16 مئی 2014 کی صبح ہندوستانی سیاست کی ایک اہم صبح تھی۔ گرچہ اس صبح کا سبھی کو انتظار تھا لیکن ملک کی دو اہم سیاسی جماعتوں میں برسر اقتدار کانگریس اوراس کی حریف بھارتی جنتا پارٹی کا انتظار کچھ مخصوص ہی انداز کا تھا۔ سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا تھا کہ چونکہ اس مرتبہ کانگریس ایک بڑی ناکامی کا سامنا کرنے جا رہی ہے لہذا دوسروں کے مقابلہ وہ زیادہ فکر مند ہے۔ تو وہیں بھارتی جنتا پارٹی اور اس کے قائم کردہ محاذ این ڈی اے کے لوگ گزشتہ پارلیمانی نتائج کے مقابلہ اس مرتبہ خود کو زیادہ بہتر محسوس کر رہے تھے۔
اس خوشی اور فکر مندی کے پس پردہ ہندوستانی سیاست کی وہ خاموش تبدیلی تھی جس کا انتظارشاید کہ ایک طویل عرصہ سے کیا جا رہا تھا۔ 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں ووٹروں کی تعداد 81 کروڑ سے زیادہ (کل81,45,91,184) تھی جو یورپی یونین کی پوری آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ 10 اپریل 2014 کو دہلی و دیگر ریاستوں میں پہلے مرحلے کے ووٹنگ کا آغاز ہواتھا جسے کل 9 مرحلوں میں 12 مئی 2014 کو مکمل کیا گیا۔اس پورے عمل میں الیکشن کمیشن کے مطابق سب سے زیاد ہ 66.38% فیصد ووٹنگ ہوئی۔یہ وہ ریکارڈ ہے جو 1984 میں اُس وقت کے وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہونے والی 64 %فیصد ووٹنگ کا ریکارڈ ٹوٹنے کی شکل میں سامنے آیا۔الیکشن کمیشن ہی کے مطابق اس بار کل 55.1 کروڑ ووٹروں نے ووٹ ڈالا جو 2009 کے پارلیمانی انتخابات کے مقابلے32%فیصد زیادہ ہے۔
یہ انتخابات اس لحاظ سے بھی اہم تھے کہ اس مرتبہ 2,31,61 , 296 ووٹر 18 سے 19 سال کی عمر کے تھے، جن میں 58.6% فیصد مرد جبک 41.4% فیصد خواتین ووٹرز رہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق انتخابی نتائج کی کنجی ان ہی نئے ووٹروں کے ہاتھ میں تھی۔بڑی ریاستوں میں اس مرتبہ مغربی بنگال (81.8%فیصد)، اڈیشا(74.4%فیصد) اور آندھرا پردیش بالترتیب سب سے زیادہ ووٹ ڈالے گئے۔اسی کے ساتھ اترپردیش میں58.6% فیصد جبکہ بہار میں 56.5 %فیصد پولنگ عمل میں آئی۔ حکومت ہند نے اس بار انتخابات پر کل 3426کروڑ روپے خرچ کیے جو 2009 کے 1483 کروڑ روپے کے مقابلے% 131 فیصد زیادہ ہے۔
16 مئی 2014 کی صبح سے ووٹنگ کے نتائج سامنے آنے شروع ہوئے تو تقریباً تین ہی گھنٹوں میں نظروں پر چھائے دھندلکے صاف ہونے لگے۔وہ تمام ایگزٹ پولز جن کو عام طور پر نہ صرف عوام بلکہ سیاسی دوڑ میں موجود پارٹیاں بھی غلط بتا رہی تھیں، سچ ہوتے نظر آنے لگے۔اور شام تک تقریباً تمام ہی دعوے غلط ثابت ہو گئے۔ کانگریس پارٹی اور اس کی اتحادی پارٹیوں کو غیر متوقع ناکامی سامنے آئی تو وہیں وہ تیسرامحاذ جو گرچہ باقاعدہ محاذ کی شکل اختیار نہ کرسکا تھا،کل نتائج آنے سے قبل ہی ڈھیر ہو گیا۔اترپردیش میں برسراقتدار “سماج وادی پارٹی “کو بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو وہیں دوسری طبقاتی کشمکش پر منحصر” بہوجن سماج پارٹی “کی شکست فاش ہوئی ۔بہار میں برسراقتدار”جنتا دل یونائٹیڈ”کو پارلیمنٹ کی ایک بھی سیٹ حاصل نہ ہو سکی۔
تو وہیں دوسری جانب “راشٹریہ جنتا دل”جس توقع کے ساتھ مصروف عمل تھی، وہ ناکام ٹھہری۔ملک کی سب سے بڑی پارٹی “کانگریس آئی “کے بھی بری طرح قدم ڈگمگائے۔نوبت یہاں تک آئی کہ پورے ہندوستان سے پارلیمنٹ کی کل 44سیٹیں ہی مل سکیں۔جبکہ اس پارٹی کی تاریخ کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ابھرا کہ حزب اختلاف (apposition)کی لیڈر شب بھی ہاتھ سے چلی گئی۔دہلی ، راجستھان اور گجرات میں بی جے پی کو کل سیٹیں (100%)حاصل ہوئیں ۔تو وہیں اترپردیش میں 80 میں سے 73 اور بہار میں 40 میں سے 31سیٹیں جیت کر پارٹی نے کامیابی کا جشن منایا۔
BJP
انتہا یہ کہ ان مقامات پر جہاں بی جے پی نے آج تک کوئی ایک سیٹ بھی نہیں حاصل کی تھی ،ایسے دو مقامات مغربی بنگال اور تمل ناڈو میں بھی پارٹی کو ایک ایک سیٹ حاصل ہو گئی۔ بی جے پی کو 2014 کے پارلیمانی الیکشن میں 282سیٹیں ملیں تو وہیںان کے اتحاد این ڈی اے کو 334 سیٹیں حاصل ہوئیں۔سیاسی بساط پر پھیلے اس پورے کھیل میں اگر عام آدمی پارٹی کو نظر انداز کیا جائے تو بات ہی پوری نہ ہو سکے گی۔ملک کی راجدھانی دہلی سے اپنی پہنچا ن بنانے والی اس پارٹی نے دہلی میں تو کوئی سیٹ حاصل نہیں کی البتہپنجاب سے 4سیٹیں جیت لوگوں کو حیران کر دیا۔
