بھارت کے لوک سبھا کے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے نیشنل ڈیموکریٹک الائنس نے واضح اکثریت حاصل جبکہ کانگریس نے اپنی شکست تسلیم کر لی ہے۔ 543 کے ایوان میں بی جے پی اور اتحادی پارٹیاں 339 نشستوں کے ساتھ سر فہرست ہیں جس پر یہ بات اب طے ہوچکی ہے کہ بھارت کے آئندہ وزیراعظم نریندر مودی ہونگے جس کے ہاتھ ہزاروں مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ بی جے پی کی اپنی نشستوں کی تعداد 284 ہے۔ کانگریس اور اتحادی جماعتیں 57 نشستیں جیت سکی ہیں۔ 543 کے ایوان میں حکومت سازی کے لئے 272 نشستوں کی ضرورت ہے اور بی جے پی یہ تعدا دتنہا حاصل کر چکی ہے۔ بی جے پی نے پہلی مرتبہ گجرات اور راجھستان سے تمام سے تمام نشستیں جیت لی ہیں بی جے پی کی جانب سے وزیراعظم کے عہدے کے لئے نامزد نریندر مودی گجرات اور بنارس کی نشستیں جیت چکے ہیں۔ کانگریس پارٹی کے سربراہ سونیا گاندھی رائے بریلی کی نشست سے کامیاب ہوئی ہے۔
دوسرے بڑے سیاسی رہنماؤں میں کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی، بی جے پی کے رہنماایل کے ایڈوانی اور سماج واد پارٹی کے رہنما ملائم سنگھ یادیو بھی کامیاب ہوکر بھارتی لوک سبھا پہنچنے میں کامیاب رہے ہیں۔ بھارتی عام آدمی پارٹی کے سربراہ ارون کیجروال اور رابڑی دیوی کو شکست ہوئی ہے تاہم ان کی پارٹی چار نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے۔بی جے پی کی جانب سے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے پر مسلم تنظیموںنے شدید خدشات کااظہار کیا ہے اور کہا کہ نریندرمودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد ہندو مسلم فسادات مزید بھڑکنے کا اندیشہ ہے۔ نئی حکومت اگر اپنے آر ایس ایس کے ایجنڈے پر عمل کرتی ہے تو یہ ملک کے لئے خطرہ ہو گا۔ دہلی کے امام بخاری کا کہنا ہے کہ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ 2002 کے گجرات فسادات کے بعد مسلم کمیونٹی نریندر مودی کوہی ذمہ دار سمجھتی ہے۔ جماعةالدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید نے کہا ہے کہ بھارتی انتخابات میں بی جے کی فتح خطے کے لئے نہایت خطرناک فیصلہ ہے۔
ابھی نریندر مودی وزیر اعظم نہیں بنا تھاکہ آسام، میرٹھ اور حیدر آباد میں بدترین فسادات ہوئے ہیں تو اب جبکہ وہ اقتدار سنبھالنے جارہا ہے تواس سے فسادات مزید بھڑکنے کا اندیشہ ہے۔حریت کانفرنس کے دونوں دھڑوں کے سربراہ سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق نے دہلی الیکشن نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت چاہے کانگریس بنائے یا بی جے پی، دونوں پارٹیاں ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں اور ہاتھ بدلنے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ ہماری جدوجہد اقتدار کے لیے نہیں، بلکہ بھارت کے فوجی قبضے سے مکمل آزادی کے لئے ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ان کی یہ بات بالکل درست ہے۔ کانگریس اور بی جے پی دونوں انتہا پسند پارٹیاں ہیں۔ کانگریس سیکولرازم کالبادہ اوڑے ہوئے گزشتہ 67سال سے بھارت اور کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام کررہی ہے اور بھارت کی تاریخ میں 36ہزار مسلم کش فسادات کانگریس کے دورِ اقتدار میں دھرائے گئے ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت کا سیاہ کارنامہ بی جے پی، شیو سینا اور بجرنگ دل نے کانگریس کی سرپرستی میں انجام دیا۔ سکھوں اور عیسائیوں کو کانگریس کے دورِ اقتدار میں قتل کیا گیا اور یہ کانگریس کے نیتا ہی تھے، جنہوں نے چانکیائی اور میکاولی سیاست اپناکر بزور طاقت کشمیر کو غلام بناکر پورے برصغیر کو ایٹمی جنگ کی دہلیز پر پہنچایا اور جو سرمایہ بھارت اور پاکستان کو لوگوں کی غربت دور کرنے کے لیے استعمال میں لانا تھا وہ کھربوں ڈالر ہتھیاروں کی دوڑ میں صرف ہورہے ہیں، کیونکہ بھارت پر جنگی جنون سوار ہے۔
Babri Masjid
