ہم پاکستانی بھی عجیب لوگ ہیں شاید اس لئے عجیب و غریب خواہشیں دلوں میں پروان چڑھتی رہتی ہیں خواہشوں کے بارے میں مرزا غالب کا کہنا ہے ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے پر اپنے الطاف بھائی پچھلے کئی ماہ سے کچھ عجیب بلکہ غریب خواہشات کااظہار کرتے رہتے ہیں ان کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ ”دہشت گردی کے خلاف فوج اور حکومت کو ایک پیج پر آنا چاہیے، ور نہ فوج افتدار پر قبضہ کر کے ملک میں مارشل لاء لگا دے” ایک معروف سیاستدان اورپارٹی سربراہ کاایسی باتیں کرنا عقل سے بعید ہے دن رات جمہوریت کا راگ الاپنے والوں کو بہترین سوچ کا مظاہرہ کرنا چاہیے یقینا الطاف حسین کے اس بیان سے ہر جمہوری سوچ رکھنے والے کو تکلیف ہوئی ہے۔
شاید اسی لئے دنیا بھرمیں ہم پاکستانیوں کو عجیب لوگ کہا جاتاہے کہ جب ملک میں آمریت ہوتی ہے ہم جمہوریت کیلئے جدوجہد کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن جمہوریت آ جائے توپھر آمریت کی راہ ہموار کرنے کی کوششیں شروع ہو جاتی ہیں پاکستان کی سیاست میں گذشتہ نصف صدی سے یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے ہمارے بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان کی پوری زندگی کا یہی حاصل تھا کہ ہم نے انہوں کو ہمیشہ جمہوریت کیلئے نبرد آزما دیکھا۔ ان کا کہنا تھا لنگڑی لولی جمہوریت بھی مارشل لاء سے ہزار گنا بہترہوتی ہے اب نہ جانے کچھ لوگ کیوں جمہوریت کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتے۔۔
عشق قاتل سے بھی، مقتول سے ہمدردی بھی یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟ سجدہ خالق کو بھی، ابلیس سے یارانہ بھی حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟
غور کیا جائے تو محسوس ہو گا کہ الطاف حسین کا عسکری قیادت کو مارشل لاء لگانے کا مشورہ در حقیقت فوج کو بغاوت پر اکسانے کی کوشش ہے لیکن شاید وہ اس حقیقت سے ہم سے زیادہ با خبر ہوں گے کہ پاکستان کو آج جن مسائل کا سامنا ہے سقوط ِ ڈھاکہ، نام نہاد افغان جہاد، کارگل ایڈونچر، دہشت گردی کے خلاف جنگ وہ سب کے سب مسائل آمریت کی پیداوار ہیں جن کا خمیازہ مسلسل قوم بھگت رہی ہے اور 50,000 جانوں کا نذرانہ دینے کے باوجوداس سے چھٹکارا پانے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی اس کربناک صورت ِ حال کے باوجود پھر ملک میں مارشل لاء کی خواہش رکھنا کتنی اذیت ناک اورکس قدر عجیب وغریب خواہش ہے۔
Democracy
یہ خواہش ایک اوربات کا برملا اعلان کر رہی ہے کہ یہ خواہش رکھنے والے اپنے مستقبل یا پھر جمہوریت سے مایوس ہو گئے ہیں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ مایوس انسان اپنے آپ کوتنہا محسوس کرتا ہے یہ تنہائی رفتہ رفتہ اس کیلئے جان لیوا بھی بن سکتی ہے لیکن جن لوگوں نے سیاست میں ہمیشہ اقتدار کے مزے لوٹے ہوںان کی سیاسی تنہائی اپوزیشن میں رہ کر کیسے دور ہو سکتی ہے۔
اپنا تو یہ حال جی ہار چکے، لٹ بھی چکے اور محبت وہی انداز پر انے مانگے مایوسی کا شکار سیاستدانوں کو اس بات پر مزید مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا کہ اب پاکستان کے سیاسی، معاشی، معاشرتی اور جغرافیائی حالات ایسے نہیں کہ ملک میں مارشل لاء لگ سکے اب فوج کے اندر بھی کسی کی ایسی کوئی خواہش یا حسرت نہیں تمام ادارے اپنی حد میں رہتے ہوئے پاکستان کو مضبوط بنانے کے خواہاں ہیں بلکہ ذہنی طور پر سب ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں یہ انداز ِ فکر ایک زندہ قوم کی ترجمانی کرتا ہے اس لئے جمہوریت کے ساتھ چوہے بلی کا کھیل تماشہ ختم ہو گیا ہے ایک وزیرِ اعظم کو سزا اور نااہلی دوسرے وزیرِ اعظم پر کرپشن مقدمات کے باوجود اگر قوم نے پیپلز پارٹی کی 5 سالہ حکومت کہ برداشت کر لیا ہے تو اس کا مطلب ہے۔
اب پاکستان میں جمہوریت کا مستقبل روشن اور تابناک ہے موجود ہ حکومت تو پھر گذشتہ دور سے نیک نام ہے اس لئے جمہوریت کے خلاف عجیب وغریب خواہشیں”بری بات” ہے اب رہی طالبان سے مذاکرات کی بات تواس وقت ملک بھر کے مسلمان دہشت گردی کے سخت خلاف ہیں ہم ہر خاص و عام کو یہ صائب مشورہ دے رہے ہیں کہ دہشت گردی پر سیاست کرنے کی بجائے اگر اس سلسلہ میں حکومت کی معاونت کی جائے تو بہتوں کا بھلا ہو گا۔
ویسے بھی طالبان کنفیوژ لوگ ہیں جو لوگ بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگ رہے ہیں، عبادت گاہوں میں دھماکوں، خودکش حملوں میں ملوث ہیں یا جو سیکورٹی اہلکاروں کو اغوا کر کے انہیں ذبح کرنے کے مرتکب ہیں۔ اسلا م کے نام پر فتنہ فساد بپا کر رہے ہیں یا ملکی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں یا جو آئین تسلیم کرنے سے انکاری ہیں وہ یقیناکسی رعایت کے مستحق نہیں انہیں ہر قیمت پر کچل دینا ریاست کا فرض بنتا ہے اس لئے حکومت قومی سلامتی پر واضح مؤقف اختیار کرے یہ پاکستان کی بقاء، وجود، سالمیت اور مستقبل کا معاملہ ہے اس سے صرف ِ نظر کرنا کسی طور بھی مناسب نہ ہو گا۔
مذاکرات یا فوجی ایکشن دونوں صورتوں میں اسے کامیابی اور منطقی انجام تک پہنچانا ناگزیر ہے۔ یہی حالات کا تقاضا ہے اور ہر محب ِ وطن کے دل کی آواز بھی۔ عشق قاتل سے بھی، مقتول سے ہمدردی بھی یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟ سجدہ خالق کو بھی، ابلیس سے یارانہ بھی حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