شفق لکھوں ،شفیق لکھوں ،کہ تجھے کیا لکھوں القاب کے پیچ و خم میں حیراں ہے قلم شیکسپئر کا کہنا ہے کہ کچھ لو گ پیدائشی طور پر عظیم ہو تے ہیں اور کچھ اپنی جدوجہد اور کا رنا مو ں کی بدولت عظمت حا صل کر لیتے ہیں روزنامہ خبریں ملتان کے ریذیڈنٹ ایڈیڑ علیم چودھری کی ذات میں عظمت ،قا بلیت ،نفا ست ، منکسرالمزاجی ،محبت والفت اور نیک نا می کی تما م تر خو بیاں پیدائشی طور پر مو جو د تھیں۔
ان کے بچپن ہی میں انکی فیملی انکی برادری اور دیگر لوگوں نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ یہ بچہ ایک دن بہت بڑا نام پیدا کرے گا اور عزت و شہرت کی تما م تر بلندیاں عبور کر جا ئے گا ۔یہ الفا ظ اس وقت سچ ثا بت ہوئے جب سی ،ای ،او خبر یں اینڈ چینل فائیو جنا ب ضیا ء شا ہد صا حب کے بھر پور اسرار پر علیم چو دھری نے اپنی انتھک محنتوں ،مدبرانہ صلا حیتوں ،فہم و فراست و غیر متززل عزم و ہمت ،صحا فی بصرت اور بے مثا ل مخلصا نہ صفا ت کے با عث خبریں ،ملتان کا اپنا دفتر بنا کر اخباروں سے معیا ری بنا دیا ۔صحا فت کی خدمت کا سہر ا حقیقتاََمخصوص روحوں کے سرپر ہو تا ہے اور یہ سہرا اپنے سر سجا نے کا اعزاز بھی انہی کو حا صل ہے۔انہوں نے صحا فت برائے خدمت کو مثالی طور پر ثا بت کر کے دکھا یا ۔وہ اپنی پور ی زندگی صحا فت کی آبیا ری میں مصروف رہے۔
انہی کی بدولت جنو بی پنجا ب میں خبریں کو نما یا ں حیثیت حا صل ہے ۔علیم چو د ھری نے کبھی اخبار میں اپنی تصویر نہیں چھپوائی اور نہ ہی یہ شوق تھا وہ اخباری شہرت کی بجا ئے لو گوں کے دلوں میں گھر بنا نے کے قا ئل تھے بلکہ ان کیلئے تو یہ شعر صا دق آتا ہے کہ۔
یہ شہر توں کی کہا نی ہے مختصر اتنی کہ جیسے نا م لکھا ہو کسی غبارے پر
Allama Iqbal
شا ید کہ علا مہ اقبال کے خیال کے مطابق جمو د کو موت کے مترادف سمجھتے تھے جب بھی دیکھوصحا فتی امور کے حوالے سے۔ ادھر نکلے ،اُدھر ڈوبے ،دھر ڈوبے ،ادھر نکلے علا مہ اقبال نے محبت کو فا تح عالم کہا ہے محبت سے ہم جس بند دروازے پر دستک دینے ہیں وہ آخر کا کھل جا تا ہے یہی وجہ تھی کہ علیم چو دھری کی شخصیت میں خلو ص کو ٹ کوٹ کر بھر اہو تھا ۔بقو ل عبدالحمید عدم دلوں کو دام میں لا نا ہی شہر یا ری ہے خلوص سب سے بڑا اقتدار ہے سا قی یہاں چند ماہ قبل ان سے ہونے والی ملا قا ت کا ذکر نہ کروں تو اپنے آپ کے سا تھ بہت پڑی ذیا دتی کروں گا۔
چند روز قبل میں اپنی نئی چھپنے والی شعر ی انتخا ب کی کتا ب ،، خواب ادھو رے ہیں ،، انہیں پیش کر نے کے لیئے گیا تو وہ آفس میں مو جو د تھے میں نے کتاب پیش کی تو بہت خو ش ہوے میری کتاب میں ان کے قلم سے لکھے گئے تاثرات آپ سب کی نظر کر رہا ہوں ۔وہ لکھتے ہیں کہ شا عری ایک تا ثر ہے ۔ جس کے اثرا ت دیر پا اور گہر ے ہو تے ہیں ایک خیا ل ہے جو ہمہ گیر جذبوں کی علا مت ہو تا ہے اور حقیقت کا روپ دھا ر لیتا ہے۔ ایک تہذیب ہے کہ جو ما ضی سے لیکر مستقبل کی عکا سی کر تی ہے قلم اور کتاب سے کبھی نا طہ نہ توڑنا ۔کیو نکہ لکھنے والا مٹی میں چلا جا تا ہے اور تحریر زندہ رہتی ہے ۔مطالعہ ایک قا بل قدر عا دت ہے۔
