تو دھاندلی کا شور مچا دیا۔ ایک بارمیں عمران خاں کے پاس گیا تھا اب اُن کا فرض ہے کہ وہ بھی اپنے مسلٔے کے حل کے لیے میری چائے کی دعوت قبول کریںاور وزیرِ اعظم ہاؤس آ کر بتائیں کہاں دھاندلی ہوئی، یہ تو کوئی بات نہ ہوئی کہ کھیڈاں گے، نہ کھیڈن دیاں گے۔ بجا ارشاد! ہمارے کپتان صاحب ضرور وزیرِ اعظم ہاؤس آئیں گے اور اِسی تَگ و دَو میں وہ دِن رات ایک کیے ہوئے ہیںلیکن مہمان بَن کر نہیں، وزیرِ اعظم بَن کر۔ میاں نواز شریف صاحب کی اِس دعوت کو عمران خاں صاحب نے مسترد کرتے ہوئے بجا طور پریہ کہا ہے کہ یہ غیر مہذب طریقہ ہے۔
وزیرِ اعظم اپنے عہدے اور منصب کو مدّ ِ نظر رکھتے ہوئے سیاسی جماعتوں کو جلسوں میں اِس طرح مذاکرات کی دعوتیں نہ دیا کریں۔ ہم نے جب اِس غیر مہذب اور طنزیہ دعوت کا شکوہ ایک ”نون لیگیئے” سے کیا تو اُس کے تَن بدن میں آگ لَگ گئی ۔اُس نے تقریباََ چلاتے ہوئے کہا ”بَس چُپ رہو ، ہمارے بھی مُنہ میں زبان ہے”۔اُس نے کہا کہ جب کپتان صاحب ہر سیاسی جماعت کو ”رَگڑا” دیتے، کرپشن کے الزام لگاتے اور کبھی ایک بال میں تین وکٹیں گرانے، کبھی مولانا ڈیزل اور کبھی ”میاں جی ہُن جان دیو ، ساڈی واری آن دیو” جیسے غیر پارلیمانی جملے بولتے تھے، تَب کیا اُنہیں احساس نہیں تھا کہ ”سیر کو سَوا سیر” بھی مِل سکتا ہے۔
وزیرِ اعظم صاحب نے تو مسائل کے حل کے لیے انتہائی پیار سے وزیرِ اعظم ہاؤس آنے کی دعوت دی ہے۔ یہ غیر مہذب کہاں سے ہو گئی؟۔ہم نے اُس نون لیگئے کی” جَلی کَٹی” کا جواب دینا مناسب نہ سمجھا کیونکہ ہمیں تو پتہ تھا کہ یہ ساری تلملاہٹ وزارتِ عظمیٰ کے ہاتھ سے نکلنے کے خوف کی ہے۔ وزارتِ عظمیٰ بَس اب دو ، چار ہاتھ کے فاصلے پر ہے اور ہم نے بھی طے کر لیا ہے کہ اب کی بار اِسے لیے بغیر ٹلیں گے نہیں۔
شیخ رشید احمد چونکہ ”مستقبل شناس ” ہیں اور وہ بھی بھانپ چکے ہیں کہ دھاندلی کی پیداوار 35 پنکچروں والی موجودہ اسمبلی اب اپنے انجام کو پہنچنے والی ہے۔ اِس لیے اُنہوں نے بھی یہ کہہ دیا کہ اگر اُن کے کسی ایک کارکُن نے بھی اُنہیں استعفیٰ دینے کے لیے کہا ، وہ استعفیٰ دے کر اسمبلی سے باہر آ جائیں گے۔ اِس سے پہلے بھی اُنہوں نے استعفے کی بات کی تھی لیکن وہ تو اسحاق ڈار صاحب نے اُن کے ساتھ ”ہتھ” کر دیا اور ”ایویں” وقتی طور پر ڈالر کے ریٹس 98 کی سطح تک لے آئے جس پر شیخ صاحب نے ”احتجاجاََ ”استعفیٰ نہیں دیا لیکن اب جبکہ اُنہیں اچھّی طرح سے علم ہے کہ یہ اسمبلی کچھ دنوں کی مہمان ہے۔
وہ مستعفیٰ ہونے کو تیار ہو گئے ہیں ۔یہی نہیں بلکہ اُنہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے میں ایسی اسمبلی پر لعنت بھیجتا ہوں۔ اب ظاہر ہے کہ اتنا کچھ کہنے کے بعد وہ اسمبلی میں تو جائیں گے نہیں البتہ اُن کے ازلی ابدی دشمن نواز لیگئے لازماََ آئین کے کسی ایسے آرٹیکل کی تلاش میں ہونگے جس کے مطابق پارلیمنٹ کی اِس توہین پر کوئی لمبا چوڑا کیس بنتا ہو ۔سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر شیخ رشید احمد اور فیصل رضا عابدی کو جیل جانے کا اتنا شوق کیوں ہے۔