قوم کا سرمایہ۔۔دینار پیشہ نہیں

Journalism

Journalism

صحافت میں گنے چنے افراد ہی تھے جنہوں نے نظریاتی صحافت کے پیٹرن پر کام کیا ہے وہ اور جنس کے لوگ تھے جو شعبہ صحافت کو ”ایثار پیشہ ”سمجھتے تھے مگر مو جودہ دور کی صحافت میں ”دینار پیشہ ” لوگ کچھ زیادہ ہی داخل ہو گئے ہیں جو ہر بات کو درہم و دینار کی ترازو سے تولنے لگے ہیں ،مو لانا محمد علی جوہر مرحوم کے”کامریڈ”نے انگریز حکومت کی پریڈلگوانے میں اہم کردار ادا کیا اور کون نہیں جانتا کہ ان کے مایاناز اخبار ”ہمدرد”نے استعمار کے ایجنٹوں اور ایجنڈوں کی طرف سے اڑائی گئی ساری گرد بٹھا دی ،مولانا ظفرعلی خاں کا معروف اخبار ”زمیندار”کو کون فراموش کر سکتاہے جس نے گورے سامراج کی قبائے زرکو سرِبازار تار تار کر دیا جینوئن اہلِ صحافت نے ہر دور میں اپنے آپ کو داغِ ندامت سے محفوظ رکھا ہے اور صحافت میں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی ”دیہاڑیوں ”اورسیاست کی خاردار” جھاڑیوں” سے اپنے دامن کو بچا کر صاف ستھرا رکھا ہوا ہے وہ کبھی بھی بحمدللہ تعالیٰ جنسِ بازار نہیں بنے انہوں نے اپنے آپ کو فکری غلاظتوں اور مالی کثافتوں سے ہمیشہ محفوظ رکھا،”امن کی آشا” والوں نے تو ہمیشہ غیروں کے حقوق کی پاسداری کی اور پرایوں کی ثقافت کو نمایاں کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور بدیسی کلچر ”ویلنٹائین ڈے”کو کشور حسین ،پاک سر زمین میں متعارف کروانے کا سہرا بھی ”امن کی آشا ”کے گُروں کے سر جاتا ہے جنہوں نے سب سے پہلے اپنے اداراہ کی طرف سے ”ویلنٹائن ڈے”پر خصوصی رنگین اشاعت کا اجراء کر کے اس کی ”اہمیت”کو اجاگر کیا اور دو قومی نظریہ کی حامل اسلامی جمہوریہ پاکستان کی پاکیزہ ثقافت پر مغربی کثافت کا لیپ چڑھانے کی بھونڈی کوشش کی مگر صحافت کی تاریخ گواہ ہے کہ صحافت کے میدان میں اہلِ حق نے ہمیشہ اسلامی کلچر کو نمایاں کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

