اچھے دنوں کی خواہش لئے اور ورلڈکپ جیتنے کی خوشی لئے، یہ قوم اپنی پریشانیوں کو بھلا کر ،افلاس، مہنگائی، دہشت گردی، بے روزگاری کو پسِ پشت ڈال کر کرکٹ سے اپنی لگائو کا والہانہ اظہار کرتے ہیں اور سب کچھ چھوڑ کر ٹی وی کے آگے بیٹھ جاتے ہیں۔ تاکہ قوم اپنی ٹیم کو ہر موقعے پر شاہین ہونے کا فخر یاد دلاتے رہیں۔ عوام کے جوش کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب وہ کرکٹ دیکھنے بیٹھتے ہیں تو اپنی بھوک پیاس سب کچھ بھلا دیتے ہیں اور محو ہوکر دیکھتے اور خدا سے اپنی ٹیم کی جیت کے لئے دعا گو رہتے ہیں۔اس جمہوریت کے دور میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کرکٹ یعنی پی سی بی میں جمہوریت ہے ہی نہیں۔
ایک جاتا ہے تو دوسرا آجاتا ہے، ابھی وہ اپنی پالیسی دے بھی نہیں پاتا کہ پھر اسٹے آرڈر کے ذریعے دوسرا اس کرسی پر بُرا جمان ہو جاتا ہے۔ یہ گھنائونا مذاق کہیںہماری بچی کھچی کرکٹ کو بھی تہہ و بالا نہ کر دے۔ احباب اس طرف خصوصی توجہ دیں تاکہ ہماری کرکٹ جو اب صرف بیرونی دنیا تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے وہ بچ جائے۔ کیونکہ دہشت گردی کی وجہ سے ہمارے ملک میں آکر ویسے بھی کوئی کھیلنے کو تیار نہیں ہو رہا۔
جس طرح کرکٹ دنیا میں مقبول کھیل ہے اسی طرح پاکستان میں بھی کرکٹ بہت مشہور کھیل مانا جاتا ہے گو کہ یہ ہمارا قومی کھیل نہیں پھر بھی اس کھیل کو برتری حاصل ہے۔ کرکٹ کی ابتدا کب اور کیسے ہوئی اور آج جو کرکٹ کی موجودہ تیز رفتار شکل موجود ہے یعنی کہ ٹیسٹ کرکٹ پھر ون ڈے اور اب ٹی 20کرکٹ ، ان سب نے مل کر اس کی مقبولیت میں بے تحاشہ اضافہ کر دیا ہے۔ کرکٹ برصغیر پاک و ہند میں بڑے انہماک اور شوق سے کھیلی اور دیکھی جاتی ہے۔ پاکستان ایک مرتبہ عمران خان کی قیادت میں عالمی کپ کا فاتح بھی بن چکا ہے۔ لفظ کرکٹ کا پہلی بار استعمال کب اور کیسے ہوا اس کے بارے میں کوئی بات قطعی واضح نہیں مگر اتنا ضرور ہے کہ لفظ کرکٹ ” فرانسیسی زبان کرک ” سے لیا گیا ہے۔ بعض مورخین اور تجزیہ کاروں کی رائے میں کرکٹ کا لفظ ” کرک کرک” کی ترقی یافتہ شکل ہے جس کے معنی و مفہوم ڈنڈے اور ہاتھی کے ہیں۔
کرکٹ کے متعلق یہ بات تو یقینی ہے کہ اس کا آغاز براعظم یورپ سے ہوا۔ خیر ہم یہ کدھر بھٹک گئے بات تو ہماری کرکٹ کی ہو رہی تھی۔ کچھ مہینوں پہلے ہمارے ملک میں انڈیا، سری لنکا اور بنگلہ دیش کی طرز پر پاکستان پریمیئر لیگ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا، گو کہ یہ ایونٹ ہمارے اپنے ملک میں لائونچ نہیں ہو رہا تھا بلکہ متحدہ عرب امارات میں کرانے کا پروگرام تھا مگر تاحال اس پر بھی کوئی عمل در آمد دیکھنے میں نہیں آرہا۔ اس کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ پالیسی کا تسلسل ہمارے ملک میں نہیں چل پاتا، ہر حکومت اپنی مرضی کے مطابق اداروں کا سربراہ چاہتا ہے جس کی وجہ سے یہ معاملہ بھی ابھی تک کھٹائی میں ہے۔ مستقل چیئرمین پی سی بی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے تاکہ کرکٹ کو فروغ حاصل ہو اور اس کے بعد ہمارے اپنے ملک میں کرکٹ کے روابط دوسرے ملکوں کے ساتھ بحال ہوں۔ شاعر کہتا ہے:
دیس ہمارا ہم کو پیارا کرکٹ سب کی آنکھوں کا تارا اپنے دیس پہ ہم قربان دیس ہمارا پاکستان
