١١ مئی 2013 کو پاکستان میں عام انتخابات ہوئے جس کے بعد مسلم لیگ ( ن ) کی حکومت قائم ہوئی مختلف جماعتوں کی طرف سے ان انتخابات پر تحظات کا اظہار کیا گیا سب سے زیادہ اعتراض تحریک انصاف نے اٹھایا تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے بارہا یہ کہا کہ ہم ملک اور جمہوریت کے مفاد میں انتخابات کو تسلیم کر لیتے ہیں مگر دھاندلی کو قبول نہیں کریں گے تحریک انصاف کی طرف سے متعدد درخواستیں الیکشن ٹریبیونلز میں ہیں آئین اور قانون کے تحت ان الیکشن ٹریبیونلز کو چار ماہ کے اندر ان درخواستوں پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے تحریک انصاف کی طرف سے یہ مطالبہ پر زور سامنے آرہا ہے کہ انگوٹھوں کے نشان سے ان تمام ووٹوں کی تصدیق کی جائے اور خاص طور پر جو چار حلقے انکی طرف سے پیش کیئے گئے ہیں وہ نہایت ہی اہم ہیں ایک حلقہ قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق دوسرا وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور تیسرا وزیر دفاع خواجہ آصف کا ہے۔ حکومت کی طرف سے چوہدی نثار صاحب نے کہا کہ ہم چار کی نہیں بیس حلقوں میں انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کر دیتے ہیں مگر اب تک اس مسئلے پر حکومت کی طرف سے خاموشی چھائی ہوئی ہے آج کے اس کالم میں ہم اس سارے کھیل کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
گزشتہ عام انتخابات کی ایک سب سے بڑی خاصیت یہ تھی ایک تحریک انصاف کی صورت میں مسلم لیگ ن کو ایک نئے سیاسی حریف کا سامنا تھا عام طور پر مسلم لیگ ن کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ق کا سامنا ہوتا لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت اپنے دور میں عوام کی امیدوں پر پوری نہ اتر سکی اور مسلم لیگ ق کے ووٹ بنک رکھنے والے امیدواران کی اکثریت مسلم لیگ ن میں چلے گئی اور کچھ تحریک انصاف میں اب پنجاب میں اصل مقابلہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ن میں تھا مسلم لیگ ن کی پنجاب میں حکومت پیپلز پارٹی کے مقابلے میں کافی بہتر تھی اور شہباز شریف نے میٹرو بس کی صورت میں جو پروجیکٹ لاہور والوں کو دیا اسکی بھرپور تشہیر بھی کی اور میاں نواز شریف کے پچھلے ادوار کا حوالہ بھی دیا گیا اور اپنے تجربہ کا حوالہ بھی دوسری طرف تحریک انصاف میں اکثریت نوجوانوں کی تھی وہ کسی صورت آزمودہ چہروں کو اپنی صفوں میں برداشت کرنے کو تیا رنہیں تھے لیکن ان نوجوانوں کی اکثریت الیکشن لڑنے کے ہنر سے نا آشنا تھی عمران خان چونکہ اس حقیقت کو سمجھتے تھے اس لیئے انھوں نے پارٹی کے اندر انتخابات کے ذریعے ایک حل نکالنے کی کوشش کی۔
اس کوشش میں عمران خان نوجوانوں کو تو اپنے ساتھ رکھنے میں کامیاب ہوگئے مگر اس سارے عمل میں تحریک انصاف کی انتخابات کی تیاری نہ ہونے کے برابر تھی پارٹی کی تنظیمیں تحلیل تھیں جسکی وجہ سے کوئی بھی یقین سے نہیں کہ سکتا تھا کہ ٹکٹ کس کو ملے گا بہر حال بہت جلدی میں ٹکٹوں کا فیصلہ کیا گیا اس کے برعکس مسلم لیگ ن نے مربوط طریقے سے اپنے تمام صوبائی اسمبلی کے حلقوں کے ممبران کے ذریعے ترقیاتی فنڈز جاری کیئے وہ یہ اچھی طرح جانتے تھے کی شہروں میں انکا مقابلہ تحریک انصاف سے بہت تگڑا ہوگا مگر تحریک انصاف ایک بہت بڑے میدان جو کہ دیہی علاقے کا تھا کی طرف متوجہ نہیں تھی مسلم لیگ ن نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھایا اور وہ تمام لوگ جو دیہی علاقوں میں اپنا کچھ ووٹ بنک رکھتے ہیں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔
Imran Khan
دیہات میں چونکہ برادریوں کی سیاست ہر ایک چیز پر حاوی ہوتی ہے اس لیئے بڑی برادریوں نے مسلم لیگ ن کی حمایت کا فیصلہ کر لیا۔ تحریک انصاف کے 23 مارچ کو ہونے والے جلسے نے تحریک انصاف میں ایک نئی روح پھونک دی اسکے بعد عمران خان کی تاریخی الیکشن کیمپین نے مسلم لیگ ن کے لیئے مشکلات کھڑی کر دیں تحریک انصاف کی ایک سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ جماعت اسلامی اور طاہرالقادری کی جماعت سے ذہنی ہم آہنگی ہونے کے باوجود بھی وہ انکے ساتھ اتحاد نہ بنا سکے خاص طور پر جماعت اسلامی جسکا کارکن بہت منظم اور انتخابات لڑنے کے ہنر سے بھی آشنا تھا جسکا نقصان تحریک انصاف کو ہوا وہ آگے چل کر بیا ن کروں گا۔ پنجاب کی اسٹیبلشمنٹ چونکہ یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ اگر عمران خان الیکشن تھوڑے سے مارجن سے جیت بھی گئے تو وہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہونگے۔
