میں حیات اللہ کی موت کے اثر سے آج تک نہیں نکل سکا اس کا جاودانی کردار صحافت کی تاریخ کے صفحات پر ہمیشہ کیلئے ثبت ہو کر رہ گیا ہے وہ اپنے فرائض کی صلیب پر مصلوب ہوا ماہ مئی آتا ہے اور عالمی یوم صحافت کا روز آتا ہے تو حیات اللہ کا تصور ذہن میں اُبھرتا ہے امریکہ والوں نے جب افغانستان کی سرحد سے بے گناہ قبائلیوں پر میزائل داغنا شروع کئے تو سانحہ باجوڑ جس میں 80 معصوم طلباء شہید ہوئے کی طرح کئی قبائلی ان میزائلوں کی زدمیں آئے۔
مشرف حکومت تردید کر رہی تھی کہ امریکی حملے نہیں ہوئے حیات اللہ نے امریکی میزائلوں کے تصویری ثبوت اکھٹے کر لئے اور قوم کے سامنے مشرف حکومت کے جھوٹ کو ننگا کر دیا یہ قبائیلیوں کی جنگ تھی جو حیات اللہ نے صفحہ قرطاس پرلڑی پھر ایک روز مشرف کے کارندوں نے حیات اللہ کو اٹھا لیا۔
خمیدہ کمر بوڑھے باپ نے انصاف کیلئے ہر عدالت کا در کھٹکھٹایا مگر اسے مشرف کے بنائے ہوئے انصاف کے ایوانوں کے سارے دربند ملے کئی ماہ گزر گئے حیات اللہ کا سراغ نہ ملا پھر 2005ء کا ماہ دسمبر تھا جب ایک روز حیات اللہ کی لاش ملی وہ منظر بڑا کربناک تھا حیات اللہ شہید کی لاش پاک افغان سرحد پر اوندھے منہ اِس حالت میں پڑی تھی کہ اس کے ہاتھوں کو پشت پر باندھ دیا گیا تھا اورسرکی پچھلی طرف تشددکے نشانات تھے۔
وطن عزیز کے باسیوں کی بانہیں اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھا اٹھا کر شل ہوچکی ہیں اوریہ حوصلہ بھی پاکستانی قوم کا ہے کہ نائن الیون کے بعد اس پر قیامتوں کے باب رقم ہوئے اُنہیں دنوں پریس کلب پشاور پر حملہ ہوا تو مجھے ایک بارپھر حیات اللہ شہید اوراس کا صحافتی کردار یاد آیا ذرائع ابلاغ کے اس مجاہد نے کل اپنے قبائلی بھائیوں پرایک غیرملکی طاقت کی طرف سے ہونے والے میزائل حملوں کو عیاں کیا تھا اورآج بھی وطن عزیز کے صحافی قبائلیوں کے حق میں بول رہے ہیں، لکھ رہے ہیں کل مشرف دورمیں وہ میزائل حملوں کے خلاف آواز اٹھارہے تھے آج وہ ڈرون حملوں کے خلاف اپنی تحریروں اورتقریروں میں سراپا احتجاج ہیں۔
میں اس سوال کے گرداب سے نہ نکل سکا کہ جب صحافی قبائلیوں کی آواز بن کر ہر ایوان پر گونج رہے ہیں تو پھر پریس کلب پشاورپر ایک پٹھان نوجوان نے خودکش حملہ کیوں کیا؟ کتنی دیر گزرگئی میرے اندر سے آواز آئی کہ یہ ملک دشمن ایجنسیوں را، موساد، بلیک واٹر کے منشور پر گامزن وہ ملک دشمن عناصر ہیں جنہوں نے معصوم بچوں کی ایک طویل عرصہ برین واشنگ کی ان کے ذہن میں حب الوطنی کے خلاف وطن دشمنی کا بارود بھرا گیا۔
Suicide Attack
مگر تاریخ کے اوراق میں محمد ریاض نامی وہ پولیس اہلکار جو پریس کلب کے گیٹ پر بطور محافظ اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہا تھااپنا نام ہمیشہ کیلئے لکھوا گیا جس نے اپنی زندگی دیکر میرے قبیلہ کو زندگی دی وہ زندہ ہے کہ شہید مرانہیں کرتے۔۔۔
ایک آزادنظم قلم قبیلہ کے نام! ہم لکھنے والے وہ کہانی ہیں جوخزاں میں لکھی جاتی ہے اوربہار میں سنائی جاتی ہے اوروہ گیت ہیں جو اندھیرے میں گایاجاتا ہے اورروشنی میں دہرایاجاتا ہے ہم ایسی دیوار ہیں جو کسی راستے میں نہیں آتی اورایک ایسا دروازہ جو ہمیشہ دریاکی طرف کھلتا ہے اورایک ایسی کھڑکی جو کبھی بازارکی طرف نہیں کھلتی ہم ایسا درخت ہیں جسے آپ کاٹ تو سکتے ہیں مگر لگا نہیں سکتے ہم اس درخت کے کاٹے جانے کا افسوس ہم اس درخت میں پھوٹنے والی کونپلوں کی خوشی ہم اس درخت کا سایہ اورہم اس کی لکڑی سے بنی ہوئی ایک ایسی کشتی ہیں جس میں بھیڑئیے سفرنہیں کر سکتے