بچپن میں مئی کا مہینہ آتے ہی لوگوں میں بے چینی اور کاروباری حضرات میں جیسے بجلیاںسی بھر جاتی تھیں۔ عام آدمی کے دل میں اندیشے ، وسوسے اور طرح طرح کی سوچیں گھر کر جاتیں کہ نیا بجٹ آنے کو ہے اب کیا بنے گا ،کس کس چیز پر ٹیکس لگے گا کون سی اشیاء سستی ہوں گی۔ غریب دعائیں ما نگتے الہی مزید مہنگائی نہ ہو۔ کاروباری لوگ آپس میں بحث مباحثہ کرتے۔ ان کے درمیان شرطیں لگتیں کہ فلاں چیز کے دام بڑھیں گے فلاں سستی ہو جائے گی بڑے د کاندار قیمتیں بڑھنے کے پیش ِ نظر متعدد اشیاء کا حسب ِ استطاعت سٹاک کرلیتے، مارکیٹ میں وہ چیزیں غائب ہو جاتیںجس سے ان کی قیمتوں میںمصنوئی تیزی آ جاتی
لوگ مہنگی چیزیں خریدتے وقت انتظامیہ اور دکاندار دونوں کو کوستے رہتے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا بڑے د کاندار، سٹاکسٹ یا زیادہ سیانے جن اشیاء کو مہنگا بیچنے کیلئے ذخیرہ اندوزی کرتے وہ بجٹ میں سستی ہو جاتیں اور ان کے لاکھوں ڈوب جاتے، کسی سال کوئی چیز غیر متوقع طورپر مہنگی ہو جانے سے کاروباری حضرات کے وارے نیارے ہو جاتے کبھی یہ بھی سننے میں آتا ایک شخص نے سگریٹ، اجناس اور ڈیزل ، پٹرول کا سٹاک کیا تھا
راتوں رات اسے لاکھوں کا فائدہ ہو گیا۔ ان دنوں بجٹ واقغی بجٹ ہوتا تھا جس کے کھڑاک گلی گلی کوچے کوچے ہوا کرتے تھے اب تو حکومت بجٹ کا تو تکلف ہی کرتی ہے ورنہ پتہ ہی نہیں چلتا کب بجٹ آیا کب گیا؟ نئے مالی سال کا آغاہو یا معمول کے حالات گرانی ہے کہ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے حسب ِ معمول اس مرتبہ پھر کہا جارہاہے کہ متوقع بجٹ میںکوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جارہا عوام پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا پاکستان کا ہر وزیر خرانہ ہر سال غریب عوام کو خوش کرنے کیلئے ایسے ہی دعوے، ایسے ہی وعدے کرتاہے
تیرے وعدے پر جئے تو یہ جان جھوٹ جانا ہم خوشی سے مر نہ جاتے،گر اعتبار ہوتا
Ishaq Dar
جناب اسحاق ڈار صاحب ایسی باتیں نہ کریں غریبوں کو تو پہلے ہی مہنگائی نے مار کھاہے اب آپ خوشی سے مارنا چاہتے ہیں آپ تو اچھے بھلے ہوا کرتے تھے کب سے عوام کے دشمن بن گئے؟پاکستان جیسے ملک میں بجٹ کو کوئی خوفناک چیز سمجھا جاتاہے یہ جب بھی آتاہے ملک میں مہنگائی کا ایک نیا طوفان امڈ آتاہے اب تو بجٹ اعدادو شمارکا گورکھ دھندا اور الفاظ کی جادو گری کا نام ہے اکثر وزیر ِ خرانہ جب بجٹ پیش کررہے ہوتے ہیں انہیں خود اندازہ نہیں ہوتاوہ کیا کہہ رہے ہیں۔۔
جب سے حکومت نے اداروں اور محکموں کو خود مختار بنایا ہے انہیں شتربے مہار آزادی مل کئی ہے ان کا بااثر لوگوں پر تو کوئی زور نہیں چلتا لیکن انہوںنے غریبوں کا جینا ضرور مشکل کر دیا ہے وہ سارا سال مختلف حیلوں بہانوں سے اپنے سروسز چارجز بڑھاتے رہتے ہیں جیسے سوئی گیس کے گھریلو ارجنٹ کنکشن کی سیکورٹی فیس 35000 مقرر کردی گئی ہے دوسرا 25 -20 پہلے کنکشن لگوانے والوں سے پھر سیکورٹی کے نام پر پیسے بٹورے جارہے ہیں اور کوئی پوچھنے والا تک نہیں ، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اور بجلی کے نرخ تو ایک ماہ میں دو دو بار بڑھا دیئے جاتے ہیں عوام کی بدقسمتی یہ ہے
