11 مئی کو عالمی سطح پر ماؤں کا عالمی دن منایا گیا اور دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی نیک و سعد اولاد نے اپنی ”ماں ” سے اظہار محبت کے ساتھ اس کی خدمت ‘ اطاعت اوروالدین سے حسن سلوک کا عہد کیا ۔دنیا کا پہلا مدرز ڈے امریکی ریاست مغربی ورجینیا کے شہر گریفٹن میں” اینا جاروس” نامی خاتون نے 1905ء میں انتقال کرجانے والی اپنی ماں کی یاد میں 1908ء میں منایا۔
اپنی ماں کی محبت کے جذبے سے چوراینا جاروس کی کوشش تھی کہ ”ماں کی محبت کے اظہار” کا دن سرکاری سطح پر منایاجائے اور یہ ایناجاروس کی ماں سے محبت کی کامیابی ہے کہ آج یہ دن دنیا کے ہر خطے میں منایا جاتا ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی لوگ ماں کو یاد کر لیتے ہیں کوئی تحفہ،کارڈ، پھول یا کیک وغیرہ –ماں کو بھی کم ازکم مغربی معاشرے میں احساس ہوتا ہے کہ اسکا بھی کوئی وجود ہے’خاص کر بوڑھی مائیں جنکا کوئی پرسان حال نہیں ہوتاحالانکہ ان میں سے بیشتر وہ ہوتی ہیں جنہوں نے تنہا اولاد کی پرورش کی ہوتی ہے۔
ماں کا رشتہ کائنات کا خوبصورت ترین رشتہ ہے ‘اس میں کائنات کی خوبصورتی کے سارے رنگ پوشیدہ ہیں’خالق کائنات نے مخلوق سے اپنی محبت و الفت کا اظہار کرنے کے لیے اس رشتے کو بطورِ مثال پیش کیا ہے اورفرمایا گیا ہے کہ ”ماں کی خدمت عبادت اور اس کی دعائیں جنت کا درکھولنے کا سبب ہیں۔
اللہ تعالی نے اس کا درجہ اس قدر بلند رکھا ہے کہ اس کے قدموں تلے جنت رکھ دی ہے- لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ جنت کی ضمانت کی مالک یہ ہستی کس قدر آزمائشوں کی بھٹی سے گزرتی ہے- نو ماہ تک تکلیف سہتی ہے۔پل پل اس کی سانسوں کے ساتھ زندگی گزارتی ہے- ایک عورت ایثار قربانی درگزر اور سمجھوتے کا پیکر اس وقت بنتی ہے جب وہ ماں بن جاتی ہے پھر اس کا ہر قدم ہر فیصلہ اس رشتے کی روشنی میں دیکھا جاتا ہے۔
ماں کی اہمیت تو آفرنیش سے مجسم ہے ‘ماں کے وجود اور اسکی قربانیوں سے کون انکار کرسکتا ہے وہ نو ، دس مہینے حمل جسکے معنی بوجھ کے ہیں) اٹھاتی ہے)’درد زہ سے گزر کر جنم دیتی ہے پھر پالنے پوسنے کا عمل شروع ہوتا ہے دودھ پلانے سے لیکرپرورش کی بیشتر ذمہ داریاں ماں پر ہی عائد ہوتی ہیںاور بہ حسن و خوبی ان ذمہ داریوں کو نبھاکر بھرپور توجہ و محبت سے کمزور و ناتواں اولادکو پروان چڑھاکر مضبوط و توانا بناتی ہے۔
کمزور اولادکو توانا بنانے والی یہ ماں اس وقت زندگی کے سب سے بڑے کرب سے گزرتی ہے جب اس کی اولاد تکلیف میں ہوتی ہے اس کا بس نہیں چلتا کہ وہ اولادکی تکلیف کو کسی بھی طرح اپنے سر لیکر اولادکو آسودہ و مطمئن کردے مگر آج کے دور میں بچوں کو تکلیف سے بچانے اور کمزور سے توانا بنانے والی ماں اولاد کی بے رخی اور مفادپرستی کا شکارہے اولاد اپنی خواہشات کی تکمیل ‘ آسائش ‘معمولی سے سکون کی خاطراور وقتی پریشانی سے نجات کیلئے والدین کی جانب سے بے توجہ ہوتی جارہی ہے۔
