چار دن علم و ادب کے گلشن میں

Karachi

Karachi

انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے صوبائی ریجنل سینٹر دعوة اکیڈمی کراچی میں صحافیوں اور میڈیا پرسنز کے لیے ہونے والی چار روزہ اسلامی تربیتی ورکشاپ میں شرکت کا موقع ملا، جو 13 مئی تا 16 مئی جاری رہی۔ اس ورکشاپ میں کئی ماہرین علم، اسلامک اسکالرز اور سینئر صحافیوں نے پیشہ ورانہ تربیت اوراصلاحی موضوعات پر لیکچرز دیے۔ 13 مئی کوورکشاپ کے آغاز پر کوآرڈینیٹر ریجنل دعوة سینٹر کراچی ڈاکٹر شہزاد چنا نے شرکاء کو دعوة اکیڈمی کے قیامکے اغراض و مقاصداور اس کی ملکی و بین الاقوامی سطح پرپیش کی جانے والی خدمات سے آگاہ کیا۔

تعارفی نشست کے بعد چیئرمین اعلیٰ ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی ڈاکٹر انوار احمد زئی نے افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا کہ آج صحافت اور صحافیوں کو نسلی، لسانی و علاقائی تعصبات کا سامنا ہے لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں۔ بلکہ آزادی وطن کے فوری بعد اس ملک کے خلاف سازشیں شروع ہو چکی تھی جس کی وجہ سے ہم کافی عرصے تک بغیر کسی دستور کے چلتے رہے۔ بعد میں جب دستور بنا تو اسے مارشل لاء نافذ کرکے توڑاگیا اور یہ آنکھ مچولی 1973 تک چلتی رہی۔

1973 کے دستور کو کسی نے توڑا تو نہیں لیکن اسے مختلف ادوار میں معطل کیا جاتا رہا۔ جو کہ غیر قانونی اقدام تھا۔ موجودہ حالات کے حوالے سے پروفیسر صاحب نے کہا کہ آج اس ملک اور اس کے نظریے کی خلاف سازشیں ہورہی ہے۔ لہٰذا صحافت سے وابسطہ افراد پر یہ دہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایک طرف ایسے عناصر کے آگے دیوار بن جائیں تو دوسری طرف مسلسل قوم کو اصل حقیقت سے آگاہ رکھا جائے۔ دعوة اکیڈمی کے انچارج اور معروف علمی شخصیت و محقق جناب ڈاکٹر سید عزیزالرحمن نے قرآن ایک تعارف کے عنوان سے لیکچر دیا۔ اپنے لیکچر میں ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ قرآن پاک کا موازنہ دوسرے کتابوں سے کرانا ممکن نہیں۔ کیونکہ قرآن جیسی کتاب نہ پہلے کبھی آئی ہے اور نا تا قیامت ایسا ممکن ہے۔ انہوں نے مزید کہا قرآن کریم ایک ایسی مقدس اور بابرکت کتاب ہے کہ جو کئی صدیاں گزرنے کی باوجود بھی اپنے الفاظ، اپنے بیان میں بالکل ایسی ہی ہے جیسا کہ نبی مہربان کے دور مبارک میں تھی۔ اور یہ تا قیامت تک ایسے ہی رہے گی۔

عربی زبان کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر سید عزیزالرحمان نے کہا کہ ہر زبان میں ہمیں متروک لفظ ملیں گے لیکن عربی میں ایسے الفاظ ہرگز نہیں ملیں گے اور یہ صرف قرآن ہی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے کہ عربی زبان میں آج تک کوئی تبدیلی نہیں آئی اور نا آئندہ کوئی تبدیلی آئیگی۔ قرآن ایک تعارف کے علاوہ سید عزیزالرحمن نے حرمت قلم اور اس تقاضے اور سیرت طیبہ ۖ پر بڑے مؤثر، خوبصورت اور جامع انداز میں لیکچرز دیے۔ جن سے شرکاء پروگرام نے خوب استفادہ کیا۔ ڈاکٹر عامر طاسین نے ذرائع ابلاغ اور پروپیگنڈہ کے عنوان سے لیکچر دیا۔ انہوں نے پروپیگنڈے،اس کی اہمیت اور منفی یا مثبت استعمال کے حوالے شرکاء کو آگاہ کیا۔ پاکستانی میڈیا کی موجودہ صورتحال پر بات کرتے ہوئے عامر طاسین نے کہا کہ پوری دنیا میں یہ اصول رائج ہے کہ جو بندہ ٹی وی یا اخبار نکالنا چاہتا ہو تو اس کے لیے لازم ہوتا ہے کہ وہ خود جرنلزم سے وابستہ بھی ہو اور اسے جرنلزم کا خاطر خواہ تجربہ بھی ہو۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا نہیں ہورہا، بلکہ یہاں ان کو بھی لائسنس مل جاتا ہے جن کا صحافت سے دور دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ پیمرا قوانین کے حوالے سے ڈاکٹر موصوف نے کہا کہ قوانین تو موجودہیں لیکن پیمرا باوجود کوشش کے اس پر عمل درآمد نہیں کر پاتا۔