کہ حکومت ، بڑے بڑے سیاستدانوں حتی کہ اپوزیشن رہنمائوں نے بھی عوام کی طرف آنکھیں بند کرلی ہیں۔ جب بھی بجٹ آتا ہے ناقدین، اپوزیشن اور حکومت مخالف رہنمائوں کو سستی شہرت حاصل کرنے ، دل کا غبار نکالنے یا بیان بازی کا ایک بہانہ میسر آ جاتاہے بجٹ کے حقیقی خدو خال پر کوئی غور کرنا پسند ہی نہیں کرتا اس ملک میں ہر روز منی بجٹ آتاہے ، ہرروز چیزوں کے نئے ریٹ عوام کا منہ چڑارہے ہوتے ہیں بنیادی طور پر اس کی ذمہ دار حکومت ہے جس کی کسی بھی معاملہ پر گرپ نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اب چھوٹے چھوٹے گروپ بھی حکومتی رٹ کیلئے چیلنج بن گئے ہیں اس ماحول میں بجٹ کا رونا کوئی کب تک سنتا رہے
جب سے حکومت نے ہر 15 دنوں بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں مقررکرنے کی نئی حکمت ِ عملی وضح کی ہے مہینے میں دو بار مہنگائی کی نئی لہر جنم لیتی ہے اوراس کی آڑ میں گراں فروشوں کو چیزیں مہنگی کرنے سے کون روک سکتا ہے؟ روزانہ کی بنیاد پر بڑھنے والی مہنگائی اور پے در پے منی بجٹ سے گھر گھر لڑائی جھگڑے معمول بن گئے ہیں ان حالات میں وزیر ِ خرانہ کا صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ نئے بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جارہا عوام پر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا دعوے کو حقیقت بنانے کیلئے کچھ نا گزیر اقدامات کرنا پڑتے ہیں کچھ بے رحم فیصلے بھی۔ اس کیلئے ماحول کو سازگار بنانا بھی حکومتی ذمہ داری ہے
عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دینے والی پالیسی زیادہ دیر تک نہیں چل سکتی بجٹ کی اہمیت اور افادیت تواس صورت ہی ممکن ہے کہ حکومت بالخصوص کھانے پینے اشیائ، ہر قسم کی یوٹیلٹی سروسز، ادویات کی قیمتیں الغرض ہر چیز کے نرخوں کا تعین ایک سال کیلئے مقرر کرے،کسی ادارے، محکمے یا نیشنل، ملٹی نیشنل کمپنی کو ایک سال سے پہلے قیمت بڑھانے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے اس پر سختی سے عمل کروایا جائے تو نہ صرف ملکی معیشت مستحکم ہونے میں مدد ملے گی بلکہ غریب عوام بھی سکھ کا سانس لے گی ورنہ اس سے بہتر یہ ہے کہ حکومت ہر سال بجٹ پیش کرنے کا تکلف ہی نہ کرے تو وزیر ِ خرانہ کئی کڑوے کسیلے سوالات سے بچ سکتے ہیں عوام ہرسال حکومت سے امید کرتے ہیں کہ اب کی بار بجٹ میں اعدادو شمارکا گورکھ دھندا اور الفاظ کی جادو گری نہیں ہوگی غریبوںکی فلاح کیلئے حقیقی اقدامات کئے جائیں گے۔۔ ایسا بجٹ آئیگا جس سے عام آدمی کو ریلیف ملے گا ہم دعا گو ہیں کہ اللہ کرے ایسا ہی ہو ورنہ عوام میاں نوازشریف سے یہ کہنے میں حق بجانب ہوںگے
بیزار یوں ہوئے کہ تیرے عہد میں ہمیں سب کچھ ملا،سکون کی دولت نہیں ملی