فرسودہ نظام کا خاتمہ

Pakistan

Pakistan

پاکستان میں اس وقت سیاسی جماعتیں جس بری طرح سے بے توقیر ہوئی ہیں ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ پورے ملک میں پاکستانی فوج کے حق میں جو مظاہرے ہو رہیں اس کی ایک وجہ تو فوج سے اظہارِ یکجہتی ہے لیکن اس کی اصل وجہ موجودہ حکمرانوں کے اندازِ حکمرانی سے نفرت ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دورِحکو مت میں ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب فوجیوں کا فوجی وردی پہن کر عوام میں جانا باعثِ نفرت سمجھا جاتا تھالیکن اب حا لت یہ ہے کہ پوری قوم فوجی وردی کے احترام میں سڑکوں پر نکل کر فوج کی ہمنوا بنی ہوئی ہے۔پاکستان کا کوئی شہر اور قصبہ ایسا نہیں جہاں پر فوج کے حق میں جلسے جلوس نہ نکل رہے ہوں۔

ایک طوفانی لہر ہے جس نے پورے پاکستان کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔حکمران حلقے دہائی دے رہے ہیں ،غم و غصہ سے بھرے پڑے ہیں اور انگاروں پر لوٹ رہے ہیں لیکن عوام ہیں کہ سڑکوں سے واپس جانے کیلئے تیار نہیں ہیں۔فوج کے حق میں ان مظاہروں کی وجہ یہ نہیں کہ فوج نے کوئی نیا علاقہ فتح کر لیا ہے،یا اپنے ازلی دشمن بھارت کو ناکے چنے چبوا دئے ہیں یا کوئی ایسا انہونا معرکہ سر انجام دے دیا ہے جس سے فوج کے حق میں محبتوں کے زمزمے بہنے شروع ہو گئے ہیں بلکہ ا سکی وجہ یہ ہے کہ لوگ موجودہ فالج زدہ جمہوری نظام سے تنگ آچکے ہیں۔ عوام کا سڑکوں پر یوں دندنانا پاکستان کی موروثی جمہوریت سے بیزاری کا کھلا اظہار ہے ۔وہ جمہوریت کے دشمن نہیں ہیں کیونکہ پاکستان کی تخلیق از خود جمہوری جدو جہد کا شاندار مظاہرہ ہے لیکن پاکستان کی مو جودہ موروثی جمہوریت سے ان کا پیٹ بھر گیا ہے کیونکہ اس جمہوریت میں مخصوص خاندانوں کی جارہ داری قائم ہو گئی ہے۔

جو انھیں کسی بھی صورت میں قبول نہیں ہے۔ان کے پاس کوئی ایسا جمہوری راستہ نہیں بچا جس سے وہ اس فرسودہ نظام کو بدل سکیں کیونکہ بر سرِ اقتدار طبقے بڑی مہارت اور دھاندلی سے ان کے حقِ رائے دہی کو چرا لیتے ہیں۔اس طرح کی ڈ اکہ زنی کے معرکے میں معاونت کرنے والے معزز بھی ٹھہرتے ہیں اور بڑے بڑے عہدوں سے بھی نوازے جاتے ہیں لہذا عوام کو کوئی راستہ نہیں سوجھتا کہ وہ ووٹ کی قوت سے انھیں ہٹا سکیں کیونکہ ان کی ووٹ کی پرچی کے حق کو بڑی عیاری سے چرا لیا جاتا ہے۔حکمران اتنے چالاک اور طاقتور ہو چکے ہیں کہ وہ اس فرسودہ نظام سے بغا وت کرنے والوں کو آئین و قانون کے نام پر کچل کر رکھ دیتے ہیں کیونکہ ان کے پاس ریاست کی بے پناہ طاقت موجود ہوتی ہے۔۔

