بہار میں اردو: جڑیں سوکھ رہی ہیں

Bihar

Bihar

بہار میں اردو کی صورت حال مایوس کن نہیں لیکن اچھی بھی نہیں ہے۔ اردو میں کتابوں اور رسائل و جرائد کی اشاعت میں بے تحاشہ اضافہ، اردو اخبارات خاص طور پر روزنامے کی بڑھتی ہوئی تعداد اور مختلف یونیورسیٹیوں اور ادبی اداروں کے زیر اہتمام تقریباً روزانہ منعقد ہونے والے سیمینار اور مشاعرے سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ریاست میں اردو رواں دواں ہے، پھل پھول رہی ہے اور تیزی سے ترقی کر رہی ہے لیکن حقیقت ِ حال اس کے برعکس ہے۔

اردو اخبارات و رسائل اور کتابوں کی اشاعت میں روز افزوں اضافہ ، بڑے بڑے اور مہنگے سیمینار اور مشاعرے اور بڑی بڑی کانفرنسوں کا انعقاد محض پتیوں پر چھڑکائو ہے۔ اردو کی جڑوں کی ا?بیاری نہیں ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ سے اردو سمٹتی جا رہی ہے اور اس کی جڑیں سوکھ رہی ہیں۔ اس کا اندازہ اردو اخبارات سے وابستہ کارکن صحافیوں کو زیادہ ہے کیونکہ اردو والوں سے ان کا براہ راست واسطہ اور تعلق ہے۔ وہ روزانہ ہی اردو کے دوست نما دشمنوں کو جھیلتے رہتے ہیں۔ اگر کارکن صحافی اردو اخبارات کے دفاتر میں روزانہ موصول ہونے والے مضامین ، پریس ریلیز، بیانات، مراسلوں، نامہ نگاروں اور نمائندوں کی ارسال کردہ خبروں اور رپورٹ کو من و عن چھاپ دیں اور اس کی نوک و پلک درست نہ کریں تو اردو رسوا ہو جائے۔ یہ تو اردو صحافیوں کا احسان ہے کہ انہوں نے اردو کے نام نہاد بہی خواہوں اور اردو کو رسوا ہونے سے بچا لیا ہے۔ا?ج کے اردو صحافی سنگ تراش کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ جس طرح ایک سنگ تراش پتھر کو کاٹ چھانٹ کر خوب صور ت شکل دے دیتا ہے اسی طرح اردو صحافی بھی اپنی فن کارانہ صلاحیتوں سے خام مال کو حسن بخش رہے ہیں۔

اردو اخبارات کی میز پر بیٹھے کارکن صحافیوں کی بے بسی کا اندازہ عام لوگ نہیں کر سکتے۔ ہاں، اردو کو رسوا ہونے سے کسی حد تک مدارس اسلامیہ اور ان کے اساتذہ نے بچا لیا ہے۔ بہار میں اردو کی زبوں حالی کے لیے حکومت اور اردو والے یکساں طور پر ذمہ دار ہیں۔ بہار میں تقریبا تیس (30) برسوں کی لگاتار جدو جہد کے بعد 17 اپریل 1981کو حکومت نے سات مخصوص مقاصد کے لئے پہلے مرحلہ میں ریاست کے 15اضلاع پورنیہ، کٹیہار، دربھنگہ، سیتامڑھی ،بھاگلپور، مدھوبنی ، بیگوسرائے، مظفرپور، سہرسہ، مشرقی چمپارن، نوادہ ، دھنباد، مغربی چمپارن، گیا اور سیتامڑھی میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دینے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا۔ اس کے بعد پھر 29جون 1989کو 11اضلاع اور 16اگست1989کو 13اضلاع میں نوٹیفیکیشن جاری کر کے اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا۔