مغرب کے بعد ہمارے مشرقی معاشرے میں جسے اب مغرب زدہ معاشرہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا والدین بالخصوص ماں کو اولڈ ایج ہومز میں چھوڑ جانے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے کیونکہ اولاد کے نزدیک بوڑھی ماں کی حیثیت استعمال شدہ ان شیاء جیسی ہوچکی ہے جو بے مصرف ہوکرکاٹھ کباڑ کے گودام یا کوڑے دان میں پھینک دی جاتی ہیں ۔ ذار سوچئے اپنی اولاد کو ہرپل اپنی نگاہوں کے سامنے رکھنے ‘ اس کی چھوٹی چھوٹی خواہشاتو ضروریات کی تکمیل کیلئے اپنے خواہشات کومارنے اور عمر تمام کردینے والی ماں پر کیا گزرتی ہوگی جب اس کی اپنی اولاد اسے تنہا یا کسی اورکے سہارے چھوڑ کر اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے اس کی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتی ہے۔
مگریہ ماں ہے جو دنیا کی اس بدترین تکلیف و کرب سے گزرنے کے باجود بھی اپنی اولادکی خوشی ‘ کامیابی ‘ ترقی اور حفاظت کی دعا مانگتی ہے اور کسی سے شکوہ کرتی ہے نہ اپنی اولاد کے ستم سے پردہ اٹھاتی ہے۔ آج کی نسل جسے تعلیم یافتہ ‘تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ ہونے کا گمان و زعم ہے اس کے پاس اتنا بھی علم نہیں ہے کہ ”ماں کا مقام کیا ہے’رب کے نزدیک اس کی کیا عظمت ہے اور اس کی دعاؤں میں کیا تاثیر و کرامت ہے۔
Hazrat Muhammad PBUH
ماں کی عظمت کے اظہار کیلئے آپۖ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ اگر میری ماں حیات ہوتیں اور وہ مجھے پکارتیں، اور میں نماز کی حالت میں بھی ہوتا تو نماز توڑ کر بھی انکی آواز پر لبیک کہتا۔ کسی نے آپۖ سے سوال کیا کہ میں سب سے اچھا سلوک کس کے ساتھ کروں آپۖ نے فرمایا کہ ”اپنی ماں کے ساتھ ”۔ سائل نے پھر پوچھا کے اس کے بعد، آپۖ نے پھر فرمایا کے ماں کے ساتھ، پھر تیسری بار بھی ماں کا فرما کر چوتھی بار میں فرمایا کے باپ کے ساتھ ، پھر اسکے بعد جو رشتہ دار جتنا قریب ہے اتنا ہی مقدم ہے ۔علما کرام فرماتے ہیں کہ ماں تین مشقتیں اور تکلیفیں برداشت کرتی ہے، ایک حمل کی، دوسری جننے کی اور تیسری دودھ پلانے کی، اس لئے حسن سلوک میں پہلے تین درجے پر ماں ہیہے۔
اللہ تعالی نے ماں ہی کے اندر یہ حوصلہ رکھا ہے کہ وہ ان تین مشقتوں کو جھلنے میں نہ دن دیکھتی ہے نہ رات، نہ ہی اپنی صحت مد نظر رہتی ہے اور نہ ہی راحت و آرام ،اپنی جان پر کھیل کر بچے کی پرورش کرتی ہے، اس لئے فرمایا کہ اپنے والدین کے سامنے اف تک نہ کہو اگر کسی کام کا کہیں تو ناگواری کا اظہار بھی نہ کرو حتی کہ اگر بڑھاپے اور بیماری کی وجہ سے تمہیں انکا بول و برازصاف کرنا پر جائے تو بھی ناگواری نہ ہو کہ یہ بھی بچپن میں تمھارا بول و براز صاف کرتے تھے۔
دنیا میں معذور بچوںکو اصطلاحاً ”اسپیشل بچے ”کہا جاتا ہے مگر میری نظر میںوہ مائیں اسپیشل ہوتی ہیں جو ان بچوں کی کمی کواپنی محبت ‘شفقت’محنت اور خدمت سے پوراکرتی ہیں اور ان اسپیشل بچوں کے ہر بات کو سمجھتی ‘محسوس کرتی اور ان کی تکمیل میں پریشانی و پشیمانی محسوس نہیں کرتیں بلکہ خندہ پیشانی سے اپنے بچے کی ہر اس چیز کو برداشت کرتی ہیں جو دوسروں کی نگاہ میں قابل سزا ہوتی ہے اور ان کا یہی صبر آہستہ آہستہ اسپیشل بچوں کو بھی کارآمد شہریوں کی صف میں لاکھڑا کرتاہے حالانکہ یہ اسپیشل بچوں کی مائیں یہ بات جانتی ہیں کہ ان کی اولاد ان کی کبھی خدمت نہ کرسکے گی جیسا کہ ایک صحت مند اولاد سے توقع رکھی جاتی ہے۔
اسلئے ہرماں قابل تعظیم ‘قابل تکریم ‘ قابل توصیف اور قابل خدمت و سلوک ہے اور اس کیلئے سال میں ایک دن مختص کرنا اس کی تکریم نہیں بلکہ توہین ہے کیونکہ اس کی خدمات کے اعتراف کیلئے تو زندگی کا ہرلمحہ بھی مختص کر دیا جائے تو کم ہے۔