سابقہ دورِ حکومت میں جب پنجاب اسمبلی میں میڈیا کے خلاف ایک مضحکہ خیزقرار دادکی منظوری ہوئی تو مجھے ایک دوست کا میسج ملا کہ کیا سول آمریت کے خلاف جدو جہد کے ایک نئے اور فیصلہ کن مر حلہ کا آغاز ہے۔ کیا آزادی صحافت کے تصور کا وہ دعویٰ دم توڑ چکا ہے۔ جس کا شور جمہوریت کی دعویدار سیاسی قوتوں کی ابتدائی بنیادوں سے اٹھا اور الیکٹرانک میڈیا پر ملک کے طول و عر ض کی سماعت سے تسلسل کے ساتھ ٹکراتا رہا ؟ کیا پنجاب اسمبلی کے اس اقدام کو مفتوح صحافت کی ناکام خواہش کا تسلسل کہا جائے تو بے جانہ ہوگا ؟
سوالات کے تسلسل میں مجھے عالمی یوم صحافت پر سابق جنرل سیکرٹری اقوام متحدہ کوفی عنان یہ ریمارکس یاد آئے کہ آزادی صحافت صحافی کا وہ حق ہے جس کے لیے لڑا جانا چا ہیے۔ آزادی صحافت انسانی حقوق کا بنیادی عنصر ہے یہ وہ شے نہیں جو صرف خواہش کرنے سے مل جائے صحافیوں کا کردار ان حکمرانوں کو شرم دلاتا ہے جو قابل اعتراض پالیسیاں بناتے ہیں۔ ایوب دور آمریت میں بھی پریس کی آزادی سلب کرنے کی کوشش کی گئی۔ مفتوح صحافت کی ضرورت ایوب خان کو بھی محسوس ہوئی جس نے صحافت کی آزادی کا دائرہ تنگ کرنے کے لیے پی پی او کے نام سے 8 ستمبر 1963ء کو کالے قانون کا نفاذ کیا۔
وقت کے آمر نے اس کالے قانون کے تحت پریس کو پابہ زنجیر کرنے کے لیے فرنگی حکمرانوں کو بھی مات دے دی۔ جوکام فرنگی نے نہ کیا وہ کام ایک آمر نے انجام دے کر صحافت کو قریب المرگ کرنے کی ناکام کاوش کی۔ صحافتی تنظیموں نے جس طرح پنجاب اسمبلی میں اس غیر اخلاقی اقدام کے خلاف آواز اُٹھائیایک آمر کے دورِ حکومت میں بھی ملک کے دونوں بازوں کے کارکن صحافیوں نے اپنی تنظیموں پی ایف یوجے وسی پی این ای کے پلیٹ فارم سے اس قانون کو چیلنج کیا۔ اور اپنی قرار دادوں میں اس کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی ۔پی ایف یوجے کی اپیل پر ملک بھر میں 24 گھنٹے کی ہڑتال کی گئی۔ روزنامہ ڈان نے ہڑتال کے اعلان جو سرخی لگائی۔ وہ بہت معنی خیز تھی۔
There will be no Dawn tomorrow. صحافیوں کے پرزور احتجاج نے آمر وقت کے ارادوں کو متزلزل کر دیا۔ بالآخر آمریت کو سر نگوں ہونا پڑا۔ جس کے ضمن میں 13 ستمبر 1963ء کو لاہور اور ڈھاکہ کے گورنروں کی جانب سے پی پی او کے کالے آرڈیننس کے لیے ایک ماہ کے لیے عمل در آمد روک دیا گیا۔ 1968ء میں جب ایوبی آمریت کے خلاف عوامی تحریک کا لاوا اُبلا تو مظاہروں کی کوریج کرنے میں قلمی مجاہد اور کیمرہ مین پیش پیش تھے۔ آمریت کے خمار میں ڈوبے ہوئے آمر نے ریاستی پولیس کو مظاہروں کی کوریج کرنے والے صحافیوں کے خلاف استعمال کیا۔
ایک آمر کے احکامات کی تکمیل میں قلمی مجاہدوں تشدد کی انتہا کردی گئی۔ صحافیوں کی اکثریت حکومتی ایجنسیوں اور تشدد کی وجہ سے اپنے اعضاء تڑوا بیٹھی۔ مگر آزادی صحافت کی تاریخ کا کارواں نہ رکا بالآخر ایک آمر کو مستعفی ہو کر قصرِ صدارت چھوڑنا پڑا۔ مشرف آمریت نے بھی پیمرا آرڈیننس کے ذریعے پریس کی زبان بندی کے ذریعے صحافت کو جھکانا چا ہا۔ جو ماضی کے آمرانہ ادوار کا تسلسل تھا۔ مگر میڈیا اور وکلاء نے ایک دوسرے شانہ بشانہ کھڑا ہوکر مشرف کو بھاگنے پر مجبور کر دیا آج رانا ثناء اللہ کا فرمان شاہی ہے کہ اداروں کے احترام اور میڈیا کی آزادی کیلئے پنجاب اسمبلی میں قرار داد لانے کو تیار ہیں مگر رانا صاحب اُس وقت بھی پنجاب میں قانون کی کرسی پر متمکن تھے پنجاب اسمبلی میں پنجاب حکومت کے ہی ایک رکن اسمبلی ثناء اللہ مستی خیل کی طرف سے میڈیا کے خلاف منظور کی جانے والی قرار داد سول آمریت کی خواہش کا اظہار ہے۔