کھیل کسی ملک کی پہچان ہوتی ہے کھیل ہی کی بدولت ایک ملک کی پہچان دوسرے ملک سے ہوتی ہے۔ جو ملک کھیل کے میدان میں جتنا کامیاب ہوگا اس ملک کے لوگ اتنے ہی مقبول ہوتے جائیں گے۔ دنیا میں ہر ملک کے لوگوں کا کسی نہ کسی کھیل سے جذباتی لگائو ضرور ہوتا ہے اور ایسے کھیل میں وہ اپنی ہار کسی طور قبول نہیں کرتے۔ ہمارے ملک کے لوگوں کو بھی کرکٹ سے بے انتہا لگائو ہے اس کی واضح مثال یہ ہے کہ جب ہماری ٹیم جیت جاتی ہے تو لوگ اپنے ہیروز کو سر پر بٹھانے لگتے ہیں اور ان کی عزت کرتے ہیں۔ لیکن جب یہی ٹیم ہار جاتی ہے اور خاص کر پڑوسی ملک کے ٹیم سے تو اس کو لعن طعن بھی کرتے ہیں۔ جبکہ قوم کی یہ آرزو ہوتی ہے کہ بے شک کسی بھی ٹورنامنٹ کے فائنل میں پہنچو یا نہ پہنچو اگر انڈیا سے میچ ہے تو اس سے جیت جائو۔ اور جب ایسا ہو جاتا ہے تو وہ پھولے نہیں سماتے اور داد دینے میں کوئی قباحت نہیں کرتے۔
Zaka Ashraf
ہمارے ملک کا المیہ دیکھئے کہ ایک ادارے کا چیئرمین یعنی کے پی سی بی میں روزآنہ کی بنیاد پر فیصلے آرہے ہیں، ایک دن کوئی چیئرمین ہوتا ہے تو دوسرے دن کوئی اور صاحب چیئرمین کی کرسی پر بیٹھ جاتا ہے۔ پھر وہ ایک ہی دن میں کچھ اور تقرریاں کرتا ہے جیسے کہ معین خان چیف سلیکٹر، وقار یونس چیف کوچ اور وہ جو بیٹنگ کوچ کے لئے آنے والے تھے یعنی کہ زمبابوے کے نا تجربہ کار کھلاڑی جسے بیٹنگ کوچ بنادیا گیا ہے جس کی اپنی ٹیم ابھی تک آئی سی سی کی ممبر نہیں ۔کیا یہی ترجیحات ہیں مستقبل میں پاکستان کرکٹ کا۔ پھر ذکا ء اشرف آ گئے اور انہوں نے عارف عباسی کو چیف کنسلٹنٹ بنا دیا جو کہ چوبیس گھنٹے بھی اپنے عہدے پر برقرار نہ رہ سکے اور پھر سے نجم سیٹھی آگئے۔یہ قوم اور کرکٹ کے ساتھ مذاق نہیں تو اور کیا ہو رہا ہے۔ان تمام معاملات میں سیاسی عنصر پوشیدہ نظر آتا ہے۔ کیونکہ ذکاء اشرف کو آصف علی زرداری لے کر آئے تھے اور نجم سیٹھی کو نواز شریف صاحب۔ خدارا! اب بھی وقت ہے اداروں کو تباہ و برباد ہونے سے بچائیں اور سیاسی دائو پیچ کا کھیل سیاست کے ایوانوں میں ہی رہنے دیں تو بہتر ہے۔
ورنہ جس طرح ہمارے ملک میں ہر بنیادی چیزوں کی ناپیدگی ہے اسی طرح کرکٹ بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گا۔ امید ہے کہ ارباب اختیار کسی تیسرے فرد کا تقرر چیئرمین پی سی بی کی حیثیت سے کریں گے جس کا ماضی بے داغ ہو اور وہ سیاست سے پاک ہو۔ ایسا فرد ہونا چاہیئے جو ہمارے ملک کی زبان بولتا ہو اور کھلاڑیوں کے ساتھ ہم آہنگی رکھتا ہو۔ جسے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی میں کردار ادا کرنے کی جستجو ہو اور جو پاکستان پریمیئر لیگ کا فوری انعقاد کروا سکے۔
ورلڈ کپ سر پر آن پڑا ہے ایسے میں مستقل چیئرمین ہو گا تب ہی دل جمعی کے ساتھ وہ اپنی پالیسی بنا کر دوسری ٹیموں کی ملک میں آمد کے لئے راہ ہموار کر سکے گا۔ ملک کے اس غیر معمولی حالات کا سامنا کرتی قوم نے بھی میڈیا پر گاہے بگاہے یہ واضح کر دیا ہے کہ کرکٹ کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ قوم کو کرکٹ پر بھی کمند ڈالنے کے لئے سڑکوں پر نکلنا پڑے۔ کرکٹ کی ترقی و خوشحالی کے لئے ضروری ہے کہ مستقل چیئرمین پی سی بی تعینات رہنا چاہیئے جس کے پاس تجربہ اور صلاحیت بھی ہو۔
نجم سیٹھی صاحب مستند تجزیہ کار اور باوقار صحافی ہیں انہیں ان کی فیلڈ میں ہی ہونا چاہیئے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ذکاء اشرف ہی چیئرمین رہیں، بلکہ میرا تو ایسا ماننا ہے ہے کہ ان دونوں کو کرکٹ سے الگ کر دیا جائے کیونکہ یہ چوہے بلی کا کھیل ان ہی دونوں حضرات کے درمیان جاری ہے اور پتہ نہیں کب تک جاری رہے گا۔ اس لئے حکومت کو چاہیئے کہ وہ اس موقعے پر ایکشن میں آئے اور کسی تیسرے فرد کو جو تجربہ اور صلاحیت کا حامل بھی ہو پی سی بی کا چیئرمین بنا دے تاکہ ہماری کرکٹ کی گرتی ہوئی ساکھ بحال ہو سکے۔