بھارت میں دنیا کے مہنگے اور طویل ترین عام انتخابات نویں مکمل ہوگئے۔ بھارت میں انتخابات کے ابتدائی نتائج کے مطابق بی جے پی کی زیر قیادت بننے والے اتحاد نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس کو کانگریس اور دوسری جماعتوں پر واضح برتری حاصل ہے۔بی جے پی 251 نشستوں کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ اتحادی جماعتوں کی نشستیں ملا کر یہ تعداد 291 تک جا پہنچی ہے ، دوسری جانب کانگریس اب تک صرف 62 نشستیں حاصل کر سکی ہے۔لوک سبھا کی 543 نشستوں کے لئے نو مراحل میں ہونے والے انتخابات کے ووٹوں کی گنتی کا عمل جاری ہے۔ ابتدائی نتائج میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی زیر قیادت بنے والے اتحاد نیشنل ڈیمو کریٹک الائنس کو کانگریس اور اس کی اتحادی جماعتوں پر واضح برتری حاصل ہے۔
ریاست گجرات میں بی جے پی نے کانگریس کا مکمل صفایا کر دیا اور تمام چھبیس نشستیں اپنے نام کر لی ہیں۔امیٹھی کے حلقے سے کانگریس کے رہنما راہول گاندھی کے مقابلے میں بی جے پی کی سمرتی ایرانی کو معمولی برتری حاصل ہے۔کسی بھی جماعت کو حکومت قائم کرنے کے لئے 543 میں سے 272 نشستوں کی ضرورت ہے ادھر عام آدمی پارٹی انتخابات میں بری طرح ناکام نظر آ رہی ہے۔عام آدمی پارٹی اب تک صرف 5 نشستیں حاصل کر سکی ہے۔ ابتدائی نتائج میں بی جے پی کی واضح کامیابی کے آثار نظر آنے کے بعد بھارت بھر میں جماعت کے کارکنوں نے جشن منانا شروع کر دیا ہے۔
ابھی تک کے نتائج کے مطابق بی جے پی نے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا مینڈیٹ حاصل کر لیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق انتخابات میں 66.38 فیصد لوگوں نے حق رائے دہی استعمال کیا۔تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ اس سے قبل ہونے والے انتخابات میں بھی حتمی نتائج رائے عامہ کے ابتدائی جائزوں کے برعکس ہوتے رہے ہیں۔تقریبا ایک دہائی تک اقتدار میں رہنے والی جماعت کانگریس کو حالیہ برسوں میں اعلی ترین سطح پر بدعنوانی کے اسکینڈلز، افراط زر میں بے پناہ اضافے اور سست اقتصادی ترقی جیسے مسائل کا سامنا رہا۔اسی تناظر میں توقع کی جارہی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی۔
بی جے پی وزات عظمی کے لیے نریندر مودی کو اپنا امیدوار نامزد کر چکی ہے۔تقریبا چھ ہفتوں تک جاری رہنے والے عام انتخابات نو مرحلوں میں مکمل ہوئے جس میں ایوان زیریں ”لوک سبھا” کی 543 نشستوں کے لیے اہل ووٹرز کی تعداد 81 کروڑ 40 تھی اور بھارت کے الیکشن کمیشن کے مطابق 66 فیصد سے زائد ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جو کہ ماضی کی نسبت ایک ریکارڈ ہے۔حکومت بنانے کے لیے کسی بھی جماعت کو ایوان میں کم از کم 272 نشستیں درکار ہوں گی۔ اس طویل ترین انتخابی مرحلے میں542سیٹوں کیلئے کروڈوں ووٹروں نے امیدواروں کی سیاسی تقدیر کا فیصلہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں بند کیا۔ سوموار کو ہوئی آخری مرحلے کی ووٹنگ میں جن اہم امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ ووٹروں نے سنایا۔
