اخلاقی اقدار کو کسی بھی مذہب کی پراپرٹی قرار نہیں دیا جا سکتا۔یہ دراصل انسانیت کی پراپرٹی ہے۔ بنی نوع انسان کا مشترکہ سرمایا۔ جبھی تو دنیا کی ہر تہذیب سچائی،امن، عدل و انصاف، مہر و محبت اور وفا شعاری وغیرہ کا درس دیتی اور جھوٹ، عناد، نفرت ،ظلم و زیادتی اور قتل و غارت سے دور رہنے کی ترغیب دیتی ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اخلاقی اقدر کسی بھی معاشرے کی اولین ضرورت ہوتی ہیں اور چونکہ افراد سے سماج تشکیل پاتا ہے لہذا معاشرے کے ہر فرد کو اپنی زندگی میں ان کو برتنے کی ضرورت پیش آتی ہے۔
عدالتیں بھی انہی اقدار کے فروغ میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں اور معاشرے میں عدل و انصاف کے قیام کے لئے شرپسندافراد کو سزا دیکر امن وامان کی صورت حال کو بہتررکھتی ہیں۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ریاست کے تینوں ستون باہمی گٹھ جوڑسے کسی بھی ریاست میں مثبت اقدر کو فروغ دیتے ہیں۔یہ سارے امورآئینی دائرہ کار میں رہتے ہوئے انجام دینے ہوتے ہیںاور اخلاقی اقدار کی حیثیت کسی بھی آئین کی روح کی سی ہے۔جن معاشروں میں قانون کا احترام کیا جائے اور مجرموں کوسزا دیکر قیام امن کی عملی کوششیں کی جائیں وہاں نہ صرف تمام افراد بلکہ تمام ریاستی ادارے تک اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرتے ہیں۔
اس حوالے سے پاکستان کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو شرم سے سر جھک جاتا ہے کہ اکثر ادارے ایک دوسرے کے ساتھ لڑاکا عورتوں کی طرح ہاتھ نچا نچا کر لڑتے دکھائی دیتے ہیں۔ حامد میر پر حملہ کیا ہوابڑے بڑے میڈیا ہاوسز آستین الٹ کر میدان میں آگئے اورمتحارب جتھوں کی طرح ایک دوسرے پر بڑھ بڑھ کر حملے کرنے لگے۔یقینا اس سے قبل بھی ان سب کے باہمی تعلقات مثالی ہرگز نہ تھے۔لیکن جارحانہ پن میں یہ جنونی شدت بھی نہیں تھی۔آئی ایس آئی کے دفاع کے حوالے سے ان سب کاایک ہو جانا ایک بہترین عمل تھا جس کی ہر طرف سے پذیرائی ہوئی لیکن یہ معاملہ بس یہیں تک محدود رہتا تو یہ ایک آئیڈیل صورت ہوتی لیکن یہ کیا ہوا کہ سارے ہی خم ٹھونک کر یوں میدان میں ڈٹ گئے جیسے یہ دشمن ملک کی فوجیں ہوں۔مجھے ذاتی طور پر ان بڑے بڑے میڈیا ہاؤسز میں کوئی خاص فرق محسوس نہیں ہوتا۔آپ نے بھی ان سب کے پروگرامز میں کوئی خاص فرق نہیں پایا ہوگا ۔خبریں کا ادارتی صفحہ گواہ ہے کہ راقم نے ان سب پر بساط بھر تنقید کی ہے ۔جس کا مقصد یقینا اصلاحی تھا ۔آپ ہی بتائیں کہ ان بڑے بڑے نیوز چینلز (جن کی تعدادبامشکل ایک ہاتھ کی انگلیوں کے برابر ہے ) پر کیاآپ کو انڈین ثقافت کی گہری چھاپ نظر نہیں آتی ؟کون سا ایسا چینل ہے جس پر انڈین پروگرامز نہ پیش کئے جاتے ہوں ؟وہ کونسا سا چینل ہے جس کی خاص خبریں انڈین اداکار وں کے تذکرے سے خالی ہوں؟کیا آپ بھول گئے کہ گذشتہ دور حکومت میں ترکی کی ”اسلامی ثقافت” کے عکاس ”عشق ممنوع ”کے خلاف معاملہ عدالتِ عالیہ تک جا پہنچاتھا اور تو اور گیلانی جی تک سے شکایت کی گئی لیکن حکومت کی بیچارگی و بے بسی ملاحظہ ہوکہ ان بڑے مگر مچھوں کے خلاف کوئی بھی کاروائی عمل میں نہ لائی جا سکی۔
