غلام کو اگر غلامی پسند نہ ہو

Allah

Allah

لکھنے والے کس عذاب سے گزر کر پڑھنے والوں کے لئے بہتر رائے اور صاف ستھرے الفاظ جمع کرتے ہیں یہ بتانا بہت مشکل ہے۔ اتنا کہہ سکتا ہوں کہ اہل قلم لکھنے میں تمام تر محنت، توجہ کے ساتھ ساتھ اپنا وہ وقت صرف کرتے ہیں جسے اگر وہ اللہ کی یاد میں گزاریں تو کم از کم اُن کی بخشش ضرور ہو جائے اور اگر اپنے روزگار پر صَرف کریں تو اُس میں خاصی بہتر ی آ جائے۔ دماغ میں تو کچھ اور ہی گھوم رہا تھا لیکن لکھنے بیٹھا تومیرے محترم محمد رضا ایڈووکیٹ صاحب کا فون آ گیا۔ انہوں نے مجھے واصف علی واصف صاحب کے عرس کے مبارک موقعہ پر چارد پوشی کی تقریب میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ میں طبیعت کی خرابی کے باعث شامل نہ ہو سکا۔

مجھے حضرت واصف علی واصف صاحب کا ایک قول یاد آ گیا سوچا پڑھنے والوں کی نظر کرتا چلوں ”غلام کو اگر غلامی پسند نہ ہو’تو کوئی آقا پیدا نہیں ہو سکتا” واصف صاحب کی بات میں اتنا وزن ہے کہ اُسے تولنے کے لیے بہت بڑی عقل و دانش والے ترازو کی ضرورت ہے، عام سے عام اور سادہ سے سادہ لو انسان یہ بات آسانی سے سمجھ سکتا ہے کہ اگر غلام غلامی نہ کرے گا تو آقا کس پر آقائی کرے گا؟ اگر واصف صاحب کی بات کے تناظر میں دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی قوم نسل در نسل غلامی پسند ہے چلوبات کو آگے بڑھاتے ہیں۔

ہم اگر غلامی چھوڑ نہیں سکتے تو پھر اپنے لیے آقا ہی اچھی نسل کے کیوں ڈھونڈ نہیں لیتے؟ ہم غلام ہی سہی لیکن آقا توایسے ہونے چاہئے جن پر شرم کی بجائے فخر سے کہا جا سکے کہ یہ ہمارے آقا ہیں۔ آخر ہماری عقل و دانش اور خودداری کو کیا بیماری ہے جو غلیظ ترین آقائوں کی غلامی کرتے ہیں؟ واصف علی واصف صاحب کے فرمان کے مطابق میں کہتا ہوں غلام اگر غلیظ آقائوں کی غلامی نہ کریں تو ‘اچھے آقائوں کی کمی نہیں ہے زمانے میں ” لیکن سب سے پہلے ہمیں اس بات کا فیصلہ کرنا ہے کہ کیا ہم واقع ہی غلام ہیں۔

اپنے حکمرانوں کی اصلیت اور آقائی کو دیکھیں تو صاف صاف اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اِن پڑھ، جاہل لوگ میرے وطن میں حکمران تو بن سکتے ہیں لیکن پڑھے لکھے لوگ معمولی سے معمولی ملازمت کے اہل نہیں ہیں۔ جس ملک میں قانون ساز اسمبلی کے ممبر بننے کے لئے تعلیم شرط نہ ہو وہاں تعلیمی ایمرجنسی لگانے کی بات کرنا کتنا بڑامذاق لگتا ہے۔

ویسے بھی اگر بندہ پڑھے لکھے بغیر MNA.MPA اور پھر وزیر ، سفیر اور وزیراعظم تک بن سکتا ہے توپھر پڑھ لکھ کر 12.10 ہزار کی نوکری کے لئے دھکے کھانے سے بہتر ہے کہ بندہ سیاست دان بننے کی کوشش کرے۔ یہ سوچنا بھی بہت بڑا گناہ ہے کہ اِن پڑھ لوگ اسمبلیوں میں بیٹھ کر تعلیمی بجٹ میں اضافہ کریں گے یا پھر تعلیمی نظام میں بہتری کی کوشش کرنے کے قابل ہیں۔

Watchmen

Watchmen

پچھلے دنوں ایک دوست نے کہا ہمارے پرایئویٹ سکول میں ایک چوکیدار کی ضرورت ہے اگر کوئی بندہ چوکیدار کی نوکری کرنا چاہتا ہو تو بتانا۔ میں نے اگلے دن ایک تیس سالہ شخص کو اُن کے سکول میں بھیج دیا، وہ جاتے ہوئے مجھ سے بار بار پوچھ رہا تھا کہ سر مجھے نوکری مل جائے گی نا؟ میں نے اُسے بتایا کہ سکول والوں نے مجھے خود کہا ہے کہ چوکیدار کی ضرورت ہے تم جائو اللہ تعالیٰ نے چاہا تو تمہیں نوکری مل جائے گی۔ وہ چلا گیا اور کوئی تین گھنٹے بعد افسردہ، لٹکاہوا چہرہ لئے واپس آ گیا کہنے لگا سر آپ نے مجھے وہاں بھیج کر اور بھی دکھی کر دیا ہے۔