Sbhaz Sharif
میاں شبہاز شریف جو کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے نا صرف قائد ہیں بلکہ وزیراعلیٰ بھی تھے اور پہلی بار یہ ضرب المثل اپنی حقیقی شکل میں نظر آئی کہ جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے۔ میاں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ انہیں اس قرار داد کا علم ہی نہیں ۔پھر یہ کیسے ہوگیا کہ ان کے ہاتھ پر جس ن لیگ کے رکن اسمبلی نے وفاداری کی بیعت کی۔ اُسی رکن اسمبلی نے ان کی موجودگی میں یہ قرار داد منظور کرائی۔ اور جب اس قرار داد کا متن پنجاب اسمبلی میں پیش کیا جارہا تھا۔ تو شہباز شریف چونکہ وہاں موجود تھے کیا انہوں نے کھڑے ہو کر اس کی مخالفت یا مذمت کی۔ پھر سانپ گزرنے کے بعد اس کی لکیر پیٹ کر میڈیا کے سامنے سچائی کا ڈرامہ کھیلا گیا۔
ڈیڑھ ماہ قبل ایک صحافی دوست نے کہا تھا کہ عوام یا میڈیا اگر موجودہ فرسودہ نظام کے خلاف اپنے اندر سے کوئی صالح قیادت چاہتے ہیں تو اُ س قیادت کی آمد تک زرداری کو برداشت کیا جائے۔کیونکہ میاں برادران آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا کی کسی طرح بھی قبولیت نہیں چاہیں گے یہ بات آج سچ ہے کہ میڈیا جہاں وطن عزیز میں موجودہ فرسودہ نظام اور اس کے محافظوں کے خلاف تبدیلی کی ایک بڑی علامت بن کر سامنے آیا ہے و ہاں ایک ادارے نے میڈیا کو جس طرح بدنام کیا وہ تاریخ کی بدترین مثال رہے گی اظہار و اشاعت کی آزادی انتہائی اور بنیادی نوعیت کی آزادیوں میں شامل ہے یہ محض صحافتی آزادیاں نہیں بلکہ عوامی حق ہے جسے کسی بھی آمر کو چھیننے کا کوئی اختیار نہیں۔
صحافیوں کو ہتھ کڑیوں گرفتاریوں اور جیلوں سے ڈرانا اب ممکن نہیں رہا۔ عوام کو با خبر رکھنے کی جس آواز کا گلا حکومتی ایوانوں شاہرات اور بازاروں میں گھسی پٹی اور مضحکہ خیز قرار دادوں مقدمات اور جیلوں میں لاٹھی گولی کے ذریعے گھونٹنے کی ناکام کائوشیں کی گئیں اُس آواز نے ہمیشہ مٹنے کی بجائے آمریت کے ایوانوں میں گھس کر ان کی رخصتی کو یقینی بنا دیا یقینا ماضی میں پنجاب حکومت کے ایک حکومتی رکن کی طرف سے میڈیا کے خلاف قرار داد کی منظوری مفتو ح صحافت کی ناکام خواہش کا تسلسل تھا۔ یہ ابراہیم لنکن کا دور نہیں۔ یہ ابلاغیات کا دور ہے جس کی جدید تکنیک اور ضرورت نے ہر ایک سے اپنی طاقت تسلیم کرائی۔ ابلاغیات خصوصاً الیکٹرانک میڈیا نے نئے معاشی نظام کو متعارف کرایا۔ مشرف کی رخصتی کے بعد سیاسی انقلاب کی راہ ہموار کی۔ اور میاں برادران کی وطن واپسی ممکن ہوسکی۔ یہ میڈیا ہی ہے جس نے عدلیہ کی آزادی کی تحریک کوشعلے دئیے استعماری گرفت کو توڑا اور انقلابی شعور کے نئے جزیرے دریافت کییاور یہ آزادی کسی رانا ثنا ئاللہ کی مرہونِ منت نہیں