طالبان یا ظالمان

Taliban

Taliban

نگاہ مو ت پر رکھتا ہے مرد دانش مند حیا ت ہے شب تا ریک میں شرر کی نمو د

قلندر دوراں رہبر قوم و ملت حضرت واصف علی واصف فرماتے ہیں ”ایک خیال میں گم ہو جا ئو تو آتش حرام ہو جاتی ہے ” جا رج گیلوے ، برطا نوی رکن پا رلیمنٹ کا کہنا ہے کہ اسلامی جمہو ریہ پاکستان میں صحافی عدم تحفظ کا شکا ر ہیں۔ دنیا کے چند ایک ممالک ہیں جن میں صحا فتی خدمات پیش کرنے والے افراد کو خطرات درپیش ہیں ٹا پ ٹین میں وطن عزیز بھی شامل ہو گیا ہے۔ بیچا ری قوم غلط فیصلو ں پر فیصلے کیے جا رہی ہے جسکا خمیا زہ بھگتنا بھی تو انہی کا کام ہے ملک کے اندر نام نہا د جمہو ریت کے نام پر بزدل حکمرانو ں کا غلبہ ہے جو کھانے پینے کے لیے زندہ ہیں جن کا اوڑھنا بچھو نا سیاسی کا روبا ر ہے۔

مغل شہزادوں کی طرح ان کا ایک ہی نعرہ ہے ” با بر بہ عیش خوش کہ عالم دوبارہ نیست”ہر مکا تب فکر مو ت کی وادی میں زندگی کے آخری سانس گنتا دکھائی دیتا ہے ۔ گھر سے جا نے والا سربراہ جا تا تو گھر سے با ہر اپنی مرضی سے اور باعث مجبوری ہے لیکن واپسی کی کوئی خبر نہ ہے کہ بچو ں کے اخراجا ت کمانے والا تین وقت کی روٹی کے لیے مشقت اٹھا نے وا لا کبھی لوٹ کر گھر بھی آئے گا یا نہیں ؟ ملک کے اندر ہر کوئی غیر محفوظ اور مشکلا ت کا شکا ر دکھائی دیتا ہے ، مسلح افواج پاکستان ہو ، آزاد عدلیہ یا میڈیا سبھی تو مبتلائے رنج و غم ہیں ، دہشتگردوں کے خلا ف جنگ میں پاکستان کو تقریبا 80 ارب ڈالر کا نقصان ہو چکا اور تقریبا 60 ہزار سے زائد افراد ما رے بھی جا چکے ہیں جس دیس میں انسانی زندگی کی قیمت نہیں تو وہا ں، ایمان ، اخلا ق یا اقدار کا منصب کیا؟

جیسے ہندوستان طا قت اور جبر وظلم کے زور پر کشمیر یو ں کو اپنا غلام بنانا چا ہتا ہے من و عن طالبان بھی پاکستانیو ں کو اما رت اسلامی کے قیام کی آڑ میں اپنا غلام بنا نے اور اس پر شب خون ما رنے کی حکمت عملی اپنا ئے ہو ئے دکھائی دیتے ہیں۔ امریکی اخبا ر کے مطابق طا لبان کے مختلف دھڑے آپس میں لڑ رہے ہیں قیادت کے فقدا ن اور با ہمی انتشا ر کی بد ولت امن مذاکرات کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے ۔ اہل علم و داش مفکر اور اہل قلم برسوں سے رونا رو رہے ہیں کہ جس مخلو ق کا نام TTP ہے وہ در حقیقت خود کو نو ری اور دوسری باقی ماندہ عوام کو نا ری تسلیم کرتی ہے ۔ ان کے تخیل میں یہ گمان حاوی ہے کہ ان سے بہتر انسان اور ان سے بہتر مسلمان کر ہ ارض میں کسی خطے کسی علا قے کسی قصبے یا کسی شہر میں موجود ہی نہیں ہے۔

جن کے کردار اور افکا ر سے یہ عمل با رہا ثا بت ہو چکا ہے کہ وہ ملکی بقاء اور سا لمیت کے لیے کام کرنے وا لے اداروں مسلح افواج پاکستان اور آئی ایس آئی کے خلا ف ہیں تو پھر بھی کوئی ابہا م با قی بچ جا تا ہے پھر بھی کوئی ہمدردانہ رویہ یا چھوٹ کی شق باقی رہ جاتی ہے جو ہما رے معتبر اور مقدم اداروں کو اپنا جانی و مالی دشمن جا نتے اور گردانتے ہیں تو انکے ساتھ پیا ر کی پینگیں اور محبت کے افسانے دہرانے کیسا ہے ؟ علا قہ محسود سمیت شمالی و جنو بی وزیر ستان سے وابستہ تحریک طا لبان پاکستان کے اہلکا ر کارکنان اور نمائندگا ن بھی ہما رے حکمرانو ں کی طرح بکا ئو مال ہیں ان کی ڈوریا ں بھی کہیں اور سے ہلا ئی اور چلائی جا تی ہیں ان کے عزائم اور ارادے بھی کسی اور کی ایما ء پر پروان چڑھتے ہیں۔