ان میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزیر اعظم کے امیدوار نریندر مودی، سماج وادی پارٹی کے سربراہ ملائم سنگھ یادو اور عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجری وال شامل ہیں۔بی جے پی کے حکومت اور نریندر مودی سابق قصاب کا بھارتی وزیر اعظم بننا بھارتی مسلمانوں کے لئے انتہائی پریشان کن ہے ۔نریندر مودی کے دور میں ہی گجرات کے فسادات ہوئے تھے جہاں مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا تھا۔اب جب الیکشن مکمل ہو چکے ہیں تو ہندو انتہا پسند وں نے نتایج سے قبل ہے مسلمانوں پر مظالم کا سلسلہ شروع کر دیاہے۔بھارتی شہر حیدرآباد میں پرچم جلائے جانے کی افواہ پر مسلمانوں کے گھروں پر زبردست حملے کئے گئے ہیں۔ اس دوران بی ایس ایف اور آندھراپردیش اسپیشل فورس کی دو کمپنیوں کو حالات کنٹرول کرنے کیلئے طلب کیا گیا تھا۔
مگربی ایس ایف اہلکار نے تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہتے مسلمانوں پر فائرنگ کر دی جس سے تین مسلمان جاں بحق ہو گئے جبکہ جھڑپوں میں بیس کے قریب افراد زخمی ہوئے ہیں۔حیدرآباد کے فساد متاثرہ کشن باغ علاقہ میں غیر معینہ مدت کیلئے کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔ آل انڈیامسلم مجلس اتحادالمسلمین نے بی ایس ایف کے مجرم اہلکار کی فی الفور گرفتاری اور اسے سخت سزا دینے کامطالبہ کیا ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق فسادات سکھوں کا مذہبی پرچم جلائے جانے کی افواہ پر پھیلے۔جب یہ افواہ عام ہوئی تو دونوں طرف کے لوگوں نے بات چیت سے معاملہ حل کر لیا تھا تاہم بعد ازاں تلواروں سے مسلح سکھوں کی بڑی تعدادعلاقہ میں جمع ہونا شروع ہو گئی اور پھر سکھ چھائونی میں مسلمانوں کے گھروں پر حملے شروع کر دیے گئے اور ان کے گھروں اور گاڑیوں کو آگ لگانے کے سلسلہ کا آغاز کر دیا گیا۔
Muslims
حملے کی خبر ملتے ہی مسلمانوں اور سکھوں کے درمیان زبردست پتھرائو ہوا۔ تشدد کے دوران تین آٹو رکشے، مسلمانوں کے سات گھر، چھ موٹر بائیکس اور ایک کریانے کی دوکان کو مکمل طو رپر نذرآتش کر دیا گیا ہے۔کئی گاڑیوں کے شیشے بھی توڑے گئے ہیں۔پولیس کی طرف سے لاٹھی چارج کیاگیا اور آنسو گیس کے گولے پھینکے گئے۔ فسادات کے بعد ریپڈ ایکشن فورس اور بی ایس ایف کے اہلکار جن کو انتخابی سکیورٹی کیلئے تعینات کیا گیا تھا ‘ انہیں فوری طور پر بلایا گیا۔ مقامی لوگوں نے الزام عائد کیا کہ جو تین مسلمان شہید ہوئے ہیں وہ بی ایس ایف اہلکار کی فائرنگ سے ہوئے ہیں۔جاںبحق افراد کے نام شجاع الدین خطیب، محمد عمر اور نذیر ولی بتائے جاتے ہیں۔
چالیس ہزار ووٹروں والا کشن باغ علاقہ مسلم اکثریتی علاقہ ہے تاہم یہاں کے مسلمان اقتصادی طور پر کمزور ہیں جبکہ ان کے مقابلہ میںسکھ طبقہ مضبوط ہے اور سکھ چھائونی میں انکی اچھی خاصی گنجان آبادی موجود ہے۔آل انڈیا مسلم مجلس اتحاد المسلمین کے قائد اسد الدین اویسی اور مجلس بچائو تحریک کے ترجمان مسجد اللہ خاں فرحت نے اس واقعہ کی شدید مذمت کی ہے اور فائرنگ کرنے والے بی ایس ایف اہلکار کی گرفتار ی کامطالبہ کیا ہے۔ دوسری طرف بھارتی حکومت نے پاکستانی ہائی کمیشن کی شکایت پر بھارتی ریاست تامل ناڈو کی حکومت سے پانڈی چیری یونیورسٹی میں زیرتعلیم واحد پاکستانی قصور کے رہائشی طالب علم حسن رضا پر انتہا پسند ہندوئوں کے تشدد کی رپورٹ طلب کر لی اور پاکستان نے بھارت سے احتجاج بھی کیا ہے۔
