اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم کورٹ نے قومی خزانے کے غلط استعمال اور قدرتی وسائل پر رائلٹی کے حوالے سے درخواستوں کی سماعت 28 مئی تک ملتوی کرتے ہوئے وفاق اور صوبوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے جوابات قواعد کے مطابق جمع کروائیں۔
جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وفاق اور صوبائی حکومتیں عوامی پیسہ کے لئے ٹرسٹی کی حیثیت رکھتی ہیں، قومی خزانے کو افسران کے لئے پُرتعیش اقدامات پر خرچ نہیں کیا جاسکتا، ملک میں اچھے اور ایماندار لوگوں کا قحط نہیں، جب انتظامیہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتی تو تبھی معاملات عدالتوں میں آتے ہیں، جب تک عدالتی حکم پر عملدرآمد نہیں ہو گا مقدمہ کونہیں نمٹایا جائے گا۔
آرٹیکل 14,9 اور 38 پر عملدرآمد ریاست کی آئینی و قانونی ذمہ داری ہے، عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ ہونا تکلیف کا باعث ہے۔ پیر کو جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ اس دوران اٹارنی جنرل پاکستان اور تمام صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرل پیش ہوئے اور اپنے اپنے صوبو ں کی رپورٹس براہ راست جمع کروانے کی کوشش کی تو عدالت نے کہا کہ ان کو مناسب طریقے سے جمع کروائیں، حکومت پنجاب نے بتایا کہ اس نے بہت سے عوامی مفاد کے منصوبے شروع کئے ہیں۔
جبکہ سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان حکومت نے عدالت کو بتایا کہ قومی خزانے کے استعمال کے حوالے سے تین صوبوں نے گائیڈ لائن مرتب کرلی ہیں، صرف پنجاب نے مرتب نہیں کی ہیں۔ اس پر سپریم کورٹ نے کہا کہ ان کی تفصیلات عدالت کو بتائی جائیں۔
سپریم کورٹ نے قومی خزانے کے غلط استعمال اور قدرتی وسائل پر رائلٹی کے حوالے سے عبدالحکیم کھوسہ، عبدالغفور اور دیگر شہریوں کی درخواستوں کی سماعت 28 مئی تک ملتوی کرتے ہوئے وفاق اورصوبوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے جوابات قواعد کے مطابق جمع کروائیں۔