ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف نو ستاروں کا ظہور اورآئی جے آئی کی کہانیاں کچھ مختلف نہیں دکھائی دیتی ہیں۔مگر ہر ایسی تحریک کے تانے بانے اگر تلاش کئے جائیں تو طاقت کے ایوانوں کا نام صبح صادق کی طرح عیان دکھائی دیتاے ہیں۔جن کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے اُن میں سے بعض1958 ء کے بعد سے اقتدار اور پاکستان کی سیاست کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں….کیونکہ ایک مرتبہ اقتدار کا چسکا لگنے کے بعد یہ کافر منہ سے لگی ہے چھوٹتی نہیں ہے کے مصداق ملک کے سماج اور اس ملک کی سیاست اور اقتدار، ان کی من پسند غذا بن چکی ہے۔
جب یہ اقتدار میں نہیں ہوتے ہیں تو انہیں اقتدار کی ایک ہُوک اٹھتی رہتی ہے ۔اقتدار سے باہر رہ کر بھی ان میں سے بعض عدالتوں کو بھی گھر کی لونڈی سمجھ بیٹھے ہیں۔جس کی وجہ سے سپرم کورٹ جانب سے کہنا پرا ہے کہمجسٹیٹ خود کو آرمی کمانڈینٹ آفیسر کے ماتحت نہ سمجھے۔یہ ایک روش چلی آرہی ہے کہ اگر فوجی جرم کرے تو اس کا مقدمہ عام عدالتوں میں چلنے سے روکا جاتا ہے۔جو آئینِ پاکستان کے ساتھ کھلا مذاق دکھائی دیتا ہے۔
اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ بعضنا نہاد سیاست دان اور وہ بھی سیاست کے میدان کے نا کام کھلاڑی اپنی ناکامیوں کا جنون جمہوریت پر ہی اتارنیکی کوششوں میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں۔خاص طور پر موجودہ دور میں زیادہ تر ٹانگہ پارٹیاں اور کچھ مضبوط سیاسی پریشرگروہ جن کا عمل تو بظاہر سیاسی نہیں ہے مگر وہ کہتے اپنے آپ کو سیاسی ہی ہیں یاپی ٹی آئی جیسی برگر پارٹی یہ سب جمہوریت کے دعویدار تو اپنے آپ کوکہتے ہیں مگر ایسا ہے نہیں!!!اس قسم کی جماعتیں آج رہ رہ کر عوام اور وطن کے واسطے دے دے کر جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی جدوجہد میں اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ مصروف ہیں اور اُس میڈایا گروپ کے پیچھے ہاتھ دھوکے پڑ گئے ہیں جو سچ کہنے میں کسی پوپ تلوار سے نہیں ڈرتا ہے۔
تاکہ سچ کا گلا دباتے وقت کوئی ان کا کچا چٹھا کھولنے کی جراء ت نہ کرسکے۔کل تک یہ پارٹیاں اور ان کے لوگوں کی اکثریت یا تو غاصب کی گود میں بیٹھ کر آمریت کی لوریوں پر اونگھ رہی تھیں۔یا کبھی آنکھ کھل جاتی تو ہڑبڑا کر اٹھ کر عوام کو بیوقوف بنانے کی غرض سے جئے جمہوریت کا نعرہ لگا کرپھر لوریوں میں مد ہوش ہوجاتے۔یہ اکثر ٹانگہ پارٹیاں ایسی ہیں جن کے نام تک سے عوام کی اکثریت نابلد ہے۔سیانے کہتے ہیں کہ مُکہ بردار گروہ کے چند خود غرض اس وقت ان جمہوریت کے دشمنوں کی آبیاری کرنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں اور جب ضرورت پڑتی ہے۔
Pakistan
ان کی ڈوریاں ہلادی جاتی ہیں۔ یہی چھوٹا ساچند افراد پر مشتمل گروہ اپنے آپ کو پاکستان کا خالق و مالک سمجھتا ہے۔آج کی اسٹابلشمنٹ اور سرکاری کھاتوں پر پلنے والے سرکاری ملازمین جو اس وطن کے قومی خزانے پر پل بڑھ رہے ہیں ۔انہیں یہ حق نہیں ہے کہ وہ الزامات کے ذریعے ملک میں تخریب کاری کے راستے کھولیں۔وہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس ملک کی اتنے سال خدمت کی پہلے تو انہیں اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ خدمت کہتے کسے ہیں؟”خدمت وہ ہوتی جس میں نہ تو کوئی معاوضہ لیا جاتا ہے اور نہ ہی اس کے ذریعے شہرت و طاقت کی طلب ہوتی ہے” ادارون اور اسٹابلشمنٹ کے لوگ خدمت نہیں نوکری کر رہے ہیں اور وہ پاکستان کے عوم کے سامنے جواب دہ ہیں۔اس نوکری کے بدلے وہ پورے سے زیادہ معاوضہ اور شہرت بھی لے رہے ہیں۔قوم ان میں سے بعض لوگوں کو ان کی حیثیت سے زیادہ عزت سے بھی نوازتی ہے۔اس کے بعد انہیں یہ کہنے اور طعنہ دینے کا حق نہیں ہے کہ ہم نے اتنے سال قوم کی خدمت کی!!!