بدیسی کلچر کی شروع دن سے مخالفت کی ہے اور ہر پلیٹ فارم پر دو قومی نظریہ کی ڈٹ کر حمایت کی ہے یہود و ہنود کی دھمکیوں کے باوجود کھلم کھلا ہندو بنئے کی مخالفت کرتے رہے ہیں ”امن کی آشا”والوں نے تو”امن کی بھاشا”نکال کے رکھ دی ہے اور اب جو اِن کی پورے پاکستان میں بالخصوص اور پوری دنیا میں بالعموم بھا شا نکل رہی ہے اس سے بڑے بڑے سورمائوں کی عقل ٹھکانے لگ گئی ہے اور کسی فارن پیڈاور فارن میڈبھینسے کی ”چڑیا ” کسی شوخے اور مسخرے کا ”ڈمی میوزیم ”کسی کا نام نہاد ”جرگہ ” ممی ڈیڈی این جی اوز کی پیداوارکسی ماڈل گرل کا ”مارننگ شو ” بیچ ”چوراہے ”کے ہنڈیا پھوڑنے والے کسی وہسکی ڈرنکر کا”میرے مطابق ”صحافت کے کسی مامے خان کا ”کیپیٹل ٹاک ”کسی پیپلے کا ”جوابدہ”کسی دس نمبریے جعلی ڈگری ہولڈر فلمی مولوی کا ”عالم آن لائن’ اورباں باں کرتا ”لائوڈ سپیکر”اِن سب کی فرعونیت اور نمرودیت خاک میں مل گئی ہے اور اب ہر پھنے خان اور پاٹے خان معافیاں طلافیاں مانگتا ہوا نظر آرہا ہے پوری دنیا میں ”امن کی بھاشا ” والوں کے کردار کا جنازہ نکلا ہوا ہے اور اِن کا اصلی چہرہ اب قوم کے سامنے آگیا ہے کہ اندر کھاتے اِن کے مقاصد کیا تھے اور ہیں؟یہ ”کرائے کے ٹَٹو ”یہودو نصاریٰ کے بھاڑے پر پلنے والے ”آج کامران خان کے ساتھ ” دین کا چہرہ مسخ کرنے اور اپنی مرضی کی دینی تشریحات کرنے والے ”آمر ”اپنی بھونڈی ”لیاقت ”کے بل بوتے پر حسینی افکار کو داغدار کرنے اور انعام کے لالچ میں اُمت کو گمراہ کرنے میں پیش پیش ۔۔۔۔۔فحاشی و عریانی کی زندہ تصویر اور ولگیریٹی میںانسائیکلو پیڈیا پروگرام” اُٹھو ،جاگو پاکستان ”میں پاکیزہ ، قدسی صفت ، مزکی ٰ و مصفیٰ اہل ِ بیت ِ اطہار کی شان میں”نا شائستہ ”گفتگو کر کے گستاخی کی مرتکب ہونے والی واحدی نے اُمت ِ واحدہ کے سینے میں خنجر پیوست کر کے دل دل زخمی کر دیئے۔۔۔ہر صاحبِ ایمان کا سینہ چھلنی ہے کہ جس طریقے سے جنت کی عورتوں کی سردار ، جگر گوشہ ء رسول ۖ ، بی بی پاک بتول، طاہرہ ، طیبہ ، صادقہ ، عارفہ حضرت فاطمة الزہرہ رضی اللہ عنہا اور صاحب ِ نہج البلاغہ ، باب العلم ، شیر ِ خُدا، فاتح خیبر ، حیدر کرار ، دامادِ رسول ۖ حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہ الکریم کی نعوذ با اللہ جس دیدہ دلیری اور بے غیرتی کے ساتھ گستاخی کی گئی۔

ایک صاحب ِ ایمان اور گناہگار سے گناہگار شخص بھی سُن کر کانپ اُٹھتا ہے اس پر وطن عزیز کے اسلام فروش اور ضمیر فروش نام نہاد سرکاری ”مفتیوں ” نے بھی من گھڑت تاویلیں اور درباری دلائل دینا شروع کر دیے جنہیں سُن کر اور پڑھ کر بھی انسانیت کا سر شرم سے جھک جاتا ہے کل بروزِ حشر شافع ِ یوم النشور حضور پر نور ۖ کو کیا منہ دکھائیں گے کس منہ سے شفاعت کی بھیک مانگیں گیاور حوضِ کوثر پر صاحب ِ نہج البلاغہ حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کے سامنے کونسا منہ لے کر جائیں گے؟ صرف چند سطری اور سنگل کالم اپنا بیان شائع کرانے کی خاطر یا ٹی وی کی سکرین پر اپنی چہرہ نمائی کی خاطر حق گوئی سے کنارہ کشی اختیار کی ؟اور جب آپ کی زندگی کی پوری فلم کہانی روزِ محشر سکرین پر آپ کو دکھائی جائے گی تو کیسے سامنا کرپائو گے ؟ایسے میں اہلِ صحافت اور اہل ِ اسلام کے کاروان میں مردانِ حُر نے پاک سر زمین ، کشور حسین ، مرکز ِ یقین اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کے ساتھ ساتھ دینی افکار کی بھی پہریداری اور چوکیداری کا فریضہ خوب نبھایا ہے اور دو قومی نظریہ کو اپنے بھونڈے طریقے سے تار تار کرنے اورنظریاتی دیواروں کو گرانے والوںپر اپنی حُب الوطنی کی کاری ضرب لگا کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اُن”سُورمائوں ” کے آگے بند باندھ دیا ہے قائد اعظم علیہ الرحمة کی ذات پر رکیک حملے کرنے والے جعلی ”پیر زادے ” ہوں یا جاتی اُمراء کے دستر خواں سے چچوری ہڈیاں چوسنے والے ”نقشِ خیال ” کے فقیر زادے ہوں اِن سب”قاسمی ” چھوکروں اور”دینار پیشہ ” نوکروں کی ”ایثار پیشہ ”اہلِ صحافت اور اہلِ اسلام نے ٹھیک ٹھاک کان پکڑوا کر کلاس لی ہے۔

