اجمل قصاب پھر خبروں میں ہے لیکن میں اس کے بارے بہت کچھ لکھنے والے جناب حامد میر کے بارے میںکچھ لکھنا تو نہیں چاہتا تھا کہ وہ بستر علالت پر تھے۔ مجبور اس لئے ہو ا کہ موصوف ”چھ گولیاں ”کھانے کے بعد بھی نہ صرف کالم لکھتے رہے بلکہ اپنے خیالات و جذبات کااظہار بھی بھر پور طریقے سے کر رہے ہیں۔آج جب وہ میڈیا کے سامنے آئے تو منظر حیران کن تھا۔موصوف نے لکھا تھا کہ گولیوں نے ان کا کندھا اور ٹانگیں چیر دی تھیں لیکن آج وہ نہ صرف اسی کندھے والا ہاتھ ہلا رہے تھے بلکہ اپنی ٹانگوں پر بھی کھڑے تھے البتہ پٹی شرٹ کے اوپر پیٹ پر باندھ رکھی تھی جس پر سبھی حیران رہ گئے۔بہر حال جب سے اجمل قصاب کے بارے میں یہ خبر آئی کہ وہ نہ صرف زندہ ہے بلکہ اپنے گائوں فرید کوٹ میں بھی موجود ہے تورہ نہ گیا۔
جناب حامد میر گاہے گاہے ممبئی حملوں اور اس حوالے سے اجمل قصاب کا بارہا تذکرہ کرتے رہے ہیں ۔اس حوالے سے انہوں نے سب سے تفصیلی کالم 11فروری 2013کو لکھا تھا ۔موصوف نے کالم کاعنوان باندھا تھا”لاش کی جیت” اور اس تین شخصیات پرمیں بحث کی ۔اولاً افضل گورو ‘ ثانیاً اجمل قصاب اور ثالثاً جنرل محمد ضیاء الحق …کالم میں انہوں نے ہرجگہ افضل گورو کانام”گرو” لکھا تھا،حالانکہ گورو اور گرو میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ گوروکشمیریوں کی ایک قوم کانام جبکہ گرو سکھوں کے مذہبی پیشواؤں کانام ہے۔آگے چل کرلکھا تھا کہ ”اجمل قصاب ایک عام پاکستانی تھا۔اس نے ممبئی کے ایک فائیوسٹارہوٹل پرحملہ کیا جس میں بے گناہ لوگ مارے گئے۔ اجمل قصاب کو ایک عام سے ڈنڈا بردار پولیس والے نے آسانی سے پکڑلیاتھا۔”
اس حوالے سے عرض یہ ہے کہ ہمیں توپتہ نہیں کہ اجمل کون تھا؟لیکن جو بھارت نے کہااور جو سامنے آیااس کے مطابق ۔پہلی بات، بھارت خود آج تک ثابت نہیں کرسکا کہ اجمل قصاب پاکستانی تھا۔ممبئی حملوں کاسارا ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیجئے ۔بھارت تو اجمل کیکسی ایک نام کا فیصلہ تک نہیں کرسکا تھا ۔اجمل کے بھارتی اداروں کی جانب سے ظاہرکیے گئے گیارہ مختلف نام آج بھی دنیاکے سامنے ہیں تو پھر اس کے پاکستانی ہونے کادعویٰ کس طرح سچاہوسکتاتھا؟دوسرا بھارت کی اپنی باربارتبدیل شدہ معلومات کے مطابق بھی اجمل ہوٹل پرحملہ کرنے والوں میں شامل ہی نہیں تھا۔ اس نے بھارتی حکام کے بقول پہلے چترپتی شیواجی ریلوے سٹیشن پرحملہ کیااور پھر وہاں سے اس نے اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ کاماہسپتال کی جانب رخ کیا۔ اس کے لیے انہوں نے پولیس سے چھینی گاڑی استعمال کی۔ کاماہسپتال کے باہر اس کے ہاتھوں بھارت کے مایہ ناز ترین پولیس افسران مارے گئے۔