اس طرح متحدہ بہار کے 39اضلاع میں اردو کو سرکاری مراعات حاصل ہو گئیں۔ لیکن اس میں بہت ہی سفاکی کے ساتھ نوکر شاہوں نے اردو والوں کی ا?نکھوں میں دھول جھونک دی۔ اردو والوں نے جن سات مخصوص مقاصد کے لئے بہار میں اردو کو دوسری سرکاری زبان بنائے جانے اور اسے سرکاری مراعات دینے کا مطالبہ کیا تھا ان میں پرائمری سے یونیورسٹی سطح تک اردو کی تعلیم کو یقینی اور لازمی بنانے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ لیکن جب محکمہ راج بھاشا سے پہلے مرحلے میں 15اضلاع میں اردو کو دوسری سرکاری زبان بنائے جانے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا گیا تو اس میں اردو تعلیم کو با لکل نظر انداز کر دیا گیا۔ جب کہ محبان اردو کا حکومت سے یہ بنیادی مطالبہ تھا۔ نوٹیفیکیشن میں کہا گیا کہ راج بھاشا ہندی کے علاوہ اردو کا استعمال دوسری راج بھاشاکے طور پر درج ذیل سرکاری کاموں کے لئے کیا جائے گا:

1. اردو میں عرضیوں اور درخواستوں کی وصولی اور اس کا جواب
2. اردو میں تحریر شدہ دستاویزات کا رجسٹری ا?فس کے ذریعہ قبول کیا جانا
3. اہم سرکاری قوانین ، ضابطوں اور نوٹیفیکیشن کی بھی اردو میں اشاعت
4. عوامی اہمیت کے حامل سرکاری احکامات اور سرکلر کا اردو میں جاری کیا جانا۔
5. اہم سرکاری اشتہارات کی اردو میں بھی اشاعت۔
6. ضلع گزٹ کی اردو میں بھی اشاعت۔
7. اہم سائن بورڈوں کو بھی اردو میں ا?ویزاں کرنا۔