مطا لعہ انسا نی زندگی کو با لید گی دیتا ہے انسان مکمل پیدا نہیں ہو تا جب کہ جا نور مکمل پیدا ہو تے ہیں ۔انسا نو ں کو اپنی شخصیت کی تکمیل کر نا ہو تی ہے انسا ن بنا ء کسی نا م کے اس دنیا میں آتا ہے مگر اُسے اپنا ایک نا م دے کر جا نا ہو تا ہے انسان اپنے اندر کو ئی بُرائی لے کر پیدا نہیں ہو تا خو بیا ں اور بُرائیاں اس کے دلوو دما غ میں با ہر سے داخل ہو تی ہیں بعض ان کی پر ورش کرتے ہیں اور بعض نہیں کر تے۔۔،،
زندگی بے وفا ہے اس کا کو ئی بھروسا نہیں ہے وہ اپنی گا ڑی خو د چلا کر دفتر پہنچے جہا ں مو ت ان کی منتظر تھی ۔انہیں کیا خبر کہ زندگی ان کے سا تھ بے وفا ئی کرنے والی ہے وہ معمول کے مطا بق ہفتہ اور اتوار کی درمیا نی شب اپنے آفس میں انگریزی کی کو ئی کتاب پڑھ رہے تھے کہ اچا نک دل کا دورہ پڑنے سے انہیں موت نے اپنے حصا ر میں جکڑ لیا اور وہ اپنے ہزاروں بلکہ لا کھوں احباب کو روتا چھو ڑ کر اپنے خا لق حقیقی سے جاملے (انا للہ و ء انا الیہ را جیعون )ان کے پسما ندگان میں ایک بیٹا اور دو بیٹیا ں اور بیوی شا مل ہیں ۔وہ منوں مٹی کے نیچے جا کر ابدی نیند سو گئے ہیں مگر مجھے ان کی مو ت کا یقین ہ نہیں آ رہا علیم چو د ھری اب ہما ر ے درمیان نہیں رہے۔
ان کی عطر بیز یا دیں نہا ں خا نہ ء دل میں ہمیشہ مو جو د رہیں گی لو گوں کے دلوں کو مرکز مہرو وفا کرنے والے اس عظیم انسا ن کا نا م لو ح جہاں پر تاابد ثبت رہے گا ۔ان کی عظیم اور مستحکم شخصیت کے نقوش ہر عہد میں رہر وان ِمحبت کے لیئے با نگ درا ثا بت ہوں گے اس نے اپنے خو ن ِجگر سے گلشن صحا فت کو سیرا ب کیا اس کا دبنگ لہجہ اور خلو ص بھری آواز سفا ک ظلمتوں میں ستا رہ سحر کی نقیب تھی ۔انہوں نے منا فقت خو د غر ضی اور استحصا ل کے مہیب اور بیھیا نک اور تا ریک ما حو ل میں بھی اپنے جگر کے خون سے حوصلے اور امید کی شمع فروزاں رکھی ۔اپنی عزت نفس انا اور خو د غرضی کا بھرم قا ئم رکھا اور کبھی حرفِ شکا یت لب پر نہ لا ئے وہ ایک مر نجا ں مرنج انسا ن تھے دنیا ں میں ان سے پیار کرنے والے کثیر تعدادمیں مو جود ہیں لیکن کسی کے سا تھ عداوت کے با رے میں نہیں سنا گیا۔
د ر کسری پر صدا کرنا اس کے مسلک کے خلا ف تھا اسے یہ با ت اچھی طرح معلوم تھی کہ یہ بو سیدہ کھنڈر کسی کو کچھ عطاء نہیں کر سکتے اس کی مثال ایک ایسی ابد آشنا ء تحریر کی ہے جسے طوفا ن ِ حوادث کبھی مٹا نہیں سکتے ۔وقت کی یہ تحریر لا زوال اور دا ئمی نوعیت کی ہے علیم چو دھری ایک عظیم صحا فی اور دانش ور کے ساتھ ساتھ وہ ایک عظیم انسا ن بھی تھے جس نے انسا نیت کی عظمت کو ہمیشہ ملحو ظ رکھا ۔اسکا جذبہ انسا نیت نو ازی اپنی مثال آپ تھا تا ریخ ہر دور میں اس عظیم انسان کے نام کی تعظیم کرے گی میر ی دعا ہے کہ اللہ پا ک انہیں کر وٹ کروٹ جنت الفردوس نصیب کریں علیم چو دھری کی وفا ت سے صحا فت کو نا قابل تلا فی نقصا ن پہنچا ہے ۔خبریں گروپ آف نیوز میں ان کی خدما ت کو ہمیشہ یا د رکھا جا ئے گا ان کی نا گہا نی وفا ت پر یقینا ہر انکھ اشکبا ر ہو گی ۔بقول شا عر۔ گئے دنوں کا تھکا مسا فر تھکا کچھ ایسا کہ سو گیا ہے خود اپنی آنکھیں تو بند کر لیں ہر آنکھ لیکن بھگو گیا ہے۔
Syed Mubarak Ali Shamsi
تحریر:سید مبا رک علی شمسی ۔ ای میل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔mubarakshamsi@gmail.com