16 مئی 2014 کے نتائج کے بعد جب کہ یہ محسوس کیا جانے لگا کہ بنا گٹھ جوڑ اب بھارتی جنتا پارٹی کی حکومت بننا طے ہے تو امریکہ کے صدر براک اوباما نے متوقع وزیر اعظم نریندر مودی کو عام انتخابات میں ان کی جماعت کی کامیابی پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے امریکہ آنے کی دعوت دی ۔’وہائٹ ہائوس’سے جاری بیان کے مطاب ق امریکی صدر نے امید ظاہر کی کہ ہندوستان اور امریکہ کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے وہ اور مودی مستقبل میں مل کر کام کریں گے۔قبل ازیں وہائٹ ہائوس کے ترجمان نے نریندر مودی کو ان کی جماعت کی عام انتخابات میں شاندار کامیابی پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر مودی کو امریکہ آنا ہو تو انہیں ویزہ جاری کردیا جائے گا۔
خیال رہے کہ 2002 میں گجرات میں ہونے والے مسلم مخالف فسادات میں نریندر مودی کے مبیہ متنازع کردار پر امریکہ نے2005میں انہیں ویزہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ان فسادات میں لگ بھگ ایک ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے ۔مودی پر الزام لگتا رہا ہے کہ انہوں نے بطور وزیر اعلیٰ گجرات ان فسادات کی روک تھام میں غفلت برتی تھی اور فسادیوں کی بلواسطہ حوصلہ افزائی کی تھی۔ نریندر مودی کے خلاف ان الزامات کا چرچہ حالیہ پارلیمانی انتخابات کے دوران بھی رہا تھا۔ لیکن مودی ہمیشہ ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔ترجمان کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں نئی حکومت کے قیام کے بعد امریکہ نو منتخب وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے ساتھ قریبی تعاون برقرار رکھنے کا خواہاں ہے تاکہ دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط اور مستحکم کیا جا سکے۔
وہیں دوسری جانب نواز شریف نے بھی نریندر مودی کی کامیابی کے بعد ٹیلی فون پر انہیں مبارکباد دیتے ہوئے پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ماضی میں دس برس تک ہندوستان کا وزیر اعظم رہنے والے من موہن سنگھ بار بار دعوت کے باوجود شاید رائے عامہ کے خوف کی وجہ سے پاکستا ن کا دورہ نہیں کر سکے ہیں۔ لیکن قیاس کیا جا رہا ہے کہ مودی پاکستان کا دورہ کر سکتے ہیں۔سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان میں دائیں بازو کی حکومتیں ہی دونوں ملکوں کے درمیان کوئی معاہدہ کروانے کی کوشش کر سکتی ہیں۔اس سلسلہ میں 1999کی بس ڈپلومیسی کا حوالہ دیا جاتا ہے جب بی جے پی کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے لاہور کا دورہ کیا تھا اور اس وقت بھی پاکستان میں نواز شریف ہی وزیر اعظم تھے۔
Election
فی الوقت ہندوستانی سیاست میں بڑی ہل چل مچی ہوئی ہے۔ اور بی جے پی کی نمایاں کامیابی کا راز جاننے کا شاید ہر وہ شخص ،طبقہ اور گروہ خواہش مند ہے جو اپنی تمام کوششوں کے باوجود الیکشن میں بری طرح سے ناکام ہوا ہے۔اس میں چند باتیں تو عیاں ہیں جس میں اولذکر میڈیا کا مشکوک کردار ہے تو وہیںدولت کا لامحدود استعمال۔ لیکن اس کے علاوہ بھی ناکامی کا سامنا کرنے والی پارٹیوں و دیگر سیکولر طبقات کو ان باتوں کے جاننے کا اشتیاق ہے جنھوں نے بی ایس پی اور لیفٹ جیسی کیڈر بیس پارٹیوں کا 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں نتائج کے اعتبار سے بالکل ہی خاتمہ کر دیا ہے ۔وہیں متفکر وہ بھی ہیں جنہوں نے بڑے طمطراق کے ساتھ”نیتا جی”کو بطوروزیر اعظم پیش کیا تھا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ جس طرح بہار میں یونائٹیڈ جنتا دل کے چیف منسٹرنے استفا دیا اور اس کے بعد سابقہ خاندانی سیاست کے ماہرین یک جٹ ہونے کی بات کر رہے ہیں۔کیا اس طرح کی مثالیں مزید قائم ہوں گی؟ ہمارے خیال میں سیاسی بساط پر قیاس آرائیوں سے بہتر ہے کہ ذرا ایک لمحہ ٹھہر کر انتظار ہی کر لیا جائے۔
تحریر: محمد آصف اقبال، نئی دہلی maiqbaldelhi@gmail.com maiqbaldelhi.blogspot.com