آج واشنگٹن سے خبریہ آئی ہے گیلپ انٹرنیشنل نے دنیا بھر میں خوش و خرم رہنے والے ممالک کی ایک مستند فہرست اِس دعویٰ کے ساتھ جاری کی ہے کہ اِس کے سروے میں جو بات سامنے آئی ہے وہ من وعن حقیقت پر مبنی ہے گیلپ انٹر نیشنل نے دنیابھر میں 138 خوش و خرم رہنے والے ممالک کا سروے کیا اور اِس کے بعد اپنی جاری کردہ فہرست میں پیراگوائے کو پہلا نمبر جبکہ پاکستان جو دنیا کا آٹھواں ایٹمی مُلک ہے اِسے خوش رہنے والے ممالک میں 117 واں نمبرالاٹ کر کے نہ صرف ہم پاکستانیوں کو حیران کر دیا بلکہ اِس نے دنیا کے اُن تمام ممالک کو بھی حیران کر دیا ہے جو ایٹمی طاقت ہیں مگراِن کی قوم کا معیارخوش اور خوشحالی کے لحاظ سے پاکستان کے مقابلے میں کئی گناہ بہتر ہے اَب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کا معیار اتنا بُراہے؟ کہ گیلپ انٹرنیشنل نے اپنے سروے میں پاکستان کو 117 ویں نمبر پر رکھ دیا ہے۔
اگرچہ یہ ٹھیک ہے کہ آج پاکستان توانائی سمیت دیگر بحرانوں میں پھنسا ہوا ہے مگراَب ایسا بھی نہیں ہے کہ اِن بحرانوں سے پاکستان نکلنے کی کوشش بھی نہیں کر رہا ہے اور پاکستانی قوم خوشیوں سے محروم ہے ایسا بھی نہیں ہے مگر پھر بھی گیلپ انٹرنیشنل نے خوشی سے متعلق اپنے کئے گئے سروے میں پاکستان کو دنیا کے 138 ممالک کے مقابلے میں 117 ویں نمبر پر رکھ دیا ہے اَب ایسابھی نہیں ہے کہ پاکستان اتنا بُرا ہے یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے۔
بہر کیف ..! گزشتہ ہفتے گیلپ انٹرنیشنل کی جاری کردہ فہرست میں حیران کُن طور پر پہلی 10 خوش رہنے والی اقوام میں سے 9 کا تعلق لاطینی امریکا سے ہے گیلپ انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ خوش رہنے والے ممالک کے لوگوں کی جاری اِس فہرست میںگزشتہ 2 سال سے براجمان پیراگوائے اِس سال بھی پہلے نمبر پر ہے جبکہ اہل پاناما دوسرے اور گوئٹے مالا کے باسی تیسرے نمبر پر ہیں اور اِسی کے ساتھ ہی گیلپ انٹرنیشنل کا یہ بھی کہنااور دعویٰ ہے کہ اِس کی فہرست کے مطابق متحدہ عرب امارات کا 15 واں، کینیڈا کا 16 واں، آسٹریلیا کا 18 واں نمبر ہے اور دنیا میں سب سے خوش و خرم سمجھنے جانے والے امریکیوں کا 24 واں اور چینیوں کا 31 واں نمبر ہے خبرہے کہ دنیا میں سب سے کم خوش والی جو قوم ہے۔
گیلپ انٹرنیشنل کے مطابق وہ قومِ شام ہے جہان جاری کشیدگی نے اہل شام کی زندگی عذاب بنادی ہے گیلپ انٹرنیشنل نے یہ دعویٰ دھرایا ہے کہ اِس نے اپنی یہ سروے رپورٹ دنیا کے 138 ممالک کے صاف وشفاف سروے کے بعد تیار کی ہے اور اِس یہ کوشش کی گئی ہے کہ اِس حوالے سے جو لکھاجائے وہ حقیقت پر مبنی ہو جبکہ میں اور مجھ جیسے کروڑوں ایسے بھی پاکستانی ہوں گے جو اپنے ملک پاکستان کے بارے میں پیش کی گئی گیلپ انٹرنیشنل کی اِس رپورٹ کو مسترد کریں گے اور گیلپ انٹرنیشنل کو مجبور کریں گے کہ وہ پاکستانی قوم کے بارے میں مفروضات پر مبنی ایسی سروے رپورٹ جاری کر کے اِنہیں مایوس اور اِن کے حوصلے پست کرنے کی سازش سے اجتناب برتے اور پاکستان بارے کسی سازش کا حصہ نہ بنے۔