Maulana Altaf Hussain Hali

Maulana Altaf Hussain Hali

محمد حسین آزاد مرحوم، مو لانا الطاف حسین حالی مرحوم، مولانا حسرت مو ہانی مرحوم،جنابِ حمید نظامی مرحوم ایسے جینوئن لوگ اب شعبہ صحافت میں نایاب ہیں جنہوں نے ہر آمر اور جابر کے سامنے کلمہ حق کہنے کی روش کو برقرا ررکھا اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے جا کر اور چکی چلا کربھی نعرہ مستانہ بلند کیا ،آج جب ”سویرے سویرے ” کسی کالم نگار کی تحریر پڑھ لیں تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ کل اِس نے کس کے دستر خواں سے اپنے ہاتھ صاف کیے ہیںپل بھر میں آنکھ جھپکتے ہی اپنا موقف اور نظریہ بدلنے والے اہل صحافت کی کمی نہیں ہے آج اُس کے دستر خواں پر تو کل کلاں کسی اور کی ڈائیننگ ٹیبل کے مہمان بنے نظر آتے ہیں ، صحافت کے بازار میں گرگٹ کی طرح اپنی فکر اور نظریہ بدلنے والے اہل قلم حضرات کی بھر مار ہے آج الا ماشا ء اللہ دیہاڑی پر کالم لکھے جا رہے ہیں بلکہ اگر اِسے کچھ یوں کہا جائے تو بہتر ہو گا کہ لکھوائے جا رہے ہیں ور ہمارے وطن میں (الا ما شا ء اللہ ) بہت سارے ایسے ”اہلِ قلم ” نظر آرہے ہیں جنہیں شاید صحیح معنوں میں قلم پکڑنا بھی نہ آتا ہوکالم نگاری کے معانی و مفہوم سے بھی وہ نا آشنا ہوں مگر اُن کے سر میں خبط ہے کہ وہ ”قالم نگار ” نظر آئیں اور بہت سوں کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جو مختلف کتا بوں میں لکھے گئے واقعات کو کمپوز کرا کے دوسرے دن اپنے نام سے مقامی اخبارات میں شائع کرا دیتے ہیں یا پھر نیٹ سے دوسروں کی تحریریں چُرا کراپنے نام سے شائع کرانا فخر سمجھتے ہیں ،سیاست کے بے ہنگم ایوان کے بازی گروں اور صحافت کے میدان کے بعض شعبدہ بازوں نے اپنی ملک دشمنی پر مبنی ”سیاسی بصیرت ” اور بے ربط و کج مج صحافتی ”دانش ”کے بل بوتے پر ملک و قوم کی بنیادوں میں گہرا شگاف ڈالنے کی بھر پور کوشش کی ہے ارباب ِ صحافت کے قلم کی روشناہی جب سیاسی پنڈتوں ، مذہبی بر ہمنوں اور فارن فنڈڈ این جی اوز کے خفیہ اور مکروہ گو شوں کو عوام کے سامنے لانے کی بجائے ان کے کار نا موں کو ”خدمت خلق ” اور ”خدمت دین ” کا چُغا و چو لا پہناتی ہے تو مو لانا ظفر علی خان ،مو لانا حسرت مو ہانی ،مو لانا محمد علی جو ہر ،آغا شورش کاشمیری کی روح ماہی بے آب کی طرح تڑپ اُٹھتی ہو گی وہ قلم جس سے خالق کائنات انسان کو علم سیکھنے کا سلیقہ سکھا رہا ہے۔

