منہ پر سیاہ پٹیاں، آنکھوں میں آنسو، چہرے پر اداسی اور جسم میں کپکپاہٹ… یہ تھا 5 مئی 2014ء کا ایک منظر بھارتی ریاست آسام کے شہر گوہاٹی کا جہاں گزشتہ دنوں بھارتی مسلمان اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہے تھے کہ شاید دنیا میں ان کی آواز بھی کہیں سنی جائے لیکن… شاید وہ یہ بھول گئے تھے کہ وہ تو مسلمان ہیں اور مسلمانوں پر جب، جہاں اور جتنا ظلم بیت جائے وہ صرف تماشا ہوتا ہے… اس کے علاوہ کچھ نہیں۔
وہ یکم مئی 2014ء کی ایک خون آشام رات تھی… بھارتی ریاست آسام جو کہ بنگلہ دیش کی سرحد پر واقع ہے کہ علاقے میں گھاس پھونس کی جھونپڑیوں پر مشتمل درجنوں دیہاتوں کے باسی سو رہے تھے کہ اچانک گولیاں چلنے کی آواز سنائی دی اور پھر ہر طرف آہ و زاریاں آگ اور شعلے بلند ہو رہے تھے۔ مسلمانوں کے ان بستیوں پر آس پاس کے ہندوئوں نے نصف شب کو ہلہ بول کے ان کا قتل عام کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی جھونپڑیوں کو آگ لگانا شروع کر رکھی تھی۔ رات کے اندھیرے میں جس کا جدھر منہ تھا، اس نے خود کو اور جتنا ممکن تھا بچوں کو سنبھالا اور بھاگ کھڑا ہوا۔ کسی گھر کے مرد حملہ آوروں کا نشانہ بنے تو کسی کی عورتیں اور کسی کے بچے… قتل کرنے والے ہندو بھی ظلم پر ظلم ہی ڈھاتے کہ جو سامنے آتا انہیں مار مار کر ان کی لاشیں پاس بہتے دریا میں بہاتے جاتے۔ اگلے دن کا سورج طلوع ہوا… تو تب کہیں جا کر دنیا کو معمولی خبر ہوئی کہ آسام کے مسلمانوں پر قیامت ڈھا دی گئی ہے… اور پھر بھارت کی مرکزی حکومت نے پولیس اور فوج کے دستے روانہ کرنے کا حکم نامہ جاری کیا… لیکن… جہاں ان کے آنے کا فائدہ کوئی نہ تھا تو دوسری طرف اس کام میں اس قدر تاخیر کی گئی کہ ہندوئوں نے خوب دل کھول کر مسلمانوں کا قتل عام اور جلائو گھیرائو کیا اور پھر ہزاروں مسلمانوں کو علاقے سے ہی بھگا دیا۔
برستی بارش… ننگے پائوں… بچوں کو کندھوں، ہاتھوں اور سائیکلوں پر اٹھائے بھوکے پیاسے اور لٹے پٹے مسلمان کتنے دن سے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں… لیکن ان کی فریاد کسی تک نہیں پہنچتی۔ وہ راتیں کہاں بسر کرتے ہوں گے…؟ کھانا کہاں سے ملتا ہو گا…؟ معصوم بچے بھوک و پیاس سے بلکتے ہوں گے تو ان کے پیٹ کو بھرنے کا سامان کہاں سے آتا ہو گا…؟ اس کی تو خیر کسی کو پروا نہیں…کیونکہ یہ مسلمان ہیں…ان مظلوموں پر الزام کیا تھا…؟ یہی کہ انہوں نے بھارت کے حالیہ انتخابات میں اپنا ”مقدس” جمہوری حق اپنی مرضی سے ان حملہ آور ہندوئوں کے بقول ان کے مخالف کے حق میں استعمال کیا تھا لیکن ”مقدس جمہوری دیوی” کے پرستاروں تک تو یہ صدا بھی نہ پہنچی کہ اس دیوی کا تقدس و احترام کچلا جا رہا ہے… اس کو یہاں کیوں نہیں بچاتے…؟
بھارت کے کروڑوں اور آسام کے ان لاکھوں مسلمانوں پر تو جیسے ہندو خاص کر انسانی قتل کی تربیت حاصل کرتے ہیں اسی لئے تو بھارت کے متوقع وزیراعظم نریندر مودی نے کھل کر اپنی انتخابی مہم کے دوران حالیہ تقاریر میں پہلے سے کہہ دیا تھا کہ اگر وہ وزیراعظم بنا تو آسام کے اس علاقے میں صرف ہندوئوں کو رہنے کی اجازت ہوگی اور مسلمانوں کو یہاں سے مار مار کر بنگلہ دیش بھگا دیا جائے گا کیونکہ وہ بھارتی نہیں بلکہ بنگلہ دیشی ہیں… بھارت کے ہندوئوںکا بھی کیا حسن کرشمہ ساز ہے… کہ جب چاہے انہیں بھارتی قرار دے دے، انہیں ووٹ کا حق دے دے اور جب چاہے انہیں بنگلہ دیشی قرار دیکر ان کا خون پینا شروع کر دے…
India