مذکورہ بالا نکات کے جائزہ سے یہ بات بہ خوبی معلوم ہو جاتی ہے کہ اس میں اردو تعلیم کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ جب سرکاری سطح پر اردو تعلیم کو یقینی بنائے جانے کی بات نہیں کی جائے گی تو پھر اردو کی ترقی کیسے ممکن ہے؟ اس سے اردو کے سلسلہ میں حکومت کی ذہنیت کا بہ خوبی اندازہ لگا یا جا سکتا ہے۔ مذکورہ نکات میں ایک اور خامی بھی تھی۔ نکات نمبر 3،5اور 7میں ”اہم” لفظ کا استعمال کیا گیا تھا۔ اس لفظ کے استعمال سے اندیشہ یہ تھا کہ متعصب سرکاری عملہ یہ کہہ کر ان نکات پر عمل نہیں کرے گا کہ وہ انہیں اہم نہیں سمجھتا۔ اس اندیشے کے پیش نظر تقریباً 12برسوں کے بعد 20مارچ1993کو محکمہ راج بھاشا کی طرف سے نوٹیفیکیشن جاری کر کے اس خامی کی اصلاح کی گئی اور لفظ ”اہم” کو نکات سے حذف کر دیا گیا۔ لیکن اردو تعلیم کو یقینی بنانے کا معاملہ ا?ج بھی نکات میں شامل نہیں ہو سکا۔ نتیجہ یہ ہے کہ پرائمری سے لے کر یونیورسٹی سطح تک اردو تعلیم کا برا حال ہے۔ 30جولائی 2009کو بہار قانون ساز کونسل میں اردو کے عملی نفاذ کے تعلق سے رکن قانون ساز کونسل ڈاکٹر تنویر حسن نے حکومت کی توجہ مبذول کرائی تھی۔ اس کے بعد کونسل کے چیرمین نے ان کی سربراہی میں ہی ایوان کی راج بھاشا کمیٹی کو بہار میں اردو کی صورت حال کے بارے میں ایک جامع رپورٹ پیش کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ اس کمیٹی نے 7دسمبر 2010کو اپنی رپورٹ ایوان میں پیش کی۔ اس رپورٹ میں ڈاکٹر تنویر حسن نے واضح طور پر تحریر کیا کہ” دوسری سرکاری زبان کی حیثیت سے اردو کو جو حقوق ملنے چاہئے تھے وہ اب تک نہیں مل سکے ہیں۔”رپورٹ میں کہا گیا کہ ”کمیٹی اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ بہار میں قوانین ِ اردو کے نفاذ کی راہ میں سب سے اہم رکاوٹ ریاست کی بیوروکریسی کی شعوری چشم پوشی اور کہیں کہیں کھلے عام ان کے ذریعہ کی گئی رخنہ اندازی ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ”اس بات سے انکا ر نہیں کیا جاسکتا کہ حکومت نے اردو کے لئے کئی قابل قدر اقدام کئے لیکن اگر افسر شاہی کے ذریعہ اردو کے ارتقا ئ میں پیدا کئے گئے تعطل کے ازالے کی پوری ایمانداری سے کوشش کی گئی ہوتی تو ا?ج ریاست میں اردو ترقیات کے کئی مراحل طے کر چکی ہوتی اور افسر شاہوں کو بھی شاید اردو زبان کے تئیں منفی رجحانات اختیار کرنے کی جرائ ت نہیں ہوتی۔ کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق محکمہ راج بھاشا کے اردو مترجم کے 314منظور شدہ عہدوں میں60،نائب مترجم کے449منظور شدہ عہدوں میں 81اور اردو ٹائپسٹ کے 471منظور شدہ عہدوں میں 134یعنی مجموعی طور پر 275عہدے خالی پڑے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ بہار میں نئے تشکیل شدہ اضلاع اور بلاکوں میں اردو ملازمین کے نئے عہدے ا?ج تک تشکیل نہیں دئے گئے۔ اسی طرح محکمہ راج بھاشا کہ اردو ڈائرکٹوریٹ نے مولانا مظہر الحق، حضرت شیخ شرف الدین احمد یحیٰ منیری اور عبدالقیوم انصاری کے نام سے تین بڑے ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ ڈائرکٹوریت نے 2007ـ08اور 2008ـ09میں یہ تینوں ایوارڈ اردو کے دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں کو دئیے۔ اس کے بعد سے یہ سلسلہ ا?ج تک موقوف ہے۔ اردو ڈائرکٹوریٹ اردو کے ادیبوں اور شاعروں کے مسودات کی اشاعت کے لیے بھی مالی امداد دیتا رہا ہے لیکن گزشتہ تقریباً دو برسو ں سے کسی مسودے پر مالی امداد نہیں دی گئی۔ محکمہ کا ترجمان بھاشا سنگم کے ایڈیٹر کے مستقل عہدے کی بھی تشکیل نہیں کی گئی ہے جبکہ اسی محکمہ کے تحت ہندی میں شائع ہونے والے رسالے کے ایڈیٹر کا عہدہ منظور شدہ ہے۔ یہ امتیاز اردو کے ساتھ محکمہ کے تعصب کو ظاہر کرتا ہے۔ اردو ڈائرکٹوریت کے تحت ایک اردو مشاورتی کمیٹی بھی ہے۔ اس کے چیئرمین اس وقت بزرگ شاعر پدم شری ڈاکٹر کلیم عاجز ہیں لیکن اس کمیٹی کو کوئی ا?ئینی اختیارات نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ بہت ہی بے اثر کمیٹی ہے۔ اردو کے معاملہ میں یہی حال بہار کی یونیورسٹیوں کا بھی ہے۔ ڈاکٹر تنویر حسن نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ریاست میں 10 میں سے 7 یونیورسٹیوں کے جو اعداد و شمار موصول ہوئے ہیں اس کے مطابق اردو کے 303عہدے منظور شدہ ہیں جن میں سے صرف 109عہدوں پر اساتذہ مامور ہیں۔ یعنی تقریباً ایک تہائی اساتذہ کی اسامیاں خالی پڑی ہیں۔