اسی قلم کی تقدیس و حُرمت کے پر خچے اُڑائے جا رہے ہیں اربابِ صحافت نے جب سے قلم کی حُرمت کا ”اتوار بازار ” سجایا ہے دانش و حکمت ٹکے ٹوکری ہو گئی ہے لیکن صحافت کے اس ”اتوار بازار ” میں ابھی بھی ایسے نگینے باقی ہیں جن کو ماتھے کا جھومر بنانے کو جی کرتا ہے ایسے کالم نگار اور اربابِ صحافت نے ہمیشہ اس گلے سڑے معاشرے میں صندل کا کام دیا ہے اور ان کے قلم سے ہمیشہ وطن کی سا لمیت اور احترام ِ آدمیت کی تحریر ہی رقم ہوتی رہی ہے ، دس نمبرے اربابِ صحافت اور احبابِ سیاست نے بریفو کریسی اور لفافہ کریسی کی زنجیر ِ محبت میں گرفتار ہو کر ملک و قوم کی کشتی کو ساحل ِ مُراد تک پہنچانے کی بجائے ہمیشہ بھنور ہی میں ہچکولے کھانے کے لیے پھنسائے رکھا ہے نظریاتی و فکری صحافت کو اُوڑھنا ، بچھونا سمجھنے والے اکابرین صحافت میں اب صرف ”ایثارپیشہ ” صحافت کے ماتھے کا جھومر ہی اہلَ صحافت بچے ہیں جو بقیتہ السلف ہیں جو صحافت کو ایک مقدس پیشہ اور نظریاتی ادارہ سمجھ کر چلا رہے ہیں اور ایسی ہی فکری و نظریاتی شخصیات کے بارے میں کسی شاعر نے درست کہا تھا کہ

ہے غنیمت کہ جلتے ہیں ابھی چند چراغ
بند ہوتے ہوئے بازار سے اور کیا چاہتے ہو

”ایثار پیشہ ” اہلِ صحافت نے ہمیشہ ایک مقصد کو سامنے رکھ کر صحافت کی اور یہ آپ کی جُہد مسلسل ، پُر خلوص کاوش ، نیک نیتی ، پختہ عزم ، دیوانہ وار محنت ، منزل کے حصول کی لگن ،دو قومی نظریے کی حفاظت کا جنون ہی تھا کہ جس نے آج صحافت کو بطور صحیفہ کے زندہ رکھا ہوا ہے آج اگر آج اِن میں حق گوئی ، راست بازی ،پختہ عزم ،آمر یت کے سامنے ڈٹ جانے کی صلاحیت ، نیک نیتی اور بلند ارادے کی جھلک نظر آرہی ہے تو یہ اسلاف کی تربیت اور صحبت ہی کا اثرہے کہ آج بہت سارے اہلِ صحافت اس پیرانہ سالی کے باوجود جابر و ظالم حکمرانوں کے خلاف کلمہ حق کہنے کی صلاحیت سے مالا مال ہیں۔

