غریب کو آٹا کم نر خو ں پر نہیں، مفت ملنا چا ہیے: سپریم کورٹ

Supreme Court

Supreme Court

اسلام آباد (جیوڈیسک) گندم چوہے کھا رہے ہیں، کیا غریب داتا دربار چلا جائے جسٹس جواد خواجہ سپریم کورٹ کے جسٹس جواد ایس خواجہ نے ملک بھر میں آٹے کی قیمتوں میں اضافہ کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حکومتیں غریب عوام کو رعایت نہیں دے سکتیں تو بنیادی حقوق کے آرٹیکلز 9,14 اور 38 کو آئین پاکستان سے نکال دیں، لوگ بھوک سے مر رہے ہیں، چوہے گندم کھا رہے ہیں اور اگر گندم شجر ممنوعہ ہے تو صرف غریب لوگوں کے لئے، کیا غریب داتا دربار چلا جائے، ہم کہتے ہیں غریب کو آٹا کم نرخ پر نہیں مفت ملنا چاہیے، یہ قومی مسئلہ ہے لیکن یہاں الٹی گنگا بہتی ہے ، تین جج صاحبان عدالت سے اٹھ کر بازار یہ دیکھنے کیلئے نہیں جا سکتے کہ کون سی چیز کتنے نرخ میں فروخت ہو رہی ہے، مرض کا علاج کرنا وفاقی و صوبائی حکومتوں کا کام ہے۔

عدالت نے پنجاب سے خیبرپختونخوا کو گندم کی سپلائی روکنے سے متعلق جواب طلب کر لیا ہے اور سیکرٹری نیشنل فوڈ سکیورٹی سمیت چاروں صوبوں کے ایڈووکیٹ جنرل کو ملاقات کر کے جامع رپورٹ جمع کرانے کی بھی ہدایت کی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے جماعت اسلامی کے جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ کی درخواست کی سماعت کی تو خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے بتایا گیا کہ کے پی کے میں آٹے کی قیمت میں اضافے اور گندم کی قلت کی ذمہ دار پنجاب حکومت ہے، گندم کی نقل و حرکت پر پابندی کی وجہ سے آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے، راستے میں ٹرکوں سے گندم اتار لی جاتی ہے۔ وفاق سمیت چاروں صوبوں کے لاافسران نے اپنی اپنی رپورٹ پیش کی۔ عدالت نے سماعت 28 مئی تک ملتوی کر دی۔

جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ گزشتہ 45 سال سے آئین پر عملدرآمد نہیں کیا جا رہا۔ سپریم کورٹ حکومت ہے اور نہ ہی حکومت چلانا چاہتی ہے تاہم لوگوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہر حال میں یقینی بنایا جائیگا۔ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر چمن کے راستے گندم، آٹا سرحد پاربھجوایا جا رہا ہے۔ لوگوں کو بھوکا دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکتے ، حکومت پنجاب کا اصرار ہے کہ اس کے اقدامات غریبوں کے لئے انقلابی ہیں تو کیا پنجاب کے لوگ خوشحال ہوگئے ہیں؟ وہاں کے لوگوں کو گندم اور آٹا کم نرخوں پر دستیاب ہے تو ہم کیس ان کی حد تک بند کر دیتے ہیں۔