آج کل کا گرم موسم کڑک دھوپ زمانہ قدیم میں جلد کو بہت متاثر کر دیا کرتی تھی گورے رنگ کالے ہو جاتے اور کالے رنگوں پہ کیل مہاسے نکل آتے تھے مگر اس جدید دور میں آئے روز دریافت ہونے والی میک اپ کی نئی نئی اقسام نے ہر موسم کے اثر کو بے اثر بنا دیا ہے یہی وجہ ہے کہ کسی بھی شخص کی اصلیت کی پہچان نا ممکن ہو کر رہ گئی ہے جیسا کہ میک اپ نے ایک عام انسان کی پہچان نا ممکن بنا دی ہے اسی ہی طرح کرپشن کے میک اپ نے جمہوریت، عدلیہ، یا میڈیا کے اثرات کو بے اثر بنا کر اداروں کی اصلیت کی پہچان ناممکن بنا دی ہے، جس کے سبب اداروں کے اندر میں ہونے والی بے ضابطگیوں، انسانی حقوق کی پامالیوں اور ظلم زیادتیوں پر اُن کے خلاف میرٹ پر کاروائی بہت مشکل ہو کر رہ گئی ہے، جس کا عملی مظاہرہ جتنی مہارت سے ساہیوال سینٹرل جیل میں ہو رہا اتنی مہارت سے شاید کہیں بھی نا ہو رہا ہو، اسے کالا پانی جیل بھی شاید اسی ہی لئے کہا جاتا ہے یہ جیل قیامِ پاکستان سے قبل کی تعمیر شدہ ہے۔
جس کا رقبہ تقریباً 18 مربع ایکڑ بتایا جاتا ہے جبکہ بلڈنگ صرف 4 مربع ایکٹر پر ہی ہے، زمانہ قدیم میںیہ برِ اعظم ایشیا کی سب بڑی جیل تھی، اس میک اپ کی بدولت جیل کا ظاہری ماحول تو بڑا صاف ستھرا اور قانون کے بڑا تابع دکھائی دیتا ہے، مگراندرونی چہرہ بڑا بھیانک ہے ، اس میں خواتین کے رہنے سہنے کی الگ جگہ ہے، بچوں کی الگ ، پاگلوں کی الگ، خواجہ سرائوں کی الگ، دہشت گردوں کی الگ، عمر قید کے لوگوں کی الگ، سزائے موت کے لوگوں کی الگ، اور حوالاتیوں کے رہنے سہنے کی جگہ الگ ہے، ان مختلف جگہوں کے مختلف نام رکھے ہوئے ہیں، جیسا کہ بچوں کے رہنے کی جگہ کو بچہ خانہ، عورتوں کی جگہ کو زنانہ وارڈ، جبکہ عمر قید اور سزائے موت کے قیدیوں کے رہنے کی جگہ کو (سی پیز)وغیرہ کہا جاتا ہے جہاں موجود لوگوں کو 3 ہزار روپے ماہانہ کے عوض روزانہ دو گھنٹے موبائل فون ا ستعمال کرنے کی اجازت ہوتی ہے جبکہ کسی دوسرے وارڈ سے یہاں آ کر فون کرنے کیلئے ہیڈبارڈر کو تین سو روپے پر کال دینا پڑتے ہیں۔ جس کے بالکل ساتھ ہی CO وارڈہے، اس وارڈ میں نئے آنے والوں کو بند کیا جاتا ہے، یہ CO’sخواتین کیلئے الگ ہیں اور مردو کیلئے الگ، ان میں تقریباً 6 فِٹ مربع کے کافی سارے کمرے ہیں۔
جنہیں چکیاں کہاں جاتا ہے جن میں نہ پینے کا پانی ہے اور نہ ہی صاف لیٹرینز اور ہر چکی میں چھ سے سات افراد کو بند کر دینے کے بعد شام کا کھانا انہیں باسی روٹی دی جاتی ہے جو کہ حلق سے نیچے اُتارنی کافی مشکل ہوتی ہے ، جو کہ ایسے برتنوں میں دی جاتی جنہیں کُتے بھی پسند نہیں کرتے، لیکن مجبور انسان اسے بھی پسند کر کے سو جاتے ہیں، ان چکیوں کے مین گیٹ کی مخالف سمت میں CP1 ہے جہاں سزائے موت کے وہ قیدی بند ہیں جو ہر طرف سے ہی مایوس ہو چکے ہیں اس CP1 کی جالیوں کے بالکل سامنے سزائے موت کا پھٹہ ہے اس پھٹے کے خلاف آج کل سپریم کورٹ میں کیس چل رہا ہے ورنہ اس جگہ پر تو دس منٹ بھی رُکنا بہت مشکل ہے اس پوری جیل میں کافی بڑاایک ہسپتال بھی ہے جہاں سے پہلی بات تو دوا ملتی نہیںاگر ملے بھی تو وہاں موجود ڈاکٹر زاس قدر قابل اور ذہین ہیں کہ ٹانگ درد کی دوا مانگنے پر معدہ واش کرنے کی اور پیچش روکنے کی دوا مانگنے پر شیمپو تھما دیتے ہیں۔
Prison