ہلاک شدگان میں ریاست مہاراشٹرکے انسداد دہشت گردی سکواڈ کاسربراہ ہیمنت کرکرے’انکاؤنٹر سپیشلسٹ وجے سالسکر’ ایڈیشنل کمشنر ممبئی پولیس اشوک کامٹے شامل تھے۔ ظاہرہے اتنے بڑے افسران تن تنہا تونہیں ہوں گے ‘ان کے ساتھ سکیورٹی کا بہت بڑا سکواڈ اور حصار تولازمی تھا۔ جسے اجمل نے ٹھیک ٹھیک نشانہ بناکرمارگرایا اور پھران ہی کی گاڑی میں ان کے دومحافظوں کو زندہ پکڑ کر آگے نکلے کہ راستے میں گاڑی کاٹائر پنکچر ہوگیا۔اس پر انہوں نے وہیں سڑک کنارے کھڑی کارپہ قبضہ کیااور اس پر آگے چلے ۔ممبئی پولیس نے اس دوران ہرطرف سخت ناکے لگا دیئے تھے۔
یو ںان کاآخری بارپولیس کے ایک بڑے دستے سے ایک ناکے پرسامنا ہواجہاں دونوں طرف سے فائرنگ ہوئی۔ فائرنگ میںاجمل کاساتھی چل بسااور اجمل 3گولیاں کھاکر گر پڑا۔لاٹھی برداراہلکار جس نام تکارام اومبلے تھا، اسے نیم بے ہوشی کے عالم میں اجمل نے نشانہ بنایاتھااور وہ وہیں ہلاک ہواتھا۔ جسے بھارت نے سب سے بڑاایوارڈ ”اشوک چکرا” دیاتھا۔
شروع شروع میں جاری کردہ بھارتی ذرائع کے اپنے بقول اجمل کو 3فائر لگے تھے۔ ایک ٹھوڑی پر’دوسرا بازواورتیسراٹانگ میں… اورزیادہ خون بہنے سے وہ بے ہوش ہوا۔ بھارتی پولیس اسے ڈیڈسمجھ کرمردہ خانے لے گئی تھی لیکن 2سے 3گھنٹوں کے بعداس نے حرکت کی تو پھر اس کا علاج شروع ہوا۔
اس سے قطع نظرکہ ممبئی حملے درست تھے یا غلط کہ یہ ہمارا موضوع نہیں۔ساری دنیاکے جنگی ماہرین اورعسکری ادارے ان حملوں کے کرداروں کی مہارت ‘بہادری’جرأت پر آج تک حیران ہیں۔ ان حملوں کے بعدساری دنیانے اپنا دفاعی نظام نئے سرے سے ترتیب دیناشروع کیااوربھارت کواس قدرمعاشی نقصان ہوا اور ہورہاہے کہ آج تک کی ساری جنگوں سے زیادہہے ۔بھارت آج تک ان حملوں کے خوف سے نکل نہیں پایا۔رہامسئلہ اجمل سے ہمدردی کا…تو پاکستان میں اس کے بڑے جنازہ کو توچھوڑیئے’ مقبوضہ کشمیر میں قائدکشمیر سید علی گیلانی نے اجمل قصاب کے لیے خود غائبانہ جنازہ پڑھنے کی ہدایت کی کیونکہ وہ نظر بند تھے۔
Kashmir
ان کی اپیل پر مقبوضہ کشمیر میں جگہ جگہ اجمل کی غائبانہ نماز جنازہ اداکی گئی۔اب رہا مسئلہ تدفین کا…ہمارا سوال ہے کہ ”مولوی صاحب کے ذریعہ تدفین” کی بات کب اور کس نے کی اور وہ مولوی صاحب کون تھے…؟ بھارت میں اگر اس قدرجرأت تھی تواسے چاہئے تھا کہ وہ اجمل کو پھانسی اعلانیہ کر دیتا اور پھر لاش پاکستانی سفارتخانے کے حوالے کرتا کیونکہ حکومت پاکستان نے تسلیم کیاتھا کہ اجمل قصاب پاکستانی تھا۔ اس کے بعد اب یہ حکومت پاکستان کافرض تھا کہ اگراس نے اجمل کو پاکستانی تسلیم کیا ہے تواس کی مکمل شناخت کر کے اس کی لاش اس کے علاقے اوراس کے لواحقین تک پہنچاتی۔
جس طرح بھارت سے آنے والے قیدیوں سے ہوتاہے۔ انہیں بھی تو ا بہت دفعہ مانگنے’ لینے اور طلب کرنے والا کوئی نہیں ہوتالیکن انہیں پاکستان کے حوالے توکیاجاتاہے اورہاں اجمل کی لاش دینے والابھارت اگر سچاہے تومقبول بٹ اور افضل گورو کی لاش کیوں نہیں دیتا…؟اجمل کاجوگاؤں بتایاگیاتھا’ وہاں آج بھی کوئی یہ نہیں مانتا کہ اجمل وہاں کارہنے والاتھا۔ اگریہ سچ تھا توآج تک اس اجمل کے لواحقین ورشتہ دار کہاں ہیں جس کے پاکستانی ہونے کا دعویٰ پہلے بھارت اور اس کے بعد پاکستان میںجیو ٹی وی نے اپنے تاریخ ساز تحقیقاتی معرکے میں کیا تھا۔ اجمل کو پاکستانی تسلیم کرنے والے رحمن ملک نے لاش وصول کرکے ان تک آخر کیوں نہیں پہنچائی…؟اسے کس نے روکاتھا…؟