بالکل موجودہ حکمرانوں جیسا طرزِفکر اور متاثرہ فریق کو محض تسلی پر ہی ٹرخا دیا گیا۔اعتراض بڑا ہی جینوئن تھا کہ حکومت نے ان لوگوں کو یہ لائسنس ترکی کے ڈرامے دکھا نے کے لئے نہیں دیا تھا۔اب ایسا بھی نہیںتھا کہ شکایت کنندگان کو پاکستانی ثقافت کا درد کھائے جاتا ہو۔یہ تو انکی روزی پر لات پڑی تھی تو انہیں ترکی کے ڈراموں پر اعتراض ہوا تھااور اپنی ثقافت یادآئی تھی۔کاش کوئی ان سے پوچھتا کہ جناب آپ کوبھی تو یہ لائسنس انڈین ثقافت کے فروغ ،انڈین ڈرامے دکھانے اور پروگرامز پیش کرنے کے لئے نہیں دیا گیا تھا ۔المیہ دیکھیں کہ جن کے پیٹ میں ثقافتی درد اٹھا تھا وہ بھی کچھ ایسے معصوم ہرگز نہ تھے کہ وہ بھی تو دھڑا دھڑ ”بھارتی گنگا ”میں ہاتھ دھوتے اور اس کی” کھٹی”کھانے میںدن رات مشغول تھے اور اب بھی ہیں ۔سونتیجہ یہ نکلاکہ نہ ترکی کے ڈرامے رکے نہ بھارتی اور تب سے اب تک ہر چینل اپنا حصہ بقدر جثہ بے دھڑک وصول کر رہا ہے۔ آج کل ان نیوزچینلز کی جو حالت ہے اسے دیکھ کر ہر پاکستانی شرمندہ شرمندہ سا لگتا ہے ۔ایک دوسرے پر تابڑ توڑ حملے جاری ہیں۔پیمرااور شریف سرکارایک بار پھر مجرمانہ غفلت کا شکار ہے۔کسی کی پگڑی اچھالنا اور بے بنیاد الزامات لگانا اور یک طرفہ میڈیا ٹرائل کرنا ایک انتہائی نازیبا حرکت ہے اور اور تو جیو کو بھی اس کا احساس ہوچلا ہے ۔جبھی تو وہ خود پر الزامات کے جواب میں کئی ہفتوں سے کپتان کے خلاف انتہائی شرمناک مہم جاری رکھے ہوئے ہیں ۔کاش اس چینل کو خود بھی احساس ہوتا کہ بنا ثبوت الزامات لگانا کتنی مذموم حرکت ہے۔کپتان کے خلاف ”پگڑی اچھال” مہم دیکھ کر دوسرے چینلز کی جیو کے خلاف مہم معصومانہ نہیں تو مجرمانہ بھی نہیں لگتی۔
Imran Khan
دبے دبے الفاظ میں اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بعد کپتان کے خلاف انکی بے باکی ظاہر کرتی ہے کہ انہوں نے ہمارے سیاستدانوں کی طرح اپنی غلطیوں سے کچھ بھی نہیں سیکھا =۔بد اعمالی کی نحوست ساتھ ہو تو اونٹ کی پشت پر سوار آدمی کوبھی کتا کاٹ لیتا ہے۔ قوم کاغصہ ابھی اترا نہیں تھاکہ مارننگ شو کے حوالے سے ایک اور بنا بنایا موضوع مخالفوں کے ہاتھ آگیا۔ معاملہ چونکہ مذہبی نوعیت کا تھا سو دیکھتے ہی دیکھتے جنگل کی آگ کی طرح پھیل گیا۔معافی تلافی پر بھی جو بجھنے کو نام نہیں لے رہا۔عجیب بات یہ ہے الزام لگانے والے خود بھی یہ حرکت کر چکے تھے۔