ذمہ دارانہ رپورٹنگ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے جامعہ کراچی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن (ابلاغ عامہ) کے سابق چیئرمین و پروفیسر ڈاکٹر محمود غزنوی نے کہا کہ ذمہ دارانہ رپورٹنگ کے لیے لازم ہے کہ خبر شائع یا نشر کرنے سے پہلے اس کی صحت کیتین یا کم از کم دو ذرائع سے تصدیق کردی جائے۔ اگر دو یا دو سے زائد معلوم ذرائع سے خبر کی تصدیق ہوجائے تو پھر خبر کو آگے بڑھادیا جائے ورنہ نہیں۔

Media

Media

پاکستانی میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ رویئے پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ خبر کہاں سے آ رہی ہے اور اس کے نشر یا شائع کرنے کے کیا نقصانات ہو سکتے ہیں۔ بس ان کا کام صرف یہ ہوتا ہے کہ ہم سب سے آگے بڑھ سکیں اور یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات بڑے بڑے میڈیا ہاوسز کو شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے۔ لیکن ڈھٹائی اس قدر ہے کہ اپنی غلطیوں کا اعتراف پھر بھی نہیں کرتے۔ ذمہ دارانہ رپورٹنگ کے حوالے سے مزید بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خبر میں اپنی رائے شامل نہ کرنا اور اسے اس کی صحت کے مطابق معاشرے کے اصلاح و بہتری کے نیت سے آگے بڑھانا ذمہ دارانہ رپورٹنگ کہلاتا ہے۔ لیکن آج صورتحال اس قدر خراب ہے کہ ہم نیوز میں اپنے ویوز شامل کرکے خبر دیکھنے یا پڑھنے والے والوں پر اپنی رائے مسلط کررہے ہوتے ہیں۔ ایجنڈا سیٹنگ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر محمود غزنوی نے کہا کہ پوری دنیا کی میڈیا کا اپنا ایک مخصوص ایجنڈاہوتا ہے اور انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے کیا کرنا اور کہاں جانا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستانی میڈیا کا کوئی ایجنڈا سیٹنگ نہیں اور وہ شتر بے مہار بنی ہوا ہے۔

ماہر تعلیم و ماہر نفسیات منیر احمد راشد نے نفسیات اور صحافت کے حوالے سے لیکچر دیا اور مختلف چارٹس کے ذریعے سے عملی طور پر شرکاء کو نفسیات و صحافت کے حوالے سے اگاہ کیا۔ اس پروگرام کے تیسرے دن شرکاء کو جامعہ کراچی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن لے جایا گیا جہاں شعبہ ماس کمیونیکشن کے سربراہ ڈاکٹر طاہرمسعود کے زیر صدارت ایک مذاکرے کا اہتمام کیا گیا۔ آخر میں ڈاکٹر طاہر مسعود نے شرکائسے خطاب کیا۔ اپنے لیکچر میں ڈاکٹر مسعودنے میڈیا پر پابندیوں اس کے بعد میڈیا کے آزادی اور اب میڈیا کی بے لگام صورتحال کے بارے میں تفصیلاً بتایا اور کہاں کہ آج معاشرے کو معتدل رکھنے کے لیے لازم ہے کہ دیگر شعبہ ہائے زندگی کے ساتھ ساتھ میڈیا کے لیے بھی ایک ایسا ضابطہ اخلاق مرتب کرکے اس پر سختی کے ساتھ عمل درآمد بھی کرالینا چاہیے کہ جس سے معاشرے میں مثبت اقدار فروغ پائے۔اور اس کام کے لیے صحافی برادری کو خود ہی آگے بڑھنا پڑے گا۔ کراچی یونیورسٹی کے اس دورے میں محترم ڈاکٹر محمود غزنوی نے اپنے نگرانی میں جامعہ کے ایف ایم ریڈیو کا دورہ کرایا اور تفصیلاً اس کی ٹرانمیشن اور دیگر سسٹم وغیرہ کے بارے میں شرکاء کو آگاہ کیا۔

دعوة اکیڈمی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے ریجنل دعوة سینٹر کراچی میں اس پروگرام کا اختتام چوتھے روز نماز جمعة المبارک سے پہلے ہوا۔ اختتامی تقریب سے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل، دعوة اکیڈمی جناب ڈاکٹر محمد امتیازظفر نے بطور مہمان خصوصی خطاب کیا اور اخر میں شرکاء کو تحائف دے کر رخصت کر دیا گیا۔ ہمارے لیے یہ ورکشاپ بہت سی نئی چیزوں کے سیکھنے کا سبب بنی۔ اگر صحافیوں کے لیے اسی طرح کے تربیتی پروگرام دیگر میڈیا ہاوسز بھی شروع کر دیں۔ تو اس کے نتائج بہت موثر نکل سکتے ہیں۔

Saeed Ullah Saeed

Saeed Ullah Saeed

تحریر: سعیداﷲ سعید