ایک اور بات کہنا ضروری ہے کہ اجمل قصاب کاجس طرح نام سامنے لایااور مشہور کیاگیا …اس انداز اور ترتیب سے پاکستان میں بچوں کے نام رکھے ہی نہیں جاتے ۔ ہمارے ہاںشاید ہی کبھی نام کے ساتھ اپنا پیشہ قصاب اس طرح سے لگایاگیا ہوجس طرح اجمل کے ساتھ ”قصاب” نتھی کردیاگیاتھا۔جناب حامد میر نے لکھا تھاکہ اجمل چندتھپڑبھی برداشت نہ کرسکا اور پوری قوم(پاکستان) کے لیے شرمندگی کاباعث بن گیا۔حقیقت یہ ہے کہ اجمل کو تو بھارت حملوں کے کئی روز بعد سامنے لایا تھااورپھرکتنے مہینے بیان بھی بدلے جاتے رہے لیکن کیسے پتہ چلا کہ اجمل کومحض چندتھپڑ ہی پڑے تھے…؟
افضل گورو نے پاکستان کوبدنام نہیں کیا…”یہ درست ہے لیکن یہ بھی یاد رہے کہ آج تک یہ کام کبھی کسی کشمیری نے آج تک نہیں کیاتو آج تک باقی کتنے کشمیریوں نے یہ کیاہے…؟ہم مانتے ہیں کہ کشمیریوں نے کمال وفا کا مظاہرہ کرکے پاکستان کو آج تک بچایاہے اور پاکستانی حکومتوں نے ہمیشہ کشمیرسے بے وفائی کی اور کشمیریوں کو دھوکہ دیا لیکن وہ کبھی حرف شکایت زبان پرکبھی نہیں لاتے۔ سلام ہے کشمیری قوم پر…!!موصوف نے فوج کے بارے میں اپنے بغض کا ہمیشہ کی طرح اظہار کرتے ہوئے اس وقت بھی لکھا تھا کہ ”جنرل ضیاء الحق نے خودمختار کشمیر کی حامی جے کے ایل ایف کی حمایت شروع کردی تھی۔
اس حوالے سے میں اتناکہنا کافی ہے کہجناب کسی کی مخالفت میں اس حدتک نہ جائیے کہ حق پرمکمل پردہ پڑ جائے۔ ساری دنیااور خود ساری کشمیری قوم مانتی ہے کہ موجودہ 27 سال سے جاری مسلح تحریک آزادی کہ جس کابھارت10لاکھ فورسزسے کررہاہے، صرف جنرل ضیاء الحق کی ہی شروع کردہ ہے۔ انہوں نے اس کے لیے جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر سے کام شروع کیا تھااور مولاناسعدالدین جو جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے امیر تھے۔
انہیں جہاد آزادی کے لئے 1984ء میں خصوصی طورپر حج کے بعد پاکستان بلایا تھا۔اس دوران پاکستانی لوگ مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے اور زمینی صورتحال کا جائزہ لیتے رہے۔اسی دوران سکھوںکی تحریک آزادی اور دیگربھارتی تحریکوں نے آعاز و دوام پکڑا۔ جنرل ضیاء الحق کانظریہ یہ تھاکہ جب تک بھارت آخری حد تک کمزور نہیں ہوتا’کشمیر آزاد نہیں ہوسکتا اور اسی نظریے پرانہوں نے کام کیا۔تحریک آزادی سے وابستہ لوگ آج بھی زندہ ہیں اور اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے جو موصوف کے خیالات کی مکمل نفی ہی کرتا ہے۔یہ سطریں بھی محض ریکارڈ کی درستگی کے لئے لکھی گئی ہیں۔ حامد میر کے لئے صحت کی دعا کے ساتھ یہ بھی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیںصرف سچ لکھنے ،سچ بولنے اور ملک و ملت کا دفاع کرنے کی بھی توفیق دے۔