١١مئی ٢٠١٣ کے انتخا بات میں پورا ملک کا نوجوان طبقہ نئے عزم اور جذبوں کے ساتھ نکلا تھا کہ وہ پرچی کی قوت سے نئے پاکستان کی بنیادیں اٹھائے گا۔گلی گلی میں شور تھا ،اور نوجوانوں کے سینے وفورِ جذ بات سے پھولے ہوئے تھے کہ وہ نئے پاکستان کے خواب کو حقیقت بنا کر چھوڑیں گئے لیکن ان کی امنگوں کا دھاندلی نے جو حشر کیا وہ سب کے سامنے ہے۔یہ تماشہ بھی پہلی بار دیکھا گیاہے کہ نعرے تو عمران خان کے لگ رہے تھے لیکن جیت میاں برادران کا مقدر بنی۔کون کون بکا تھا وہ دھیرے دھیرے واضح ہو تا جا رہا ہے لیکن پھر بھی بہت سے چہرے پردوں کے پیچھے چھپے بیٹھے ہیں جن کے چہروں سے نقاب اٹھا یا جانا ضروری ہے۔

عمران خان کو خیبر پختون خواہ کا لولی پاپ دے کر بہہلا دیا گیا اور یوں دھاندلی عین شفافیت ٹھہری۔پہلے تو ایک منصوبے کے تحت عمران خان کو انتخابات سے دو دن قبل لفٹ سے گرایا گیا اور پھر اس کے بعد اپنے منصوبے کو بڑی تسلی کے ساتھ عملی جامہ پہنا دیا گیا۔تحریکِ انصاف جیت کی جو امید لگائے بیٹھی تھی وہ راستے میں دم توڑ گئی۔جیو نے ان انتخا بات میں جو گھنائونا کردار ادا کیا وہ بھی کسی بیان کا محتاج نہیں ہے۔رات گیارہ بجے میاں برادران کی فتح کا اعلان کر دیا گیا حالانکہ اس طرح کا اعلان تو الیکش کمیشن کو کرنا ہوتا ہے۔

PTI

PTI

یہ اعلان ہونا تھا کہ سار نتائج ہی الٹ دئے گئے اور رات کو جیتنے والے صبح کو ہزار ہا وو ٹوں کے فرق سے ہار گئے۔ پاکستان کے وہ نوجوان جھنوں نے ایک نئے پاکستان کا خواب دیکھا تھا ان کے لئے یہ نتائج کسی شب خون سے کم نہیں تھے لہذا انھوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔جمہوریت کو بڑے ہی منظم انداز میں لوٹ لیا گیا تھا اور کوئی نوجوانوں کی امنگوں کے سرِ عام لٹ جانے کا پرسانِ حال نہیں تھا ۔انھوں نے انتخابی نتائج کے خلاف دھرنوں کا علان کیا لیکن تحریکِ ا نصاف کی قیادت نے کارکنوں کے دھرنوں کو کارکنوں کا ذاتی عمل کہہ کر اس سے خود کو علیحدہ کر لیا جس سے کارکنوں نے ان دھرنوں کو ختم کر دیا۔عمران خان کو جمہوریت کا واسطہ دیاگیا کہ اگر اس نے اس وقت تحریک شرع کی تو یہ کسی شب خون کا پیش خیمہ ثا بت ہو سکتی ہے لہذا عمران خان نے جمہوریت کو بچانے کی خاطر کسی بھی تحریک کو شروع کرنے سے ہاتھ کھینچ لیا۔جی تو اس کا چاہتا تھا کہ اس کے ساتھ جو ہاتھ کیا گیا ہے۔

اس کے خلاف وہ میدان میں نکل پڑے لیکن ایسا ممکن نہ ہوسکا کیونکہ اسے تو زخمی کر کے پہلے ہی بستر پر لٹایا جا چکا تھا۔میاں برادران تو چاہتے تھے کہ عمران خان کوئی احتجاجی تحریک شروع نہ کریں کیونکہ اس طرح ان کا بنا بنایا کھیل بگڑ جانے کا اندیشہ تھا۔عمران خان میاں برادران کے جھانسے میں آ کر جمہوریت جمہوریت کھیلتے رہے اور ملک کرپشن کی دلدل میں پھنستا چلا گیا۔اب حا لت یہ ہے کہ پوری قوم جمہوریت سے بیزار ہو چکی ہے اور نئی انتخابی اصلاحات اور نظام کا مطالبہ کر رہی ہے کیونکہ موجودہ جمہوریت خاندانی آمریت میں بدل چکی ہے۔

