400 چکوک کے ہزاروں باسیوں کی واحد علاج گاہ مسیحا کی منتظر

Layyah

Layyah

لیہ (ایم آر ملک )400 چکوک کے ہزاروں باسیوں کی واحد علاج گاہ مسیحا کی منتظر، مستحقین بنیادی سہولتوں سے محروم، ادویات کی بااثر طبقہ اور اقرباء کو ترسیل عام آدمی ڈسپرین کی گولی کیلئے ترس گیا ہرماہ قیمتی زائد المیعاد ادویات کی کثیر تعداد قریبی نہر میں بہا دی جاتی ہے۔ سراپا احتجاج عوام کا موقف۔ تفصیل کے مطابق 1988ء میں لیہ کے نواحی قصبہ سمی پور میں شمالی علاقہ جات میں شہید ہونے والے پاک فضائیہ کے فلائنگ آفیسر طارق علوی شہید کے نام پر رورل ہیلتھ سنٹر بنا۔

جس کے لئے لاکھوں روپے فنڈز مختص کئے گئے اور جس کی عمارت اس وقت جدت کے حوالے سے ضلع بھر میں نمایاں تھی ۔ مذکورہ شہید آفیسر کے والد مرحوم میجر محمد شریف نے شہید کی تمام پینشن کو مذکورہ ہیلتھ سنٹر کے لئے وقف کر دیا۔

تاکہ اس صدقہ جاریہ کا ثواب شہید کی روح کو ملتا رہے شہید کے نام پر دو ست احباب نے ایک ٹرسٹ بھی قائم کیا جس کی تمام آمدن اس ادارہ کو ڈونیٹ کی جاتی ہے۔ جبکہ 26 کمرشل دکانوں کی آمدن بھی مذکورہ مرکز مسیحائی کے لئے رکھی گئی مگر محکمہ صحت نے علاقائی عوام کی شکایات کے باوجود آنکھ موند رکھی ہیں۔ انتہائی علیل عرصہ میں بننے والی عمارت کھنڈرات اور بھوت بنگلہ کا منظر پیش کررہی ہے۔ مرکز مسیحائی کی دیواریوں میں جابجا دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ جبکہ پانی کی سپلائی کی کے لئے لگایا جانے والا پائپ 550 فٹ چوری ہو چکا ہے۔

رہائشی کمروں کے دروازے تک چوری ہو چکے ہیں اور دیواریں گری ہوئی ہیں۔ کم وبیش چار سو نواحی چکوک کے مکین یہاں علاج معالجہ کی خاطر آتے ہیں۔ ادویات کا لاکھوں روپے کا بجٹ مختص ہونے کے باوجود ادویات مستحق مریضوں کی دسترس سے دور رہتی ہیں اور تعینات عملہ قریبی رفقاء کو ان ادویات کی ترسیل کرتا ہے۔

جبکہ ہر ماہ قیمتی زائد المعیاد ادویات کی کثیر تعداد قریبی نہر میں بہا دی جاتی ہے۔ سراپا احتجاج عوام اور علاقائی معززین محمد سرور علوی، قیوم اعوان، محمد ارشد ، جمشید علوی، غلام عباس، محمد رمضان غلام یٰسین، نصیرا حمد، ساجد، غلام شبیر ، کرم حسین وغیرہ نے اپنے موقف میں بتایا کہ مذکورہ مرکز مسیحائی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔

ڈیلوری کیس کے لئے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال جانا پڑتا ہے۔ جبکہ ایمبولینس تک کی سہولت نہ ہے۔ حکام بالابنیادی سہولیات کی فراہمی کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام کریں۔ جبکہ تین مرتبہ اپ گریڈیشن کی سمری محکمہ صحت پنجاب کے حکام کو بھیجی گئی مگر اس پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