لگتا یوں ہے کے جیو کے اللہ ولوں برے دن آئے ہوئے ہیں قومی اداروں کے ساتھ چھیڑ خانیاں اپنی جگہ اب مسلمانوں کی عظیم ہستیوں کے بارے میں تضحیکی رویے اپنا لئے گئے ہیں۔ویسے قربان جائیں یہاں بھی جیو نے قربانی کا بکرا ایک اینکر کو بنا دیا ہے حالانکہ اینکر کا رول اتنا نہیں ہوتا جتنا اس پروگرام کا پروڈیسر اور ہدایتکار کا ہوتا ہے۔قوم نے اس بار جیو کی گچی نپ لی ہے اور وہ محترمہ اپنی غلطی کو نادانستہ کہہ کر معافی مانگ رہی ہیں۔ میرے نزدیک یہ عذر گناہ بد تر از گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔
حیران کن بات ہے کہ اسے نادانستہ کہا گیا ہے یہ کیسی نادانستگی ہے کہ جب بارات کے آگے قرآں قصیدہ سنائے سناے جا رہا تھا تو شائستہ واحدی جوتے ہلا رہی تھی۔یہ کیمرہ میں اداکار گانے والے سراہنے والے سب نادانستگی میں اسلامی اکابرین کا مذاق اڑاتے رہے عالم آن لائین کو اب نئی وضاحتیں دینا ہوں گی۔اگر وہ کہتیں کی کہ ہم سے یہ گناہ کبیرہ ہو گیا ہے اور ہم اللہ رب العزت سے معافی مانگتے ہیں تو کوئی بات تھی۔یہاں ریڈرز سے معافی سے زیادہ اللہ تعالی سے گڑ گڑا کر معافی مانگنے کا ذکر ہوتا تو غم و غصے میں کمی آ سکتی تھی۔
اب اللہ نہ کرے اگر عوام میں اشتعال پیدا ہو گیا تو جیو کیا اس کی ذمہ داری بھی عمران خان پر ڈالے گا؟میرے نزدیک ایسا نہیں ہوا جیو اپنے قیام کے دن ہی سے اسلامی شعائر کا مذاق اڑاتا آیا ہے مگر اس کا بھانڈہ اب پھوٹا ہے۔ اس کے علماء کی حالت دیکھئے ۔عامر لیاقت حسین ایک عالم سے زیادہ فنکار لگتے ہیں۔مجھے اچھی طرح یاد ہے جیو پر ایک غامدی صاحب ہوا کرتے تھے وہ اپنے پروگراموں میں آ قائے نامدارحضرت محمد ۖ کی بجائے مسیح موعود کے حوالے دیا کرتے تھے اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ بھی اللہ کے برگزیدہ پیغمبر تھے اور ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوتا جب تک ہم ان پر ایمان نہ لائیں۔
Quran
توریت زبور اور انجیل کے بعد جب قرآن نازل ہوا تو مسلمانوں کے لئے قرآن اور حضور اکرم ۖ کے حوا لے ہی سب سے تگڑے حوالے ہیں۔اس پروگرام میں ایک ناجائز حاملہ خاتون کا ذکر کرتے ہوئے موصوف نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے لایا گیا تو انہوں نے کہا تمہارا کیا خیال ہے میں اسے مار دینے کی بات کروں گا؟ غامدی صاحب کو علم تھا کہ اللہ کے پیارے رسول کی شرعیت کیا کہتی ہے۔ اس بارے میں اسلامی تعزیرات بلکل واضح ہیں اس قسم کے معاملے میں اسلام نے سزائیں مقرر کر رکھی ہیں۔اس چینل نے ہمیں فیملی کے ساتھ بیٹھ کر لطف اندوز ہونے ہی نہیں دیا۔ماں باپ ریموٹ پکڑ کر اور آنکھیں کھول کر ٹی وی لائونج میں بیٹھتے ہیں۔ویسے دوسرے چینل بھی کوئی کوثر و تسنیم سے نہیں دھلے ہوئے ان کا ہاتھ پڑتا ہے۔
