اسلام آباد (جیوڈیسک) کیا آرمڈ فورسز کے اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جا سکتی ہے، اگر ہاں تو ٹرائل فوجی عدالت کرے گی یا سول عدالت؟ سپریم کورٹ نے لاپتا افراد کیس میں اٹارنی جنرل پاکستان اور ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخوا سے آج جواب طلب کر لیا۔
سپریم کورٹ کے جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے 35 لاپتا افراد کیس کی سماعت کی۔ ڈی سی او مالا کنڈ کی جانب سے کیس کے ملزم نائب صوبیدار امان اللہ کو فوج کے حوالے کرنے کا معاملہ زیر بحث رہا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کے استفسار پر ڈپٹی اٹارنی جنرل وقاص قدیر نے عدالت کو بتای۔
ا کہ کسی فوجی کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں ہو سکتی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیے کہ بظاہر عدالت سمجھتی ہے کہ ایف آئی آر درج ہو سکتی ہے، فوجی اتھارٹی کی جانب سے ڈی سی او مالاکنڈ کو لکھا گیا خط اور اس کا جواب پڑھ کر لگتا ہے کہ آرمی اتھارٹی سمجھتی ہے ڈی سی او ان کے مطیع اور فرما بردار ہیں۔ عدالت نے کہا کہ ملزم امان اللہ کی حوالگی سے متعلق احکامات بھی جمعرات کی سماعت پر جاری کیے جائیں گے۔