اس لیئے مسلم لیگ ن کی مخلوط حکومت بنے گی لہذا انھوںنے بھی جہاں تک ہو سکا انکا ساتھ دیا ۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن نے یہ یقین دلایا کہ اب کی بار ہر اک ووٹ کی نشاندہی ممکن ہوگی اور کوئی بندہ بھی غلط ووٹ نہیں ڈال سکے گا ہر اک ووٹ کی تصدیق ہو سکے گی کیونکہ اس دفعہ مقناطیسی سیاہی استعمال کی جائے گی ۔ الیکشن کمیشن کی ا س یقین دہانی نے لوگوں کی ایک کثیر تعداد کو اپنی طرف متوجہ کیا اور میڈیا نے بھی ایک بہت اچھا کردار ادا کیا گو کہ اس میں بہت سی خامیاں بھی تھیں مگر انکا کردار کافی بہتر تھا لوگ نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا اسکے بعد کیا ہوا میں اسکی تفصیل میں نہیں جاونگا لیکن چیدہ چیدہ چیزوں کو بیان کرتا چلوں الیکشن کمیشن نے کراچی میں اپنی ذمہ داری پوری طریقے سے ادا نہیں کی پورے ملک میں مقناطیسی سیاہی کو نہیں پہنچایا جا سکا ۔ میاں صاحب نے رات کو مکمل نتیجہ آنے سے پہلے ہی تقریر کر دی پریزائڈنگ افسروں اور ریٹرننگ افسروں کے نتائج میں بہت فرق دیکھا گیا ۔ تحریک انصاف کے پاس چونکہ بہت زیادہ سٹریٹ پاور تھی اس لیئے ان پر بہت زیادہ دباو بھی تھا کہ انتخابات کو تسلیم نہ کیا جائے مگر عمران خان ایک تو زخمی تھے دوسرا بہت سی چیزیں عمران خان سمجھتے تھے جنکو یہاں پر بیان کرنا مناسب نہیں بہرحال عمران خان جب صحت یاب ہوکر اسمبلی میں آئے تو اس دن انھوں نے یہ کہا کہ ہم ان انتخابات کو تسلیم کر لیتے ہیں مگر جہاں جہاں بھی دھاندلی ہوئی ہے اسکو بے نقاب کیا جانا چاہئے اور انگوٹھوں کے نشانات سے ووٹوں کی تصدیق کی جانی چاہئے جسکے جواب میں چوہدری نثار نے بڑے واشگاف انداز میں یہ کہا کہ ہم چار حلقوں نہیں بیس حلقوں پر انگوٹھوں کے نشانات سے تصدیق کروا لیتے ہیں مگر جب انگوٹھوں کی تصدیق کا عمل شروع ہوا تو اندازہ ہوا کہ انتخابات میں مقناطیسی سیاہی استعمال نہیں ہوئی اور نادرہ صرف مقناطیسی سیاہی والے انگوٹھوں کی مکمل تصدیق کرسکتا ہے ۔ تحریک انصاف اب فرنٹ فٹ پر کھیلے گی کیوں کہ وہ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر انگوٹھوں کی تصدیق پوری طرح ممکن نہ ہوئی تو ان حلقوں میں یا تودوبارہ انتخابات ہونگے یا پھر اس سارے عمل کو ہی غلط ثابت کر دیا جائے گا۔
اس سارے عمل کو بنیاد بنا کر تحریک انصاف انتخابات کے نظام میں بہت ساری تبدیلیاں لانا چاہتی ہے جس میں اسے عوامی تحریک کی حمایت بھی حاصل ہوجائے گی اور یہ ایک بہت بڑی طاقت میں بھی تبدیل ہو سکتے ہیں کیونکہ تحریک انصاف 80 لاکھ کے قریب ووٹ بنک رکھتی ہے تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے لیئے دس لاکھ لوگ نکالنا کوئی مسئلہ نہیں دوسری طرف طاہر القادری کے پاس کافی تعداد میں افرادی قوت موجود ہے جو کہ کسی وقت بھی باہر نکل سکتے ہیں تو ایسی صورتحال میں مسلم لیگ ن اپنی طاقت کا مظاہر ہ نہیں کر سکتی کیونکہ اس سے تصادم ہوگا جسکا نتیجہ حکومت کے خاتمہ کا باعث بنے گا میرے خیال میں مسلم لیگ ن کو اپنے موجودہ حکومت کوبچانا اسی صورت ممکن ہوگا جب وہ عمران خان کی تجاویز کو سنجیدہ لیں گے۔
اس کے لیئے انھیں زیادہ سے زیادہ بیس حلقوں کی قربانی دینا ہوگی اور اگلے انتخابات کو بہتر بنانے کے لیئے عمران خان اور دوسری تمام جماعتوں کی رائے کا احترام کرنا ہوگا اس طرح انکے پاس حکومت کرنے کے لیئے کافی وقت ہوگا اور اس دوران وہ اپنی کارکردگی دکھا کر اگلی دفعہ بھی حکومت میں آسکتے ہیں ورنہ میں نہیں سمجھتا کہ عمران خان اب چپ کر کے بیٹھ جائیں گے اور ایسی صورت میں جب ایک پولنگ اسٹیشن میں جہاں کل ووٹوں کی تعداد پندرہ سو ہے وہاں میاں صاحب کو ساڑھے سات ہزار سے زائد ووٹ ملنا ثابت بھی ہوچکا ہو اب گیند میاں صاحب کے کورٹ میں ہے وہ کیا کرتے ہیں لیکن میاں صاحب کا ریکارڈ بتاتا ہے وہ قسمت کے دھنی ضرور ہیں مگر وہ اپنے علاوہ کسی کو بھی سنجیدہ نہیں لیتے۔
Zahid Mehmood
تحریر: زاہد محمود zahidmuskurahat1122@gmail.com 03329515963