اس جیل میں ایک بڑا خوبصورت سا کچن بھی ہے جہا ں پر اتنے لذیز کھانے تیار کئے جاتے ہیں کہ اگر وہ گائے بھینسوں کے آگے بھی رکھ دیئے جائیں تو وہ بھی نہ کھائیں، اور مویشیوں کیلئے چارہ کاٹنے یعنی کہ چارہ باریک کرنے والی مشین پر سبزی کا ٹی جاتی ہے جوکہ اُبال کر کھلائی جاتی ہے، اورجس آٹے سے وہاں روٹی بنائی جاتی ہے اُس کی تو بات ہی کیا ہے، سوکھی روٹیوں، مکئی کے گانڈے بھوسہ اور گندم کو برابر مقدار میں پیس کر بنائے گئے آٹے سے وہاں روٹی بنتی ہے ، جیل میں ایک انتہائی خطر ناک جگہ بھی ہے جسے سات بلاک کہتے ہیں، یہ جیل کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کیلئے بنایا گیا تھا مگر اسے استعمال موٹا مال بھٹورنے کیلئے کیا جارہا ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ جن جگہوں کا ذکر میں متذکرہ بالا تحریر میں کیا اِن کے بالکل درمیان میں ایک گول چکر ہے جہا ں ایک ASI بیٹھتا ہے اسے جیل کی زبان میںچیف وارڈزکہتے ہیں جوکہ وہاں چلنے پھرنے والے ہر شخص پر نظر رکھتا ہے اور متذکرہ بالا وارڈز اور CP’sمیں بند لوگوں سے وہاں چلنے پھرنے کے ماہان ہ 15 سو روپے لیتا مگر اس کے باوجود وہ اپنے سینیئر کے حکم سے جسے کھاتے پیتے گھر انے سے تعلق رکھنے والا محسوس کرتا ہے اُسے اٹھا کر 50 سے سو چھتر مارنے کے بعد سات بلاک میں بند کروا دیتا ہے۔ جہاں پر ہر وقت اُن کمروں میں ہی بند رہنا پڑتا ہے جو ایک واش روم سے رتی بھر بھی بڑے نہیں ہوتے ان میں بند ہوتے ہی لوگوں کو خارش ہو جاتی ہے اور علاج نہیں کروا یا جاتا خارش اس لئے ہوتی ہے کہ وہاں پینے کیلئے گندا پانی اور کھانے کیلئے آلودہ خوراک جبکہ سونے کیلئے خارشی کمبل جس میں سے بد بو آتی ہو دیا جاتا ہے ہر پل بد بو ہی بد بو آتی رہتی ہے۔
اس کے علاوہ انسان کو دنیاں کی کوئی بھی سہولت میسر نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہاں پر رفع حاجت کا بھی کوئی خاص انتظام نہ ہے وہاں بند انسانوں نے جہاں بیٹھ کر کھانا یا سونا ہوتا ہے وہیں رفع حاجت کرنی ہوتی ہے کیونکہ وہ جگہ تنگ ہی اتنی ہے کہ انسان ٹانگیں لمبی کرکے لیٹ بھی نہیں سکتا ان حالات میں وہاں بند غریب لوگ ہر پل موت مانگتے ہیں مگر اُنہیں نہ زندگی ملتی ہے اورنہ ہی موت، جبکہ روپے پیسے والے اگلے ہی دِن بیس ہزار سے لے کر ایک لاکھ روپے تک ادا کرکے وہاں سے نکل جاتے ہیں، ان مختلف طریقوں سے ایک طرف توجیل کے اندر سے تقریباً 30 سے 50 لاکھ روپیہ ماہانہ اکٹھا کیا جاتا ہے اور دوسری طرف حکومت کی جانب سے بھی بھاری فنڈز کی وصولی کی جاتی ہے،مگرجیل کانظام قیدی ہی چلا تے ہیں یہاں تک کہ وہاں پر ہونے والی سفیدی بھی قیدیوں کی ہی جیب سے ہوتی ہے۔
ان تمام تر معاملات کی شکایت کرنے والے کو سات بلاک پھینک دیا جاتا ہے اس لئے کوئی بھی شکایت نہیں کرتا اور نہ ہی وہاں کی شکایت پر جلد کوئی نوٹس لیتا ہے کیونکہ وہاں پر پائوں سے لے کر سرتک میک اپ کیا جاتا ہے اسی ہی لئے تو جب سے یہ جیل بنی ہے تب سے لے آج تک وہاں کے حالات نہیں بدل سکے اگر میری اس تحریر پر کسی کو یقین نہ آرہا ہو تو وہ خود جا کر دیکھ سکتا ہے بشرطِ کہ حوالاتی بن کرجائے تو وہ یہ بھی دیکھ لے گا کہ کرپشن کے علاوہ انسانی حقوق کی دھجیاں بھی کیسے اُڑائی جا رہی ہیں جو کہ ایک مسلمان قوم کی جمہوری حکومت میں انصاف کے منہ پر تماچے سے کم نہیں، خیر لکھنے کو تو اور بھی بہت کچھ ہے مگر تحریر پہلے ہی کافی لمبی چکی ہے لہذا آج کیلئے اتنا ہی، مذید پھر کبھی سہی، آپ ای میل کے علاوہ میرے موبائل نمبر 03436999818 پر بھی مجھ سے رابطہ کر سکتے ہیں، دعائوں میں یاد رکھئے گا (فی ایمان ِللہ)۔