Journalist

Journalist

اِس بات کے قطع نظر کہ حکمرانوں کو اگر سچ بات کہہ دی تو وہ ناراض ہو جائیں گے کیونکہ حکمرانوں کی ناراضی اداروں کی بندش کی طرف اشارہ کرتی ہے ، سرکاری اشتہارات کی ترسیل میں رُکاوٹ کا سبب بنتی ہے مگر ”ایثار پیشہ ” اہلِ صحافت نے اِس بات کی قطعاََ پرواہ نہیں کی کہ ہمارے گروپ کے سرکاری اشتہارات بند ہو جائیں گے ”ہتھ ذرا ہولا رکھا جائے” اور حکمرانوں کو من مانی کر نے اور کُھل کھیلنے کا موقع دیا جائے مگر اکثر دیکھا گیا ہے کہ یہ چٹائی توڑ،میدانِ صحافت کے قلندر ،ظالم و جابرحکمرانوں کے لیے گردن توڑ بخار ثابت ہو ئے ہیں آپ نے ہمیشہ قلم سے تلوار کا کام لیا ہے اور قلم کی آبرو کو کبھی ”جنسِ فروختنی ” نہیں سمجھا ہے ہر ظالم و جابر حکمران نے اِن کو خریدنے کی کوشش کی مگر یہ مردقلندر نہ کبھی جُھکے اور نہ ہی کبھی بِکے ،کیونکہ

جو بِک چُکا ہے بازارِ مصطفیٰ ۖ میں
وہ کسی اور بازار میں اب بِکتا نہیں ہے

وقت کے جابر اور ظالم حکمرانوں کو غلط کاموں سے روکنا دراصل ایسا جرات مندانہ کام اُسی شخصیت کے حصے میں آتا ہے جس کے روشن سینے میں عزیمت اور استقامت کا غیر متزلزل دل ہو ، جسے وقت کے حکمرانوں کا بڑے سے بڑا زلزلہ اور قہر بھی ان ارادوں میں ڈگمگاہٹ پیدا نہ کر سکے ،ملوکیت کے پیکر میں ڈھلے حکمرانوں کو ان کے ایوانوں سے جاری کی گئی رسوم ِ بد سے روکنا اور بڑھتے ہوئے گندگی و غلاظت کے سیلاب کا رخ موڑنے کے لیے ایسے مردان حُر ہی آگے بڑھ کر پاکیزگی و طہارت کا بندھ باندھتے ہیں اور ایسے مردان ِ حُر معاشرے کے ماتھے کا جھومراور وقار ہوتے ہیں یادرہے ہم نہ تو کسی کے مخالف اور نہ ہی کسی کے حاشیہ بردار اور خوشہ چیں ، ہم دراصل اُس سوچ اور ذہنیت کے طرفدار ہو تے ہیں جو ملک و قوم کے لیے مخلصانہ جذبوں سے لیس ہو کر سوچتی ہے اور ہر اُس فکر اور نظریہ کی مخالفت کرنا اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہیں جو غلام ذہنیت کی پیداوار ہوتے ہیں اور غیروں کے اشاروں پر خود بھی ناچتے ہیں اور قوم کو بھی نچانے کی سعی لا حاصل کرتے رہتے ہیں ہم افراد کے نہیں بلکہ افراد کے ذہنوں میں پرورش پانے والی غلیظ اور تعفن زدہ سوچ کے مخالف ہیں کیو نکہ ہماری دینی تعلیمات ہمیں گناہگار سے نہیں بلکہ گناہ سے نفرت کا درس دیتی ہیں اور جینوئن اہلِ صحافت وہ نہیں جو لفافہ ازم کا شکار ہوکر اپنی قلمی عصمت کو داغدار کریں اور اپنے الفاظ کو ایک طوائف کی طرح ”قلمی کوٹھے ” کی زینت بنائیں ”ایثار پیشہ ”صحافی آئینے کیحیثیت سے گلی کی نکڑ اور چوک چوراہے پر جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے وہ قوم کو دکھانے کی کوشش کرتے ہیں اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے جس کا ہمارے حکمران بُرا منا جاتے ہیں۔