Urdu

Urdu

بہار کی یونیورسٹیوں میں ا? خری مرتبہ اردو اساتذہ کا تقرر 2003 میں ہوا تھا۔ اس دوران اور بھی کئی اساتذہ سبکدوش ہوئے ہوں گے۔ اس طرح ریاست کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اردو کی خالی اسامیوں کی تعداد اس سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر تنویر حسن کہتے ہیں کہ اگر اساتذہ کے خالی عہدوں کی تعداد 109 بھی مان لی جائے تب بھی یہ حقیقت تو سامنے ا? ہی جاتی ہے کہ ان عہدوں کے خالی ہونے کا سلسلہ دہائیوں قبل شروع ہوا ہو گا۔ ڈاکٹر تنویر حسن کہتے ہیں کہ ایمانداری کا تقاضا تو یہ تھا کہ برسوں سے خالی پڑے اردو اساتذہ کے عہدے 2003 میں ہونے والی تقرری کے دوران ہی بھر لیے جاتے لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔

اس پس منظر میں سرکاری سطح پر اردو کی صورت حال انتہائی افسوس ناک اور مایوس کن ہے۔ دوسری طرف اردو والوں کا بھی حال اس سے بد تر ہے۔ بہار اردو اکادمی اور انجمن ترقی اردو یہ دو ایسے بڑے ادارے ہیں جنھیں حکومت کی طرف سے گرانٹ ملتے ہیں۔ ان دونوں اداروں میں سرکاری رقم کی بند ر بانٹ کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ بہار اردو اکادمی کا حال یہ ہے کہ اس کی 37 سالہ تاریخ میں حکومت کی طرف سے پہلی مرتبہ 2008ـ09 میں ایک مشت ایک کروڑ روپئے گرانٹ کے طور پر ملے لیکن اکادمی یہ رقم خرچ نہیں کر سکی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اسے دی جانے والی گرانٹ کی رقم بتدریج کم ہوتی چلی گئی۔اس کے ساتھ ہی اردو اکادمی میں پیشہ وارانہ کورس شروع کر کے اردو کی سرگرمیوں میں مبینہ طور پر رکاوٹ پیدا کی گئی۔ ابھی حالت یہ ہے کہ اردو اکادمی صرف ایک سرکاری افسرکے ماتحت چل رہی ہے۔ اکادمی کے صدر بہ جہت عہدہ وزیر اعلی ہوتے ہیں۔انہیں سرکاری کام سے ہی فرصت کہاں کہ وہ اردو کے اس معمولی ادارے کی طرف توجہ دیں۔اردو اکادمی میں سکریٹری کے علاوہ دو نائب صدور اور مجلس عاملہ کے اراکین ہوتے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ دونوں نائب صدور، سکریٹری اور مجلس عاملہ کے اراکین کی مدت ختم ہوئے تقریبا تین سال ہو چکے لیکن ابھی تک اس کی تشکیل نو نہیں کی گئی ہے۔ جس کا براہ راست اثر اکادمی کے کام کاج پر پڑ رہا ہے۔