Terrorists

Terrorists

جن دہشتگردوں کی زندگیا ں ہڈ حرامی اور جنگ و جدل میں گزر گئی ہیں بھلے وہ کیسے پر امن مذاکرات کو اپنے لیے سود مند جا ن سکتے ہیں جن کی رگو ں میں دوڑنے والا خون بھی پاکستانی سرزمین سے وابستہ افراد کے خون کا پیاسا ہے تو پھر کیسے انصا ف اور آئین و قانون کی با ت کی جا سکتی ہے ۔ موجود ہ حالا ت کے تناظر میں گہری نظر دوہرائی جا ئے تو یہ با ت عیاں ہو جاتی ہے کہ بھا رت اورافغانستان میں ملک کے بد ترین دشمن پو شیدہ ہیں لیکن حکمرانو ں کے پا س دیکھنے والی وہ دور اندیش آنکھ ہی نہیں ہے بے مقصد نقل و حرکت اور وقت کا ضیا ع کرنے کے لیے سا ری گیم کھیلی جا رہی ہے ۔ نظریہ پاکستان اور نظریہ اسلام کے دشمن ہی اصل میں تحریک طالبان پاکستان کے روپ میں ابھر کر سامنے آئے ہیں جو ماضی میں بھی پاکستان کے وجود کو گناہ سے تعبیر کرتے رہے اور موجودہ حالا ت میں بھی اسے تقسیم در تقسیم مسائل میں الجھانا چا ہتے ہیں۔

میڈیا کے اندر جیو نیو ز نے بھی طالبان کا روپ دھا ر لیا ہے جو آئین و قانون اور مذہب کے منافی اپنی سوچ اور نظریا ت قوم پر مسلط کرنا چاہتا ہے جس کی سزا اسے ضرور ملے گی اور وہ وقت دور نہیں کہ حکومت گرانے اور حکومت بنانے کا دعوے دار میرشکیل الرحمن بھی پستی و تنزلی میں ڈوب کر غرور و تکبر میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غرق ہو جائے گا۔لمحہ فکریہ ہے کہ آج کے بزدل ، کاہل اور ملعون حکمرانو ں کے کردار نے اسلام کے قلعہ میں بسنے وا لے محب وطن افراد کے نظریا ت ، افکا ر اور کردار کو بھی مشکوک بنا دیا ہے آج دہشتگردوں کے ورثا ء کو ملک کے اندر رہتے ہو ئے ملکی آئین اور قانون کے منا فی گفت و شنید کا موقع مہیا کیا جا رہا ہے۔

کا لعدم تحریک طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق ، رکن پر و فیسر ابراہیم ، مولانا عبد العزیز ، مولانا سید یو سف شاہ سمیت طالبان کے رفقاء کا رو ں کو کھلے عام ملکی آئین و قانونی کی دھجیا ں بکھیرنے کی اجا زت دی جا چکی ہے جو دہشتگردوں کے والی وارث ہیں آج وہ معتبر اور اعلیٰ دکھائی دے رہے ہیں جبکہ اپنے وطن سے محبت و الفت اور عقیدت کا جذبہ رکھنے والو ں کو ہر پلیٹ فارم پر ذلیل و رسوا کیا جا رہا ہے۔ پاک طالبان مذ اکرات میں دہشتگرد قیدی رہا نہ کرنے پر ڈیڈلاک آجا تا ہے۔ دہشتگردوں کی طرف سے 765 غیر عسکری قیدیوں کی فہرست بھیجی جا تی ہے اور یہا ں پر دو اہم پاکستانیو ں کے بیٹوں علی حیدر گیلانی اور شہباز تا ثیر کو تاحال تحریک طالبا ن کے چنگل سے آزاد نہ کرایا جاسکا ہے۔