”ایثار پیشہ ” صحافیوں نے ”بی بی ” ہو یا ”بابو ” پرویزِ صغیر ” ہو یا ”پرویزِ کبیر ” ”میاں ” ہو یا ”بیوی ” ہر دور ِ حکومت میںحق گوئی کا پرچم بلند کیے رکھا ہے اور اِس راست بازی کے پرچم کو کبھی بھی کسی بھی لمحے ذرابھر کے لیے بھی سر نگوں نہیں ہو نے دیا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ”ایثار پیشہ ”صحافیوںکے کسی بھی پلیٹ فارم پر فحاشی و عریانی کے پیکر میں ڈھلی تحریر اور نہ ہی کوئی ایسی تصویر نظر آئی ہے کہ جس کو دیکھ کر اور پڑھ کر ہمارا سر شرم سے جُھک جائے ،آج اس مملکت کی بنیادوں کو کمزور کرنے کے لیے جہاں مذہبی تفرقہ بازی اور مسلمانوں کے در میان اختلاف کی خلیج وسیع کرنے کے لیے غیر مسلم طاقتیں اپنے باطل کا جال پھیلا رہی ہیں وہاں پر مسلمانوں کی مائوں ، بہنوں اور بیٹیوں کی سوچ کو با قاعدہ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت فحاشی و عریانی کی طرف دھکیلا بھی جا رہا ہے ایسے منتشرماحول اور پراگندہ حالات میںضرورت اس امر کی ہے کہ جینوئن اہلِ صحافت کی طرف سے سکولز ، کالجز و یونیورسٹیزاور دینی مدارس کے طلبہ و طالبات کو دو قومی نظریے کی اہمیت سے آگاہ کرنے اور اور تحریک پاکستان کے اکابرین کے سنہری کارناموں سے روشناس کرانے کے لیے گاہے گاہے سیمینارز ، کانفرنسز ، علمی و فکری نشستوں اور مذاکرات کا اہتمام کرتے رہنا چاہیے صاحبو !جب ہمارے کالم نگار وطن کی زمین کی حُرمت اور رزق ِ حلال کی بجائے دوسروں کے چبائے ہوئے لقموں پر جُگا لی کرنے کے عادی ہو جائیں ، بلندیوں کے آکاش پر آشیاں بندی کرنے والے ”خود نمائی ” اور ”جی حضوری ”کی دلدل میں پھنس جائیں اپنی فکر کو رعنائی کے لیے نہیں بلکہ ”خود رو نمائی ”کے لیے استعمال کرنے لگیں بڑبولے سیاستدان سیاست کو عبادت کا جُبہ پہنانے کی بجائے اَمارت کا چُغہپہنادیں ، منصف انصاف کے ترازومیں توازن پیدا کرنے کی بجائے ”لچک ”کے بہانے تراشیں ، سماجی لوگ فارن فنڈڈ ، فارن پیڈ و فارن میڈ این جی اوز کے پلیٹ فارم پر عوام میں فلاح و بہبود اور حرکت کا جذبہ پیدا کرنے کی بجائے ہنود و یہود کی سوچ اور جمود کو عام کریں۔

مورخین آئندہ نسل کو حالات کی صحیح تصویر پیش کرنے کی بجائے در بار اور سرکار کی تا بعداری میں تاریخ مرتب کرنے کے لیے اپنی ساری توانائیاں کھپادیں، دانشور اپنی دانش کے گلزار نچھاور کرنے کی بجائے نفرت کے خار بر سانا شروع کردیں، علماء دھند میں لِپٹے ماحول کو اپنی خوش الحانی سے صاف کرنے کی بجائے شعلہ بیانی سے دھند کو مذید گہرا کر دیں ، گدی نشین اپنی نگاہوں کی تاثیر سے ہزاروں سائلین کی تقدیر بدلنے کی بجائے جب اپنی نگاہیں ”مرید ” کے نذرانوں اور تحائف پر مرکوز کردیں تو ایسے ماحول کو نکھارنے اور سنوارنے کے لیے ہمہ جہت انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے مگر گھنٹی کون باندھے ؟تب تک کے لیے اجازت ۔۔۔۔آئندہ نئے عنوان سے ملاقات ہو گی۔ اللہ حافظ

Nouman Qadir

Nouman Qadir

تحریر: صاحبزادہ نعمان قادر مصطفائی
فون نمبر: 03314403420