انتہا پسند ہندئووں نے پاکستانی طالب علم کو تشددکا نشانہ بنا کر شدید زخمی کر دیا تھا جس کی وجہ سے اسکی حالت تشویشناک ہے۔ پانڈی چیری یونیورسٹی میں زیر تعلیم 24 سالہ طالب علم علی حسن رضا 3 روز قبل رات کو یونیورسٹی کے ہاسٹل میں اپنے کمرے کا دروازہ کھول کرسو رہے تھے کہ رات گئے انتہا پسند ہندو کمرے میں داخل ہوئے اور انہوں نے ان پر لوہے کی سلاخوں سے حملہ کردیا۔ علی رضا کو کمر اور گردن پر شدید چوٹیں آئی ہیں۔ پولیس نے واقعے کی رپورٹ تو درج کرلی تاہم کئی روز گزرنے کے باوجود ابھی کوئی کارروائی نہیں کی۔ علی حسن رضا نے پولیس کو بیان دیا ہے کہ مارنے والے نشے میں دھت تھے۔
دوسری جانب علی رضا وطن سے دور دشمنوں کی سرزمین پر بننے والی درگت پر اس قدر خوفزدہ تھے کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم کو کھل کر نہ بتا سکے۔ والدہ سے بات کرتے ہوئے بھی وہ بڑے ضبط سے کام لیتے رہے۔ پاکستانی طالبعلم کا تعلق ضلع قصور کی تحصیل پتوکی کے علاقے النور سٹی سے ہے۔ اسے سارک ممالک کے درمیان علاقائی تعاون اور امن کو فروغ دینے کے پروگرام کے تحت یونیسکو سارک کی جانب سے داخلہ دلوایا گیا۔ پانڈیچری یونیورسٹی میں علی حسن رضا کیساتھ دیگر 15500 جبکہ افغانستان’ بنگلہ دیش اور سری لنکا سے تعلق رکھنے والے 18 طلبا زیر تعلیم ہیں۔ علی حسن بھارت میں اعلی تعلیم حاصل کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔ علی حسن یونیسکو مدن جیت سنگھ انسٹیٹیوٹ فار سائوتھ ایشیا ریجنل کو آپریشن میں زیر تعلیم ہے۔
جس کا افتتاح بھارت کے سبکدوش ہونے والے وزیراعظم من موہن سنگھ نے اڑھائی سال قبل کیا تھا۔ ترجمان دفتر خارجہ تسنیم اسلم نے کہا کہ بھارت میں پاکستانی طلباء کی سکیورٹی خطرے میں ہے۔ بھارتی ہائی کمشن سے کہا ہے واقعہ کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔ امید ہے طالب علم پر تشدد کرنے والوں کیخلاف کارروائی کرے گا۔ طالب علم پر تشدد پر بھارت سے احتجاج بھی کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت زائرین کو ویزے نہیں دیتا اور اگر کوئی علم کیلئے چلا جاتا ہے تو ایسے واقعات ہو جاتے ہیں۔ یہ سنجیدہ معاملہ ہے بھارت کو اپنے رویئے پر غور کرنا ہو گا۔ بھارت میں پاکستانی ہائی کمشن نے کہا ہے کہ پاکستانی طالب علم علی حق سے رابطے میں ہیں۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ساتھ معاملہ اٹھایا، وطن واپسی کیلئے سہولتیں دیں گے۔
علی حسن پر حملے کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ طالب علم کا ویزہ 30جون تک ہے۔بھارت میں الیکشن کے دوران بھی مسلمانوں پر آسام ودیگر ریاستوں پر ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے مظالم کئے گئے اگر پاکستان میں کوئی ایسا واقعہ ہو تو فوری پاکستان کو دہشت گرد ملک کہہ کر وطن عزیزکے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے لیکن انڈیا میں جہاںایک طرف الیکشن ہوئے اور الیکشن میں سیاسی پارٹیاں عوام کو حقوق دینے کی بات کرتی ہیں وہیں مسلمانوں کو حقوق دینے کی بجائے شہید کیا گیا انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا عالمی دنیا اپنے دوہرے معیار کو ترک کرے اور بھارت کوبھی دہشت گرد ملک قرار دے جہاں روزانہ کی بنیادوں پر مسلمان ہندو دہشت گردی کا شکار ہیں۔