انجمن ترقی اردو بہار کو پہلے حکومت چار لاکھ روپئے گرانٹ دیا کرتی تھی لیکن اب گزشتہ دو سال سے اسے تقریبا ا?ٹھ لاکھ روپئے گرانٹ کے طور پر مل رہے ہیں لیکن یہ انجمن صرف سکریٹری کا ذاتی ادارہ بن کر رہ گئی ہے۔ بہار میں اردو کے عملی نفاذ کی راہ میں یہی تمام عوامل رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ گزشتہ کچھ دہائیوں کے دوران اردو تحریک کے منظر نامے پر جب ہم غور کرتے ہیں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ ریاست میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ ملنے کے بعد اردو سے تعلق رکھنے والے لوگ مطمئن ہو گئے اور الحاج غلام سرور کی قیادت میں جس طرح بہار میں تحریک مضبوط ہوئی تھی اور عروج پر پہنچی تھی اس کا گراف اچانک نیچے ا? گیااور اردو تحریک کا کارواں سست پڑ گیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ خود اردو والوں کی دلچسپی اپنی زبان سے ختم ہو گئی۔ اردو اخبارات پڑھنااور اسے ڈرائنگ روم میں رکھنا اردو والے کسر شان سمجھتے ہیں۔ بچوں کو اردو پڑھانے کی طرف بھی ہمارا رجحان کم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ سرکاری سطح پر مسلسل اردو کے ساتھ ناانصافیاں ہو رہی ہیں لیکن ان ناانصافیوں کے خلاف کوئی ا?واز بلند کرنے والا بھی نہیں ہے۔ بہار میں اردو تحریک دم توڑ چکی ہے۔ جسے زندہ کرنے کی پھر سے کوشش کی جارہی ہے۔ ادھر چند برسوں کے دوران ایک خوش ا?ئند بات یہ ہوئی ہے کہ اردو کے کچھ دیوانے میدان عمل میں ا?ئے ہیں اور محمد کمال الظفر کی قیادت میں ”تحریک اردو” کے نام سے ایک تنظیم کی داغ بیل ڈالی گئی ہے۔ یہ تنظیم جس نہج پر کام کر رہی ہے اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بہار میں اردو کا قافلہ ایک مرتبہ پھر رواں دواں ہوگا اور سرکاری سطح پر اردو کے ساتھ جو نا انصافیاں ہو رہی ہیں اس کے ازالے کی کوئی ٹھوس شکل نکلے گی اور بہار میں ایک مرتبہ پھر اردو تحریک مضبوط ہو گی۔اس پس منظر میں ایک خوش ا?ئند بات یہ ہے کہ اردو کے فروغ کی کوششیں ان لوگوں کی طرف سے کی جارہی ہیں جن کا نام اردو کے بہی خواہوں اور جاں نثاروں کی فہرست میں کہیں بھی نہیں ہے۔ان میں راشٹریہ سہارا گروپ کا نام سر فہرست ہے۔ اس کے علاوہ بھی اردو کے سلسلہ میں اسی طرح کا گروپ سرگرم ہے اور اخبارات اور نیوز چینلوں کے حوالے سے اردو کی خدمت میں شب و روز لگا ہوا ہے۔

Urdu Language

Urdu Language

اس موقع پر بہار کے ایک بزرگ اور کہنہ مشق صحافی شاہد رام نگری کی وہ باتیں یاد ا?تی ہیں جو انہوں نے 1989 میں خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری میں اردو دانشوری پر پٹنہ میں منعقد کئے گئے ایک سیمینار میں کہی تھیں۔ ان سے سوال کیا گیا تھا کہ کیا اردو اس صدی کے بات بھی زندہ رہے گی؟اس سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ّمیں اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر اس سوال کا جواب یہ دے رہاہوں کہ اردو زبان مرے گی نہیں۔ اس صدی کے بات بھی زندہ رہے گی لیکن اس میں کوئی حصہ شاید ان لوگوں کا نہیں ہو گا جو اردو کے جاں نثاروں میں شمار کیے جاتے ہیں، اردو نے جن کو قیادت و سیادت کی عزت سے سرفراز کیا ہے یا اردو جن کو روزی روٹی فراہم کر رہی ہے۔ واقع یہ ہے کہ اردو اپنی زندگی کے سامان خود فراہم کر رہی ہے ان لوگوں کے ذریعہ جن کا نام اردو کے جاں نثاروں میں کہیں بھی موجود نہیں ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اردو دیوناگری رسم الخط میں زندہ رہے گی اور یہ خدمت اردو کے پرستار انجام دیں گے۔

تحریر : ڈاکٹر ریحان غنی، پٹنہ
Dr. Raihan Ghani
C/o Hakim Alimuddin Balkhi
Post Gulzar Bagh
Main Road Alam Gunj
Patna
Moblie : 9308610691