وی وی آئی پی اور تمام تر زرائع اور پہنچ رکھنے والے افراد کی حالت زار یہ ہے تو عام آدمی کا کیا بنے گا ؟ اس کی حفاظت اور امن و امان کی ذمہ داری کون لے گا ؟اس کی زندگی کو امان کون بخشے گا؟ جیٹ طیا رو ں کی بمباری سے دہشتگردوں کی اموات سے پو رے میڈیا اور خیبر پختونخواہ کے علا قو ں میں شورو غوغا مچ جاتا ہے لیکن ملک کے محافظوں کی شہا دت کو محض معمول کا واقعہ سمجھا جا تا ہے لا پتہ افراد کا ساتھ دینے والو ں سے کوئی یہ تو دریا فت کرے کہ دنیا بھر میں دہشت و وحشت کی علا مت طالبان ظالمان جب کسی فوجی کا سر تن سے جدا کر کے تحفے کے طو ر پر فوج کو واپس بھیجتے ہیں تو اسوقت انقلاب اور اشتعال کی با تیں کیوں نہیں گردش کرتیں ؟ آمنہ مسعود جنجوعہ ہی بتا دیں کہ کتنے خود کش حملہ آوروں کو تیا ر کرنے والو ں کو قانون کی گرفت میں لیا گیا ہے؟

کتنے مساجد ، امام با رگا ہو ں اور گرجا گھروں کو بارود سے اڑانے والو ں کو انصا ف ملا ہے کتنے دہشتگردوں کو آزاد عدلیہ نے نشان عبرت بنایا ہے ؟ کتنے طالبان نہتے اور بے قصور افراد کو ڈرانے دھمکانے اور موت کے گھاٹ اتا رنے پر سولی پر چڑھے ہیں ؟ مشرف لا کھ برا ہی سہی بگٹی جیسی مو ت ہی چا ہیے ملا فضل اللہ ، شا ہد اللہ شاہد اور اسکے رفقاء کا رو ں کو ان کے لیے ہمدردی رکھنے والا انکے لیے نرم گوشہ اختیا ر کرنے والا ان کے لیے اپنے دل میں اچھا سوچنے والا منافق ہے ، غدار وطن ہے اور مذہب کا باغی ہے ۔ یہ ابو جہل ، یز ید اور فرعون کی اولا د نا قابل معافی ہے ۔ جہا د کو فسا د کے روپ میں متعارف کروانے والے مسلمانو ں کو آتش اور با رود سے اڑانے والے یہ جا بر و ظالم طالبان کسی امن مذاکرات کے قابل نہیں ان کا ایک ہی حل ہے کہ انہیں ایک جگہ اکٹھا کر کے مو ت کی وادی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سلا دیا جا ئے۔

طالبا ن سوچ کے مالک جو طالبان سے مذاکرات میں ناکامی کو ملک کی ناکامی تصور کرتے ہیں منفی سوچ اور فکر کے مالک ہیں ۔ جہا د کی ضرورت پاکستان میں نہیں ہے یہ بحرانو ں ، طوفانو ں اور نااہل حکمرانو ں کا شکا ر وطن امن و سکون اور تعمیر و ترقی کا خواہا ں ہے جو لو گ پاکستان میں بسنے والے مسلمانو ں کو ہی دین سکھانا اور سمجھانا چا ہتے ہیں ان میں اور تحریک طالبان کے ملا ئو ں میں کوئی واضح فرق نہ ہے مسلمانو ں کو تبلیغ کرنے کی بجا ئے کسی کفر و شرک سے بھری ہوئی زمین کا رخ کرنا چاہیے ۔ شوق جہا د طالبان نے اگر پورا کرنا ہے تو شام ، فلسطین ، مقبوضہ کشمیر، برما اوردیگر ترقی پزیر مسلم ممالک میں تبلیغ و ترویج اور جہا د کے ساتھ ساتھ اپنے دوسرے تمام شوق بھی پو رے کریں خدارا اس ملک کو حقیقی آزادی اور خودمختاری سے سرفراز ہونے دیا جا ئے۔ ملکی سربراہ وزیر اعظم میا ں محمد نواز شریف کا حالیہ بھا رت کا دورہ بھی مسلح افواج پا کستان کے غیور اور بہا در سپاہیو ں، شہیدوں ، غازیو ں اور مظلوم کشمیریو ں کے زخمو ں پر نمک پا شی کے مترادف ہے۔

جو امن کی آشا جیو نیو ز نے چلائی اسی کو پروان چڑھانے میں موجودہ حکمران مصروف عمل ہیں جیو نیوز اور حکومت کی پالیسیو ں میں کوئی واضح فرق دکھائی نہیں دیتا ہے تمام اوصاف اور نظریا ت حکومت اور جیو نیوز میں مشترک ہیں افواج اور سیکیو رٹی اداروں سے دشمنی اور انکے دشمنو ں سے دوستی یہ ایک مشترک عمل حکومتی نائو کو بہا لے جا ئے گا ۔ مستقبل قریب میں اسلامی جمہو ریہ پاکستان کا وزیر اعظم عمران خان ہویا صدر ڈاکٹر طا ہر القا دری تحریک طالبان پاکستان کے دہشتگردوں کا علاج ضروری ہے۔

SM Irfan Tahir

SM Irfan Tahir

تحریر : ایس ایم عرفان طاہر
موبائل نمبر : 0345-5150670