بھارتی میڈیا کہہ رہا ہے کہ آسام میں دو روز کے دوران 41 مسلمان قتل ہوئے لیکن یہاں کا بہتا دریا روزانہ مسلمانوں کی درجنوں لاشیں اگل دیتا ہے۔ تین سال سے لیکر دس سال تک کے بچوں کی لاشیں ماں کے ساتھ قطار میں پڑی ہیں… لیکن اس پر کسی کی آنکھ نم نہیں ہوئی… ملالہ کے لئے تڑپنے والے یہاں گونگے بہرے ہیں… کیا کبھی کسی نے سوچا کہ اگر اپنے گھر بار سمیت ایک یا دو راتیں ہمیں گھر سے باہر رہنا پڑجائے تو ہم وہ وقت کیسے کاٹیں گے ؟ اور یہاں بھارت میں تو ایسے مسلمان ہزاروں نہیں لاکھوں میں ہیں جن کی زندگیاں گندی نالیوں میں پلنے اور گلنے سڑنے والے کیڑے مکوڑوں سے بھی بدتر ہیں…
یکم مئی کی رات خانہ برباد ہونے والے ہزاروں مسلمان اب ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں تو عین اسی علاقے کے وہ 50ہزار سے زائد آسامی مسلمان بھی ابھی تک انہی حالات میں پڑے ہیں جنہیں دو سال پہلے ایسے ہی فساد کا سامنا ہوا تھا۔اس وقت کہا گیا تھا کہ 100مسلمان شہید ہوئے ہیں لیکن اصل تعداد تو اس سے زیادہ تھی۔ ان حملوں میں 4لاکھ مسلمانوں کو بنگالی قرار دیکر ان کے علاقوں سے مار بھگایا گیا تھا جن کی بڑی تعداد آج بھی گھروں سے دور ہے تو ان کی زمینوں اور املاک پر ہندو قابض ہو چکے ہیں۔ بھارت میں یہ صورتحال صرف آسام تک محدود نہیں ہے۔ گزشتہ سال ماہ ستمبر کی 7اور 8تاریخ کو ریاست اترپردیش کے ضلع مظفر نگر اور شاملی میں ہندوئوں کے حملوں کا نشانہ بن کر بے گھر ہونے والے ایک لاکھ سے زائد مسلمانوں میں سے آج بھی 25ہزار ایسے ہیں جو اپنے جلے سڑے گھروں کو تو کجا اپنے علاقوں کو ہی واپس نہیں آ سکتے۔ بھارتی مسلمانوں کی یہ دردناک کہانی ملک کے کونے کونے، گلی گلی میں پھیلی ہوئی ہے۔ جی ہاں! اسی بھارت میں جس کی وزارت عظمیٰ کی کرسی پر نریندر مودی بیٹھنے کا سب سے بڑا دعویدار ہے اور اسی نریندر مودی نے بارہ سال پہلے ریاست گجرات میں لاکھوں مسلمانوں پر جو بھی ظلم ڈھایا تھا اس کے لاکھوں زخم اور لاکھوں درد آج بھی تازہ ہیں، گجرات فسادات کے متاثرہ 50ہزار مسلمان آج بھی جگہ جگہ گل سڑ رہے ہیں۔ انہی مسلمانوں کا ایک کیمپ سٹیزن نگر نامی علاقے میں بھی قائم ہے۔ جب آپ ایسے کیمپوں سے گزرتے ہیں تو آپ کو یہاں مختلف گلیاں نظر آتی ہیں جو کہ اب جلنے کے بعد ویران ہو چکی ہیں اور دھوئیں سے کالی ہو گئی ہیں۔ یہاں ان کے درمیان سے آلودہ پانی بہتا ہوا نظر آتا ہے۔ یہاں پر آپ کو کوئی ہرا بھرا درخت یا پتہ نظر نہیں آئے گا، صرف ایک پیپل کا پیڑ ہے جو یہاں کی بدحالی کا اور غربت کا تنہا پوسٹ کارڈ ہے۔
یہاں کی بدبو آپ کے دماغ میں گھس جائے گی مگر ان کیمپوں کا معائنہ کرنے کے دوران یہاں آنے والوں کو یہ سب برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہاں ایک جگہ کچرے کا ایک باقاعدہ صحرا نظر آتا ہے جو 2002ء کے فسادات کی یادگار ہے۔ یہاں پر کتے اور انسانی غلاظت جا بجا نظر آتی ہے۔ یہاں پہنچتے ہی آنکھوں میں ایک طرح کی جلن محسوس ہوتی ہے کیوں کہ یہاں جا بجا جھلسی ہوئی چیزیں ہیں۔ یہاں پر کیمیائی اشیاء کے کچرے کا ایک بڑا ڈھیر بھی نظر آتا ہے۔ یہاں آپ کی رہنمائی کرنے والا آپ کو یہ بتائے گا کہ یہ ڈھیر سرما میں ناقابل برداشت ہو جاتا ہے اور گرما میں اس میں آگ لگ جاتی ہے۔ اس کی بدبو اور اس کا نظارہ دونوں ناقابل برداشت ہیں لیکن بھارت کے مسلمان اس سب کے ساتھ روز تڑپ تڑپ کر روز شب گزارنے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کے پاس دوسرا کوئی چارہ ہی نہیں۔
بھارت کے اطراف و اکناف میں مسلمانوں سے چھیڑ چھاڑ، مار دھاڑ، عزتوں سے کھلواڑ اور لوٹ مار تو ہندوئوں کا ایک پسندیدہ مشغلہ ہے۔ کسی ہندو کو اگر دل بہلانے کیلئے کوئی بہانہ میسر نہ آئے تو ملک میں ہر جگہ مسلمان ہر وقت حاضر ہیں کیونکہ ہندوئوں اس پر کوئی پوچھ گچھ کرنے والا نہیں۔ گجرات میں 30ہزار مسلمان زندہ جلائے اور قتل کئے گئے تھے لیکن کسی ہندو کو سزائے موت تو کجا عمر قید بھی نہ ہوئی سو ہندوئوں کے حوصلے بلند ہیں۔
اب کے دور میں ایسی غلطیاں نہیں ہوتیں قتل کرنے والوں کو پھانسیاں نہیں ہوتیں