جو خدمت تم نے کی اسکا معقول معاوضہ اور قد سے بڑھ کر شہرت بھی حاصل کی ….اب کسی پر احسان جتانے کی ضرورت نہیںہے۔مجھ سمیت قومی خزانوں پر پلنے بڑھنے والوں نے سرکار کی ملازمت کر کے قوم پر کوئی احسان نہیں کیا ہے ۔بلکہ اپنی اپنی محنت کا معقول معاوضہ بھی حاصل کر چکے ہیں،اور اس کا نفع پنشن کی شکل میں ہر ریٹائر سرکاری ملازم لے رہا ہے۔
خدا خدا کر کے میڈیا نے اپنا ایک مقام اس ملک میں جابر حکمران اور ایک ڈکٹیٹر کی موجودگی میںبنا یا تھا ۔جس کو چند حوس پرست و بھوکے ننگوں نے اپنے اپنے ایمان کی قیمت پر چند ٹکوں کے عوض تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔اپنے آقائوں کے اشاروں پر تعصب کی ایسی فضاء قائم کر دی کہ لگتا ہے ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے….؟یہ تمام کے تمام لوگ ایسے ہیں جن کے لئے امریکیوں نے ہی کہا تھا کہ پیسے کے لئے یہ اپنی ….کو بیچ دیں!!!یہ پورا ٹولہ مال برائے فروخت ہے، جو سچائی کی آواز کو دبانے پر تلا ہے۔یہ لوگ نہ تو آئینِ پاکستان کا احترام کرتے ہیں اور نا ہی اعلیٰ عدلیہ اور ان میں بیٹھے محترم منصفوں کا احترام کرتے ہیں ۔یہ بے ادب بے نصیب لوگ وقتی فائدوں پر خوش ہیں اور ہنہناہٹ کا شکار ہیں۔شائد ان کے ذہنوں میں یہ بات پچ نہیں رہی ہے کہ”آج وہ کل ہماری باری ہے۔
یہ بات ہر ذہن میں رہنی چاہئے کہ ”مال ِ حرام بود جائے حرام بود ”بقول نظیر اکبر آبادی کے”سب ٹھاٹھ پڑارہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارہ”تو پھر حرص وہوا کس بات کی؟؟؟دو بائی سات کے کمرے میں سب کو ہمیشہ کی استراحت اختیار کرنی ہی ہے۔جو کچھ سب مل کر سمیٹ رہے ہیں ان میں سیکسی کے ساتھ کچھ بھی نہ ہوگا!
