کراچی (جیوڈیسک) وفاق نے جنرل (ر) پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست کی شدید مخالفت کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیاہے کہ سپریم کورٹ کا پرویزمشرف کانام ای سی ایل میں شامل کرنے کاحکم حتمی تھااس لیے انھیں بیرون ملک جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
جسٹس محمدعلی مظہرکی سربراہی میں2رکنی بینچ کے روبرو اٹارنی جنرل سلمان اسلم بٹ نے دلائل دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیاکہ 8اپریل2013کوسپریم کورٹ نے اپنے حکم میں واضح ہدایت دی تھی کہ پرویزمشرف کانام ای سی ایل میں نہیں ہے توفوری طور پر شامل کیاجائے اور جب تک عدالت اس حکم میں ترمیم نہ کرے یہ حکم برقراررہے گا، سپریم کورٹ کے حکم کی زبان واضح ہے جس میں عدالت نے وفاقی وزارت داخلہ سمیت وفاق اوراس کے تمام اداروں کوہدایت کی تھی کہ پرویزمشرف کانام ای سی ایل میں شامل کرنے کویقینی بنائیں،پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ ہے ،اس مقدمے میں انھیں سزائے موت بھی ہوسکتی ہے،ان کا نام ای سی ایل میں شامل کرنے کاحکم اس لیے دیا گیاکہ بیرون ملک روانگی سے روکنا گرفتاری کا متبادل عمل ہے۔
سپریم کورٹ کا 31 جولائی 2009 کا فیصلہ بھی واضح ہے جس میں جنرل پرویز مشرف پر سنگین غداری کاالزام عائد کیا گیا تھااس کے بعد متعدد درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی گئیں،ان میں سے اے کے ڈوگر اور حامد خان کی درخواستوں کا حوالہ دیتے ہوئے اٹارنی جنرل پاکستان نے مؤقف اختیار کیا کہ ان درخواستوں میں 2 نکات پرداد رسی کی استدعا کی گئی تھی، پہلی استدعا تھی کہ وفاقی حکومت کو ہدایت کی جائے کہ آئین سبوتاژ کرنے کے الزام میں جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ درج کرایا جائے، دوسری استدعا یہ تھی کہ پرویز مشرف کو گرفتار کیا جائے اور ان کے خلاف مقدمے کی سماعت شروع کرائی جائے، یہ دونوں استدعا مستقل اور حتمی نوعیت کی تھیں۔
سپریم کورٹ نے 8 اپریل 2013 کو یہ درخواستیں منظور کرتے ہوئے سب درخواستوں پرایک فیصلہ جاری کیا، جس میں کہا گیا تھاکہ اگر پرویز مشرف کا نام اب تک ای سی ایل میں شامل نہیں تو آج دن میں (8اپریل کو ) ہی ان کا نام شامل کرکے رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے اور یہ کہ وفاق اور اس کے تمام ادارے عدالت کے اس فیصلے پر عملدرآمدیقینی بنائیں گے جب تک کہ عدالت اس فیصلے میں ترمیم نہ کرے،اس فیصلے کی روشنی میں پرویزمشرف کے وکلا کایہ موقف غلط ہو جاتا ہے کہ اس فیصلے کی حیثیت عارضی تھی ، گو کہ درخواست گزاروں نے پرویزمشرف کی گرفتاری کی استدعا بھی کی تھی لیکن آج جدیددور میں گرفتاری کا تصور بھی تبدیل ہو گیا ہے اور ای سی ایل میں نام شامل کرکے وفاقی حکومت نے ملزم پرویز مشرف کی مقدمے کی سماعت کے موقع پر حاضری یقینی بنا دیا ہے۔
عدالت کا ہر حکم حتمی ہے اس لیے یہ کہنا مناسب نہیں کہ کسی حکم میں ای سی ایل میں نام شامل کرنے کاذکر نہیں تو سابقہ حکم غیرموثرہوگیا،اٹارنی جنرل نے عدالت کے دائرہ کارپربھی اعتراض کیا،انھوں نے کہا کہ درخواست گزاراسلام آباد کامستقل رہائشی ہے اور وزارت داخلہ کا مرکزی دفتر بھی اسلام آباد ہے ، اس حوالے سے دو احکام جاری ہوئے وہ بھی اسلام آبادسے جاری ہوئے تھے، احکام وصول کرنے والے بھی اسلام آباد سے تعلق رکھتے ہیں ،ان وجوہات کی بناپر یہ مقدمہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی حدود میں آتا ہے سندھ ہائیکورٹ میں اس کی سماعت درست نہیں ، کوئی اسلام آباد کا رہائشی اگر لاہور یا پشاورمیں ہوٹل میں عارضی قیام کرے اور وہاں کی عدالت میں مقدمہ دائر کردے تویہ آئین کامذاق اڑانے کے مترادف ہے۔
اس موقع پرجسٹس محمد علی مظہر نے آبزرویشن دی کہ یہ آئین کی دفعہ199کے تحت ایک علیحدہ نوعیت کی درخواست دائر کی گئی ہے جس کا سابقہ حکم سے کوئی تعلق نہیں،عدالت نے سماعت بدھ کیلیے ملتوی کردی ،اٹارنی جنرل آئندہ سماعت پربھی دلائل جاری رکھیںگے۔قبل ازیں پرویزمشرف نے عدالت میں جمع کرائے گئے تحریری جواب الجواب میں مؤقف اختیارکیاکہ ان کے خلاف سیاسی بنیادوں پرمقدمات قائم کیے گئے ہیں،وفاق کایہ مؤقف غلط ہے کہ درخواست گزارای سی ایل سے متعلق ریلیف کیلیے سندھ ہائیکورٹ سے رجوع نہیں کر سکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ اس حوالے سے سپریم کورٹ کاحکم فی الوقت برقرارنہیں اس لیے کوئی ہائیکورٹ بھی حکم کی تشریح کرسکتی ہے،پرویزمشرف نے مؤقف اختیارکیاکہ ان پر غداری کا الزام بھی درست نہیں،اگر آئین کی دفعہ6پراس کی روح کے مطابق عمل کیاجائے تواسے آئین کی دفعہ12(2)کے ساتھ پڑھاجائے اور 1956سے اب تک آئین توڑنے اور اس میں معاونت کرنے والے پرشخص پر غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔
جواب الجواب میں پرویز مشرف نے مزید موقف اختیارکیاکہ خصوصی عدالت نے ان کانام ای سی ایل میں ایک مخصوص مدت کیلیے شامل کرایاتھاجس کی میعاد 31 مارچ 2014 کو ختم ہو گئی تھی، پرویز مشرف عدالتوں کا سامناکررہے ہیں،انھیں ریڑھ کی ہڈی کی تکلیف ہے اور ان کے معالجوں نے آپریشن کامشورہ دیاہے اس آپریشن کیلیے بیرون ملک جانا ضروری ہے۔