نفرت کا لاوہ اُبلا تو مال روڈ پر یہ منظر بھی دیکھا گیا کہ کتوں اور گدوں کے گلوں میں حکمرانوں کے نام کی تختیاں ہیں اور وہ جلوس کی قیادت کر رہے ہیں پاکستان کی آمرانہ تاریخ میں ایوب خان کو آمرانہ دستور کا بانی گردانا جائے گا جس نے جمہوری روایات کو پامال کر کے آمریت کے ننگے جسم کو جمہوریت کا چیتھڑا چیتھڑا پیراہن پہنا کر جوان کیا اس کے آمرانہ دستور 1962ء کے مطابق وزراء کا انتخاب صدر کرتا تھا اور قومی اسمبلی کا رکن ہونا ضروری نہیں تھا صدر جب چاہتا انکو نکال سکتا تھا۔
قومی اسمبلی کے پاس شدہ قانون میں ترامیم، تجاویز، اسے مسترد یا قبول کرنے کے اختیارات صدر کے پاس تھے عدلیہ کے ججوں کی تقرری اور تبادلہ بھی ایک آمر کے مرہون منت تھے وہ ہنگامی حالت کا اعلان کر کے عوا م کے بنیادی حقوق معطل کر سکتا تھا ،تمام دستوری اداروں کی بساط لپیٹ سکتا تھا،وزارتیں اور اسمبلیاں توڑ سکتا تھا بلکہ خود دستورایک آمر کے رحم و کرم پر تھا اس نے انتظامیہ میں بھی منتقم مزاج افراد کی تقرریاں خوب کیں مشرقی پاکستان میں ذاکر حسین کو بطور آئی جی، عبدالمنعم کو بطور گورنر تعینات کیا جبکہ مغربی پاکستان میں نواب آف کالا باغ امیر محمد خان کو گورنر بنایا گیا جس نے مادر ملت فاطمہ جناح کے مقابلے میں ایک آمر کی جیت کی راہ ہموار کی ان افراد کی تقرریاں ایک ایسا عمل تھا جس میں دور، دور تک سیاسی مخالفین کے خلاف تشدد اور انتقام کی راہ دکھائی دیتی تھی۔
لاہور میں بیرون بھاٹی گیٹ پر ہونے والے ایک اجتماع میں ایک جماعت کے سربراہ پر فائرنگ کرائی گئی غرض یہ تینوں حکومتی اشخاص جبرو استبداد کا نشان بن گئے رسم انتقام چلی تو عوام میں نفر ت نے جنم لیا پولی ٹیکنیکل کالج راولپنڈی کے طلباء نے مقامی مسئلہ پر ہڑتال کی تو ریاستی پولیس نے طلباء کے جلوس پر گولی چلادی ایک آمر وقت کے خلاف یہ تحریک کی ابتدا تھی حکومت کے خلاف طلباء کے جلوس نکلے کسی نے آمر سے پوچھا،حکومت کے خلاف یہ جلوس چہ معنی دارد؟ ایوب خان نے کہا چند من چلے نوجوانوں کی شرارت ہے جو سیاستدانوں کے بہکاوے میں آکر ایسا کر رہے ہیں۔ جلسوں کی شدت تحریک کی شکل اختیار کر گئی ایوب خان کو مستٰعفی ہونا پڑا۔
پاکستان کے تاریخی باب میں ایک آمر کا ازخوداستیتعفٰی باعث حیرت ٹھہرا معروف صحافی مرحوم زیڈ اے سلہری ایوب خاںکے پاس پہنچے اچانک مستعفی ہونیکا سبب پوچھا، سلہر ی کا کہنا تھا کہ اس سوال پر ایوب خان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، ایک آمر کی آواز شدت جذبات سے کانپ رہی تھی گویا ہوئے “کل صبح برآمدے میں بیٹھا تھا دیکھا کہ انکے معصوم پوتے ایک عددجلوس کی قیادت فرما رہے ہیں جس کے مظاہرین میں ایوان صدر کے مالیوں، قاصدوں، ڈرائیوروں کے بچے شامل ہیں، جلوس کی قیادت کرنے والا میرا پوتا ایوب ہائے ہائے کے نعرے بلند کر رہا ہے اور صدر سے کرسی چھوڑدینے کا مطالبہ بھی” تحریک میرے گھر تک پہنچ گئی اور میں مستعفی ہو گیا۔
Imran Khan
عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی کال پر جب شہروں اور دیہاتوں سے قافلے اسلام آباد کی طرف عازم سفر ہو ئے تو حکومت کی طرف سے راستہ میں بنائی گئی تمام رکاوٹیں عوامی جذبات کے سیل رواںمیں بہہ گئیں دیہاتوں اور شہروں سے نکلنے والے عمران اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے جانثاروں کا میلوں لمبا جلوس کارواں بن گیا یہ کارواں ضلعی صدر مقامات پر پہنچا تو لوگوں نے گھروںکی چھتوں پر کھڑے ہوکر سر بکف نوجوانوں کا استقبال کیا۔ پیاسے لوگوں کی پیاس بجھانے کیلئے لوگ سڑکوں پر کھڑے ہوگئے یہی کچھ اُن شہروں میں ہوا جہاں مسلم لیگ ن اپنا مضبوط ووٹ بنک کی دعویدار ہے سچی لگن اور عوامی محبت کے سائے میںعوامی قافلوں نے چند گھنٹوں ستائیس گھنٹے میں طے کیا اور وقت کی آنکھ نے دیکھا کہ برسوں بعدکسی سیاسی شخصیت کیلئے اتنی غیر معمولی تعداد میں عوام باہر نکلے کہ سول آمریت کے ایوان لرز رہے تھے۔
یہ حکمرانوں کے خلاف تحریک عدم اعتمادہے 18 کروڑ لوگوں کی جانب سے حکمرانوں کے خلاف ریفرنڈم ہے 11 مئی کو عوام کی پذیرائی دیکھ کر مجھے یاد آیا جب ایک آمر حکمران نے ترکش میں باقی آخری تیر سے عدلیہ کا آخری شکار کیا جس نے ایک طاقتور آمر کے اقتدار کی بساط لپیٹ کر رکھ دی مگر عوام ایک بار پھر این آر او زدہ حکمرانوں کے خلاف کمر کس چکے ہیں ،اپنی کرپشن ،غیر آئینی اقدامات کو پارلیمنٹ کے سہارے قانونی شکل دینے کی تیاریوں میں مصروف سول آمروں کے خلاف میدان میں اترچکے ہیںتحفظ پاکستان کے نام سے مخالفین کے خلاف بد ترین انتقام کیلئے قانون پاس کرانا جسکی پہلی کڑی ہے جس کے تحت چند بڑے لٹیرے جس طرح چاہیں گے اپنی بدمعاشی کریںگے ان کو کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی مگروقت کے حکمرانوں کو کوئی غلط قدم اٹھانے سے پہلے سوچنا ہو گا کہ اس بار عوام کے سامنے نہ کوئی ایوب خان ہے اور نہ ہی اپنی وردی کو کھال قرار دینے والا لامحدود اختیارات اور طاقت کا مالک مشرف۔