معافی مانگنے والے چیخ رہے ہیں کہ ہم پر الزام عائد کرنے والے خود بھی پانچ بار یہ حرکت کر چکے لیکن ہم نے تو اس ایشو کو نہیں اچھالا۔یہ لوگ اسے برا سمجھتے تو خود یہ حرکت کرنے کی بجائے مخالفت برائے مخالفت کے تحت اسے ضرور اچھالتے ۔یہ ساری حرکتیں اخلاقی دیوالیہ پن کی نشاندہی کرتی ہیں ۔انکو دی گئی کھلی چھوٹ دیکھ کرلگتا ہے یہاں قانون نام کی کوئی چیز نہیں۔ حکومت تو گویا اس ایشو کو اچھوت سمجھتی ہے تبھی تو اس کی طرف ہاتھ بڑھانے سے گریزاں ہے۔قوم یہ سوچنے میں حق بجانب ہے کہ کپتان اور قادری کی تحریک سے عوام کی توجہ ہٹھانے کے لئے حکومت ”چپ سادہ ” پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
کسی بھی ملک کے ذرائع ابلاغ اس ملک کے سفیر اور ترجمان ہوتے ہیں۔اخلاقی اقدارکا فروغ ،قانون اورانسانی حقوق کا احترام، رواداری، برداشت، تہذیب و شائستگی کا فروغ جن کے مقاصد میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں لیکن انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے بے سمت چینلز کی آپسی لڑائی سے ہماری جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔پوری دنیا میں اس حوالے سے ہمارا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔چھوٹے بچے کی جن حرکتوں سے ہر کوئی محظوظ ہوتا ہے اگر وہی حرکتیں بارہ پندرہ سال کو لڑکا کرنے لگے تو غیر تو غیر گھر والے تک اسے برداشت نہیں کر پاتے ۔ہمارے برقی میڈیا پر یہ بات صادق آتی ہے ۔جو اپنی عمر کے دوہرے ہندسے میں داخل ہوجانے کے باوجود دو سالہ بچے کی سی حرکتیں کرتا پھر رہا ہے۔اس سب کو دیکھتے ہوئے کسی ”ضابطہ اخلاق ” کی ضرورت پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے۔آزادی کے نام پر بے راہ روی کی اجازت کسی کو بھی نہیں دی جا سکتی۔تجاویزات حد سے بڑھنے لگیں آ پریشن کلین اپ ضروری ہو جاتا ہے۔
برقی ڈرون حملے ہونے لگیں تو ملکی دفاع کے لئے تمام تر ممکنہ کوششیں ناگزیر ہو جاتی ہیں۔ان تمام عناصر کے خلاف بھل صفائی ضروری ہے جنہوں نے صحافت کا حسن گہنا دیا ہے ۔جنہوں نے اپنے دوسروں کے ناک کو خیال نہیں رکھا اور اپنے آزادی کا کسی نابینا کی لاٹھی کی طرح بھونڈے انداز میں استعمال کیا ہے۔اس قوم کا کوئی بھی فرد جس سے نہ لاعلم ہے نہ قائل۔ یہ کام ماہ رمضان سے قبل ہوجانا چاہئے کہ قوم کو پچھلا رمضان ابھی تک نہیں بھولا۔کیا ہم یہ امید کر سکتے ہیں کہ میڈیا کو کسی ایسے ضابطہ اخلاق کا پابند بنا یا جائے گا جس کو قوم کے ہر طبقے کی تائید حاصل ہو تاکہ لڑاکا عورتوں والی صورت حال کا جلد خاتمہ ہو گا۔ کیا ہمیں یہ امید رکھنی چاہئے کہ اب کی بار ماہ رمضان میں ہماری جان ،ان حواس باختہ رمضانی مولویوں اور اخلاق باختہ اداکارائیں سے چھوٹ جائے گی جو اخلاقیات ،ضبطِ نفس اور صبر کے تلقین و تبلیغ کرتے نہیں تھکتے۔