آپ اُن سے پوچھ تو لیتے کہ اُنہیں کتنا پڑھا لکھا چوکیدار چاہیے اور اُسے کتنی تنخواہ دیں گے۔ سکول والے کہتے ہیں کہ تنخواہ 7 ہزار دیں گے اور انہیں کم از کم 12 جماعت (ایف اے) پاس چوکیدار چاہیے جو کسی ٹیچر کی غیر حاضری کی صورت میں بچوں کو پڑھا بھی سکے۔ سکول کی بلڈنگ کی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کرنا ، چائے پانی کے ساتھ ساتھ سکول کی صفائی ستھرائی کا خیال رکھنا بھی اُس کی ذمہ داری ہوگی اور اس کے علاوہ بھی اگر سکول میں کوئی اور کام نکلے توکرنے سے انکار نہ کرے۔

ہاں 24 گھنٹے سکول میں رہنا ہو گا چاہئے اپنے بیوی بچوں سمیت سکول میں شفٹ ہو جائے سکول میں رہنے کا کرایہ اور بجلی و گیس کا بل نہیں لیا جائے گا۔ امتیاز صاحب آپ تو جانتے ہیں کہ میں پرائمری پاس ہوں اور پھر مہنگائی کے دورمیں 10 ہزار تنخواہ میں گزارا نہیں چلتا تو 7 ہزار میں کیسے گھر چلے گا؟ میرے پاس اُسے دینے کے لئے کوئی جواب نہ تھا صرف اتنا کہہ پایا کہ چلو کوئی بات نہیں ہم کوئی اور کام ڈھونڈتے ہیں تم پریشان مت ہونا اللہ تعالیٰ بہتر کرے گا۔ بولا شکر ہے مالک کاجو غریب کا نظام چلاتا ہے ورنہ دس، بارہ ہزار میں تو گھر نہیں چلتے۔

وہ چہرہ لٹکائے آنکھوں سے درد کے آنسوں ٹپکاتا ہوا اپنی نشست سے ایسے اُٹھا کہ میراجسم اور روح دونوں کانپ اُٹھے۔ میں اپنی ہی سوچوں میں غرق ہو گیا، وہ کب چلا گیا مجھے کچھ علم نہ ہوا، چند لمحوں میں، میںنے خودسے لاکھوں سوالات کئے لیکن جواب کسی کا بھی نہ دے پایا۔ قارئین محترم کتنے بے حس ہیں ہم لوگ اِن پڑھ لوگوں کوممبر قانون ساز اسمبلی بننے کی اجازت تو دیتے ہیں لیکن پرائمری پاس بندے کو 7 ہزار کی نوکری نہیں دیتے؟ اہل شعور کہتے ہیں کے بغیر علم کے ترقی کرنا ممکن ہی نہیں۔ کیا میرے وطن میں کوئی باشعور باقی نہیں رہا؟ اگر بستے ہیں تو پھر خاموش کیوں ہیں؟ آمر پرویز مشرف کے دور میں اِن پڑھ لوگوں کو الیکشن لڑنے سے منع کر دیا گیا تو یہی اِن پڑھ، جاہل لوگ جعلی ڈگریاں لے آئے۔

جمہوری حکومت نے بڑی ایمانداری سے وہ قانون ہی ختم کر دیا جو جاہلوں کو الیکشن لڑنے سے روکتا تھا۔ خود مختار الیکشن کمیشن نے جعلی ڈگری والوں کونااہل کر دیا تو عدالت نے پھر سے اہل قرار دے کر الیکشن لڑنے کی اجازت دے دی۔ جمہوریت کے دعویدار حاجی نمازی لیڈروں نے بھی دھوکے باز وں کو پارٹی ٹکٹ جاری کر کے ثابت کر دیا کہ اس ملک میں تعلیم کی کوئی قدر ہے نہ ہی پڑھے لکھے افراد کی کوئی ضرورت ہے۔

اِن پڑھ جاہلوں کو ملک و قوم کے مستقبل سے کھلواڑ کرنے سے روکنے والاآمر آج مجرم ٹھہرا اور قانون ساز اسمبلی میں گدھوں کو بھرتی کرنے والے حاجی اگر ملک کو چلانے والی قانون سازاسمبلی کا ممبر بننے کے لئے تعلیم شرط نہیں پھر بینک، پولیس، ریلوے، پی آئی اے، فوج، ہسپتال اور دیگر سرکاری محکموں میں بھرتی ہونے کے لئے تعلیم شرط کیوں ہے؟ پارلیمنٹ پاکستان کا سب سے بڑا سپریم ادارہ ہے جب اُس سپریم ادارے میں بھرتی ہونے والوں پر پڑا لکھا ہونا لازم نہ ہے تو بند کر دو سارے سکول، کالج، یورنیوسٹیاں اور مدرسے، کیا ضرورت پڑھنے لکھنے کی بن جائے ساری قوم گدوں کی ٹیم پھر کیوں میرے وطن کا پڑھا لکھا نوجوان کسی جاہل کے در کاسوالی بنے۔

جاہل آقائوں کی غلامی کرنے والوں پر ڈگری یافتہ ہونا کیوں لازم ہے، جاہلوں کی جمہوریت کی خوبصورتی تو یہی ہونی چاہئے کہ جیسا جاہل آقاویسے ہی جاہل غلام ہوں۔ یہ کیسی جمہوریت ہے جوپڑھے لکھے باصلاحیت نوجوانوںکو اِن پڑھ جاہلوں کاغلام بناتی ہے؟ بے شک جمہوریت میں عوام اپنے حکمرانوں کاانتخاب خود کرتے ہیں لیکن ووٹر کس کو منتخب کرے؟

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

تحریر: امیتاز علی شاکر