بات خاصی آگے نکل گئی آج جتنی بھی نام نہادمذہبی اور سیاسی ٹانگہ پارٹیان ہیںان کو اور ان کے کھلاڑیوں کو ملک میں جمہوریت راس نہیں آرہی ہے اورا ن کے ساتھ چند ایک پٹے ہوے میڈیا گروپ اور ناکام پٹے ہوے ہر جرم کے عادی کچھ جرنلسٹ اور اینکرز بھی شامل ہیں ۔یہ تمام کے تمام لوگ بوٹ پالش میں دن رات مصروف ہیں۔یہ لوگ ڈنڈے کے سہارے ہمیشہ سے کھڑے رہنے کے عادی ہیں۔انہیں جمہوریت تو راس آتی ہی نہیں ہے ۔یہ کہتے ہیں کہ برے کو برا مت کہو طوفان آجائے گا۔انہیںشائد یہ مثال معلوم نہیں ہے کہ ایک مچھلی ہی سارے تالاب کو گندا کرنے کے لئے کافی ہوتی ہے۔
آثار کچھ یہ بتا رہے ہیں کہ ملک میں آئی جی آئی والا ڈرامہ دہرایا چاہتا ہے۔پاکستان کا موجودہ منظر نامہ کچھ ایسے ہی اشارے کر رہا ہے۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ قوم کے حقیقی خادم اقتدار کے ایوانوں کی جانب حریص نظریں جما چکے ہیں ۔ حکومت کی معمولی لغزش اسے اقتدار کے ایوانوں سے کال کوٹھڑیوں کے ویرانوں کی جانب خاموشی کے ساتھ لے جائے گی۔لہٰذا وزیر اعظم صاحب ہوشیار باش کہ ہولے ہولے رکھنا قدم۔آج کے ماحول میں بعض سیاسی لوگ معمہ ہیں سمجھنے کا نا سمجھانے کا۔مگر اقتدار پر بیک ڈور سے آنے کیلئے یہ لوگ انتہائی بے چین دکھائی دیتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ جمہوریت میںunrest کی کیفیت میں ہوتے ہیں ۔لیکن ان کے نعروں سے کوئی یہ نہیں سجھ سکتا ہے کی وہ جمہوریت کے مخالف ہیں….ا گر چہ ان کی جانب سے اور بعض اوقات انجانے میں حقیقت آشکارا ہو ہی جاتی ہے اور پھر باربار چیخوں کے ساتھ ان کی صدائیں آتی ہیں کہ ملک میں فوجی راج لایا جائے ہم ان کی ہر قسم کی غلامی کے لئے ہمہ وقت تیار ہیں۔
جس کی وجہ سے ان کے کارندے میڈیا پر آ آ کرمختلف حیلوں بہانوں سے گالی گلوج کرتے ہیں۔ ان کا وطیرہ یہ بن چکا ہے کہ بجائے عوامی مسائل پر بات کرنے کے معمولی معمولی معاملات کو اٹھاکر ان پر ایسی کج بحثی شروع کر دیتے ہیں کہ جس کا کوئی سر پیر بھی نظر نہیں آتا ہے۔ناظرین و سامعین ان کی اس لا یعنی گفتگو سے حیرانی اور پریشانی کے سوائے، کوئی نتائج اخذ کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ملک اور اپنے حلقے کی خدمت کے یہ دعویدار سوائے اپنے ذاتی مفادات کے کوئی اور بات میڈیا پر کرتے ہی نہیں ہیںاور اور نہ ہی اسمبلی کے ایوان میں ان کے حلقوں میں پھنسی ہوئی زبانیں اپنا کرشمہ دکھاتی ہیں اور پھر بھی وہ قوم کے خادم و خیر خواہ ہیں۔ہمارے ہاں سیاست ،مذہب اور سماج، ہر جگہ دہرا معیار نمایاں دیکھ جا سکتا ہے۔اس دہرے معیار سے کوئی نکلنا ہی نہیں چاہتا ہے۔
اسی میں ان سب کے مفادات پنہاں ہیں۔آج سیاست اور میڈیا کے ناکام کھلاڑی ،ملک سے جمہوریت کی بساط لپیٹ کر ایسا نظام لانے کے لئے کوشاں ہیں کہ جس میں انہیں اقتدار کی بھیک عوام سے نہ مانگنی پڑے ۔سب کچھ ان کھلاڑیوں کی ڈوریاں ہلانے والے ان کی جھولی میں ڈالدیں اور پھر یہ اپنے آقائوں کے ایجندوں کو عملی شکل میں پورا کر کے دکھا دیں۔
Shabbir Khurshid
تحریر:پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید shabbir4khurshid@gmail.com