دو بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنی اپنی باریاں طے کر لی ہیںاور دونوں ایک دوسرے کو تحفظ دینے میں جٹی ہوئی ہیں۔انتخابات سے قبل جھنیں سڑکوں پر گھسیٹنے کا اعلان کیا گیا تھا وہ اتنے مقدس ٹھہرے ہیں کہ ان کی طرف میلی آنکھ اٹھاکر دیکھنا بھی جرم بن چکا ہے۔لوگ ملکی خزانے کو لوٹنے والوں کا احتساب چاہتے ہیں ۔ان کی خوا ہش ہے کہ پاکستان کے ساتھ جس کسی نے بھی کھلواڑ کیا ہے اسے سرِ دار کھینچ دیا جائے لیکن حکمران ہیں کہ باہمی سمجھوتوں سے ایک دوسرے کو تحفظ دینے میں مصروف ہیں۔کرپشن کی ساری کہانیاں قصہِ ماضی بنی ہوئی ہیں اور عوام اپنے حکمرانوں کے لچھن دیکھ کر حیران ہو رہے ہیں کہ وعدے تو کئے تھے کہ قومی خزا نہ لوٹنے والوں کو کیفرِ کردار تک پہنچائیں گئے لیکن ا یسے عناصر کی جانب وہ قانون کا ہاتھ بڑھانے کی بجائے محبت کا ہاتھ بڑھا رہے ہیں۔

یہی وجہ کہ عوام فوج کے لئے اتنے بے تاب ہو رہے ہیں اور گلی گلی ان کی عظمتوں کے گن گا رہے ہیں۔ان کے اس طرزِ عمل کے پیچھے ایک ہی جذبہ محرکہ ہے کہ وہ لٹیروں کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا دیکھنا ہے تا کہ ان سے لوٹی ہوئی دولت کا حساب لیا جا سکے۔یہ سیاست دانوں کے بس کی بات نہیں کہ وہ اپنے ہی قبیلے کے لو گوں کا احتساب کریں اور ان سے ان کے مکروہ افعال کا حساب لیں۔پچھلے ٦٧ سا لو ں میں عوام نے کسی بھی سیاست دان کا دوسرے سیاست دان کے ہاتھوں احتساب ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔نعرے البتہ ضرور سنے جاتے ہیں کہ ہم کرپشن کا خا تمہ کر دیں گئے اور لٹیروں سے پائی پائی کا حساب لے کر ملکی خزانے میں جمع کروا دیں گئے ۔لیکن بسا آرزو خا ک شدی کے مصداق یہ وہ وعدہ ہے جو کبھی ایفا نہیں ہوا۔عوام کو طفل تسلیوں سے بہلا یا جاتا رہا ہے لیکن اب عوام کا پیمانہِ صبر لبریز ہو چکا ہے اور وہ وعدوں کا اعتبار کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں کیونکہ انھیں بخوبی علم ہے کہ موجودہ سیاست دانوں کے وعدے جھوٹ کا پلندہ ہیں۔وہ جس کو اپنا دوست اور ہمدرد سمجھتے ہیں وہی دشمن نکلتا ہے

وہ جس پر اعتماد کرتے ہیں وہ بد اعتمادی کا مظاہرہ کرتا ہے،وہ جسے غمگسار سمجھتے ہیں وہ غموں کا پلندہ تھما تے ہیں۔وہ جس پر تکیہ کرتے ہیں وہی پتے ہوا دینے لگتے ہیں۔وہ جس سے امیدیں استوار کرتے ہیں وہی امیدوں کا خون کرتے ہیں اور وہ جس کو راہنما سمجھ کر ان کا دامن تھامتے ہیں وہی راہزن بن کر سامنے آتا ہے۔سیاستدانوں کی قلا بازیوں سے ہر شخص پریشان ہے اور سیاست دان اپنی باریاں لینے کے چکر میں ہیں ۔حد تو یہ ہے کہ وہ اپنی باری لے کر نکل جاتے ہیں اور پھر پلٹ کر بھی نہیں دیکھتے کہ انھوں نے کس کس بات کا وعدہ کیا تھا۔عوام نے وعدوں کویوں ٹو ٹتے دیکھاہے جیسے مٹی کے کھلونے۔،۔،۔،۔

Tariq Butt

Tariq Butt

تحریر: طارق حسین بٹ