خداراہ !پولیس نظام نہیں چاہے

Human

Human

انسان معاشرتی جانور ہے۔ زمانہ قدیم میں انسان جنگل میں رہتا تھا۔ اس کی عادات، افکار بھی جنگلی تھے۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا انسان عقل و شعور کی سیڑھیاں عبور کرتا گیا۔ پہلے پہل انسان ننگا پھرتا تھا، پھر درختوں کے پتوں سے خود کو ڈھانپنا سیکھا۔ یوں آج کپڑے پہننے لگا ہے۔ بلکہ اب کپڑوں سے بھی کہیں آگے نکل چکا ہے۔ شروع میں قبیلوں کی شکل میں رہنے والے آج کے اس جدید دور میں دو بھائی بھی اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ایک مرلے کے مکان میں دیواریں چنوا دی گئی ہیں۔ کھانے پینے سے لیکر رہن سہن تک علیحدہ ہوگیا ۔اسی لیے تو کہتے ہیں انسان کو انسان سے ہی خطرات لاحق ہیں۔

ان خطرات سے نجات پانے کے لئے اور خود کو حفاظت میں رکھنے کے لئے پولیس کا ادراہ قائم ہوا۔جب پولیس کا اداراہ قائم ہوا گا،اس نظام کوبنانے والوں نے سوچا ہوگا کہ پولیس کی تشکیل سے وحشی،جنگلی جانوروں اور دشمنوں سے نجات مل جائے گی۔اس اداراہ میں بھرتی ہونے والے افراد بھی ایمانداری،فرض شناشی کے پیکر ہوں گے۔مگر وہ زمانہ بہت پہلے بیت چکا،اب۔۔۔۔۔اب قوم کے یہ محافظ،انسانی درندوں،ڈاکوئوں کے ساتھ ساتھ رہ کر ان کی عادات بھی ان جیسی ہو گئی ہے۔

مشہور کہاوت ہے خربوزہ،خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے کے مصداق یہ محافظ کم اور لوٹنے والے زیادہ بن گئے ہیں۔ان کی ایجاد ہوتے ہی جرائم کم ہونے کی بجائے کثرت سے بڑھ گئے ہیں۔ہونا تو چاہیے تھا کہ جرائم کا نام و نشان تک مٹ جاتا ہے۔مگر کیا کریں اگر جرائم ختم ہو جاتے تو ان کو کون پوچھتا۔(بات بھی سچ ہے)۔ان کے ناز و نخرے کون اٹھاتا۔ان کے بچوں کے اخراجات کہاںسے پورے ہوتے۔سچ کڑوا ہوتا ہے اور جھوٹ بولوں تو زبان کٹ جائے۔

پولیس کے آنے سے جرائم بڑھے ہیں ،کم نہیں ہوئے۔کرپشن،رشوت خوری کی موذی مرض یہاں سے ہی تو پھیلی ہے۔جس نے پورے ملک بلکہ پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ یوں سمجھیں رشوت خوری، کرپشن کی ماں پولیس ہی ہے۔اب حالت یہ ہے پولیس کا نام لبوں پر آتے ہی مہذب انسان کے ماتھے پر شکن پڑ جاتی ہے۔

کہنے والے تو یہاں تک کہہ گئے ہیں کہ یہ سگی ماں کو بھی چھوڑتے۔تو پھر یہ دھرتی ماں کے ساتھ کیسے مخلص ہوں گے۔ان کی جسامت دیکھو،پیٹ بڑھ گئے ہیں ۔جہاں بھر کی بجٹ یہی کھا جاتے ہیں۔قومی خزانے کا بیشتر حصہ ان پر خرچ ہو جاتا ہے۔عوام کے روپوں سے پلینے والے عوام کو ہی لوٹنے لگے ہیں۔مجرم ڈنڈناتے پھرتے ہیں اور غریب،سیدھے سادھے لوگوں پر الزام لگا کر پابند سلاخل کر دیتے ہیں۔

Newspaper

Newspaper

اخبارات ان کی کارگردگی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔انصاف پانے کی غرض سے ان کے پاس جانے والے مجرم بن جاتے ہیں۔جرائم پیشہ لوگ ان کی پشت پناہی میں عوام کا جینا محال کیے ہوئے ہیں۔الزامات لگاتے وقت خود ان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ یہ مجرم بنا کیسے۔پانچ سال کا بچہ قتل کے کیس میں جب پابند سلاخل ہوگا تو اس سے واضع ثبوت کیا ہوگا۔

ان کیطرف سے رہائی پانے والے کچھ تو ذہنی مرلض بن جاتے ہیں اور کچھ کلاشکوف،اٹھا کر جرائم کی راہیں اپنا لیتے ہیں۔ وزیراعلی کو خادم اعلی بھی اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ان کی خدمت کرتے ہیں۔ ہر سال ان کی مراعات، تنخواہیں بڑھا دی جاتی ہیں۔ ان کو تمغوں سے نوازاہ جاتا ہے۔ اتنا کچھ حاصل کرنے کے باوجودان کو عقل نہیں آتی۔ وزیراعلی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوپاتا۔

جو کہتے رہتے ہیں پولیس سے کرپشن،رشورت خوری ختم کر کے رہوں گا۔ صاحب جی!کرپشن کی جڑیں تو اتنی مضبوط ہو چکی ہیں کہ ختم نہ ہوں آپ کو مشورہ دوں اگر قبول ہو۔کیوں ناں اس نام کو ختم کردیا جائے۔کم ازکم کچھ کرپشن تو ختم ہوجائے گی۔آپ کو خبر ہو ناں ہو۔ان گناہگار آنکھیوں نے ان کو دن کو محافظ اور رات کو چور، ڈاکو بنے دیکھا ہے۔

میں تو کہتا ہوں نہ ان کے پیٹ کا حجم کم ہوگا نہ ان کی رگوں سے رشوت کے جراثیم ختم ہوگے چاہے جتنی تدبیریں آزما لیں۔میری مانے اس نظام کو ہی ختم کر دیں اور حفاظت پر فوج کو معمور کر دیں ۔پھر دیکھیں جرائم ختم ہوتے ہیں کہ نہیں ،نہ رہے کا بانس نہ بجے گی بانسری۔آگے آپ کی مرضی۔ آپ حاکم جو ٹھہرے۔

Majeed Ahmed

Majeed Ahmed

تحریر: مجیداحمد جائی
majeed.ahmed2011@gmail.com