بھارت کے کروڑوں لوگ غلاظت کے ڈھیروں سے دانے اٹھا اٹھا کرپیٹ کی آگ بجھانے پر مجبور ہیں، کروڑوں لوگ بغیر چھت کھلی سڑکوں پر رات گزارتے ہیںکانگریس کی غلط پالیسیوں اور توسیع پسندانہ عزائم کی وجہ سے بھارت کے کروڑوں لوگ خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں اور جو فرقہ دارانہ فسادات، قتل وغارت گری کے واقعات کانگریس کی ایماء پر انجام دئے گئے وہ بھی بھارت کی سیاہ تاریخ کا عیاں عنوان ہے۔ تقسیم ہند کے بعد خصوصی طور شیوسینا، بجرنگ دل اور بی جے پی نے فرقہ پرستانہ اور ہندوتوا ذہنیت کی بنیاد پر مسلمانوں کے وجود کو بھارت میں تسلیم نہیں کیا اور 47ء میں ہی بھارت اور جموں میں جو قتل عام ہوا بی جے پی، شیو سینا، بجرنگ دل نے مسلمانوں کو قتل کرنے میں ہراول دستہ کا رول ادا کیا۔ بابری مسجد دنیا کی آنکھوں کے سامنے شہید کرنے کا دلخراش واقعہ بی جے پی نے انجام دیا، گجرات میں تین ہزار مسلمانوں کو قتل کرنے اور جلانے کا بدترین واقعہ بی جے پی نے دہرایا۔
بیسٹ بیکری اور عشرت جہاں انکاؤنٹر بی جے پی کی فرقہ پرست ذہنیت کا کھلا ثبوت ہے۔ جب دونوں پارٹیوں نے گھناؤنے کارنامے اور سنگین جرائم کی تاریخ رقم کی ہے تو کشمیریوں کے لیے یہ بات کوئی معنیٰ نہیں رکھتی ہے کہ بھارت کا اقتدار کس کے ہاتھ میں ہے اور ریاست جموں کشمیر کی متنازعہ حیثیت کے بارے میں دونوں پارٹیوں کا ایک ہی نظریہ ہے ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ لہٰذا کشمیریوں کو ان دو پارٹیوں میں سے کسی سے بھی اپنی امیدیں وابستہ نہیں کرنا چاہئیںبلکہ انہیں اپنے مبنی بر حق موقف پر چٹان کی طرح جمے رہنا چاہیے اور کسی خوف اور دباؤ کا شکار نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اﷲ واحد کی طاقت اور مدد پر ایمان رکھتے ہوئے جدوجہدِ آزادی کی خاطر ہر محاذ پر یکسو ہونا چاہیے اور یہی یکسوئی ہماری کامیابی اور آزادی کی ضمانت ہے اور طاقت والوں کے پاس طاقت ہمیشہ نہیں رہتی ہے اور ناہی مظلوم ہمیشہ مظلوم و محکوم رہتے ہیں۔کشمیری قوم کی عظیم اور بیش بہا قربانیوں نے تحریک آزادی کشمیر کو ایسی اونچائی پر پہنچادیا ہے کہ اب کوئی اس تحریک کو ختم کرسکتا ہے اور ناہی کوئی اسکی سودا بازی کرنے یا بندربانٹ کا متحمل ہوسکتا ہے۔
یہ تحریک مقدس لہو سے ایک ایسے اژدھا کی صورت اختیار کرچکی ہے کہ اگر اس مسئلہ کو کشمیر کی خواہشات، اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور کشمیریوں کی قربانیوں کے مطابق حل نہ کیا گیا تو یہ تحریک پورے برصغیر کو کھاجائے گی ۔ بزرگ کشمیری رہنماسیدعلی گیلانی کا یہ کہنا درست ہے کہ ہمارے لیے صرف ایک راستہ ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں کسی فریب یا دھوکے میں آئے بغیر مسلسل اور یکسوئی کے ساتھ جدوجہدآزادی کا ساتھ دیکر کشمیر کو بھارت کے جبری قبضے سے چھڑانا ہوگا اور کسی خوف، دباؤ، دھونس اور لالچ کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔بہرحال یہ بات حقیقت ہے کہ سبھی ہند نواز جماعتیں دہلی والوں کی کٹھ پتلیاں ہیں۔ جموں کشمیر میں کوئی علاقائی جماعت کتنی بھی نشستیں حاصل کیوں نہ کرے ، اس کا دہلی میں بننے والی کشمیر پالیسی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
Kashmiri People
کشمیر سے تعلق رکھنے والے ممبران پارلیمنٹ نے ہمیشہ حقوق انسانی پامالیوں اور کشمیری عوام کے جذبات پر خاموش تماشائی کا رول ادا کیا ہے کشمیریوں کے لئے انتخابی نتائج کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جیتنے والے یہاں کے لوگوں کی ترجمانی نہیں کر سکتے ۔ کشمیریوں کے لئے اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ نیشنل کانفرنس ، پی ڈی پی یا دوسری کوئی مین اسٹریم جماعت کامیابی حاصل کرتی ہے کہ ناکام ہوجاتی ہے ۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کشمیر سے جڑے معاملات کے بارے میں فیصلہ لینے کا اختیار دہلی والوں نے اپنے پاس رکھا ہے ۔ جموں کشمیر میں موجود ہند نواز جماعتوں کو صرف یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ حکومت ہند کی طرف سے مرتب کی جانے والی پالیسی اور اٹھائے جانے والے اقدامات میں اپنا تعاون دیں۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کشمیر کے کسی بھی ممبر نے پارلیمنٹ میں کبھی حقوق انسانی پامالیوں کے خلاف اپنی آواز بلند نہیں کی۔