تو وہ بھی ٹیکہ لگا جاتے ہیں لیکن جیو نے اسلام دو قومی نظریے کی جس طرح بیخ کنی کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی ۔اس کے اوپر ہمارے ہیں ایسے حکمران آئے جو تھے جذبہ ء جہاد پر بنائی گئی فوج سے تھے مگر ان کی حرکتیں دیکھ کر لگتا تھا کہ اس فوج کو نظر لگ گئی ہے جو اللہ اکبر کے نعروں کے ساتھ شہادت قبول کیا کر تی تھی۔اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ جو شخص کارگل کے اگلے مورچوں میں اپنے جوانوں کے ساتھ رات گزار آیا تھاوہ چک شہزاد سے بھاگم بھاگ ملٹری ہسپتا ل پہنچ گیا۔شکر خدا کا حامد میر کے واقعے نے اس مرد مجاہد کے تذکرے بھلا دیے جو ڈرتا ورتاا تو کسی سے نہیں تھا مگراسے لکھنوی بانکے کی طرح سردی سے نہیں کپکپی سے ڈر لگتا تھا جیو کا تازہ واقعہ اس بات کی گواہی ہے کہ وہ باز نہیں آئے گا۔
پیمرا ،جس نے دو رخی اپنا رکھی ہے اسے اس بات کانوٹس لینا چاہئے اور جیو کی تمام دنیا کے مسلمانوں کی دل آزاری کرنے پر سخت اقدام کرنا چاہئیے ۔ اس سے پہلے پنجاب کے گورنر اسی قسم کے واقعے کے رد عمل میں مار دیے گئے تھے۔اللہ نہ کرے اس قسم کا کوئی سانحہ ہو۔مگر خدا کا خوف بھی کوئی چیز ہے کہاں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور وینا ملک کا شوہر اور حضرت فاطمہ رضی تعالی عنہا اور وینا ملک۔پوری قوم میں اس وقت ہیجان کی کیفیت ہے اور لوگ چاہتے ہیں کہ جیو کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔یوں تو ہمارے آئین کو اسلامی کہا جاتا ہے لیکن اس آئین میںشان صحابہ کے دفاع کی کوئی شق نہیں ہے۔اسی وجہ سے لوگ قانون کو ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور جب مذہبی شدت پسندی سامنے آتی ہے تو توہین رسالت کے قانون کے خاتمے کی بات کی جاتی ہے۔ یہ نہیں کیا جاتا کہ جو قانون بنا ہے۔
اس کو استعمال میں لایا جائے۔اس موقع پر پوری قوم تمام صحابہ ء کرام امہات المسلمین کی توہین کو قابل گردن زنی قرار دینے کا مطالبہ کرتی ہے اور جیو کے خلاف سخت ایکشن کا مطالبہ بھی۔ یاد رکھئے پاکستانی اپنی اقدار کے خلاف کچھ سننا پسند نہیں کریں گے یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے بڑی تعداد میں جنگ جیو کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔اس فاش غلطی کی سزا کیا ہو گی؟قوم اس وینا ملک کے ساتھ کیا کرنے جا رہی ہے جس نے اپنے جسم پر آئی ایس آئی کے ٹیٹو بنا کر اس پاکستانی ایجینسی کا دشمن ملک انڈیا میں مزاق اڑوایا۔جیو کا صحافی بنی گالہ میں بد تمیزیاں کرتا نظر آیا۔یہ سب کیا ہے کرائے اور بھاڑے کے ٹٹوئوں کو چارہ کھانا ہے وہ انہیں کہیں اور سے بھی مل سکتا ہے۔ صحافت کسی زمانے میں شائستگی کا نام ہے مگر افسوس کے شائستہ کے ہاتھوں شائستگی اپنی موت آپ مر چکی ہے۔