اگرچہ آج دنیا کا کون ساایسااِنسان ہے جو خوشیوں کا متلاشی نہیں ہے، اور جو میری اِس بات سے انکاری ہے تو پھر ہمیں برملا اِس کی ذہنی کیفیات پر شک نہیں بلکہ یقینی طور پر یہ تسلیم کر لینا چاہئے کہ یہ اِنسان ایبنارمل یعنی کہ اِس کا دماغی توازن کچھ ٹھیک نہیں ہے، جو خوشیوں کو ٹھکرا رہا ہے ہمیں سوچناچاہئے کہ یہ ایسا کیوں کر رہا ہے؟ اَب معاشرے میں موجود ایسے افراد اور شخصیات سے جہاں ہمیں ہمدردی کرنی چاہئے تو وہیں اِن کے اُن مسائل اور اُلجھنوں کا بھی پتہ لگانے کے بعداِن کے مسائل کا احاطہ کرتے ہوئے اِن کی اِن پریشانیوں کا بھی ازالہ کرناچاہئے کہ جن کی وجہ سے ایسے لوگوں کو خوشیوں سے نفرت ہو گئی ہے اور وہ مایوسیوں میں گھر کر خوشیوں سے دور بھاگنے لگے ہیں حتیکہ یہاں تک نوبت آ گئی ہے کہ اِن لوگوں نے خوشیوں کے حصول کی بھی اُمیدیں کرنی چھوڑدی ہیں۔
جبکہ یہاں راقم الحرف بہت سے لوگوں کی اِس ذہنی اختِراع کہ ”خوشی ایک اَنمول دولت ہے جو بہت کم لوگوں کو ملتی ہے” اِس سے اتفاق نہیں کرتا ہے، کیوں کہ درحقیقت خوش رہنا اور ہر لمحہ خوشی کا حصول ہر ذی شعور اِنسان کا پیدائشی حق ہے اور اگر کسی وجہ سے کسی فرد یا شخص کی زندگی میں اِس کے حصے میں خوشی یا خوشیاں کم آئیں ہیں تو اِس میں قسمت سے زیادہ بندے کا اپنا دوش ہے، جبکہ تخلیقِ کائنات کے خالق و مالک اللہ رب العزت نے تو سب اِنسانوں کو یکساں پیدا کیا ہے اور سب کے حصے میں اِس کی صلاحیتوں کے لحاظ سے ذمہ داریاں باٹیں ہیں مگر خوشیوں کے معاملے میں سب کو ترجیح دی ہے۔
Happiness
آج اگر پھر بھی کوئی یہ کہے کہ میرے حصے میں خوشیاں کم اور پریشانیاں زیادہ آئیں ہیں، تو پھر ایسے شخص کے بارے میں میرا خیال یہ ہے کہ وہ اپنے وسائل دیکھ کر کام کرے اور چادر دیکھ کر اپنے پاؤں پھیلائے تو ایسے شخص کے دامن میں بھی خوشیاں بھر سکتی ہیں ورنہ تو یہ ساری زندگی ہی خوشیوں کو ترستا رہے گااور محرومیوں کا شکار رہ کر دوسروں کی خوشیوں سے جلتااور کُڑھتا رہے گااور اِس کی خوشیاں اِس سے کوسوں دور جاتی رہیں گیں۔
یہ حقیقت ہے کہ اَزل سے اِنسانوں کو زندگی گزارنے کے لئے اپنی بنیادی ضروریات کے علاوہ بھی جس روحانی تسکین کی اشد ضرورت سب سے زیادہ رہی ہے وہ صرف اور صرف خوشی ہے، یہ کئی حوالوںسے کئی طرح سے حاصل کی جا سکتی ہے اِس کے حصول کے لئے کبھی کبھی کوئی بڑاجتن کرنا پڑتا ہے تو کبھی کچھ بھی نہیں کرنا پڑتا ہے بلکہ اکثر اوقات تو یہ کسی سے اخلاق سے پیش آنے اور کسی پریشان حال اِنسان کی مدد کر دینے سے بھی حاصل ہو سکتی ہے بس اِس کے حصول کے خاطر منہمک ہونا ہی دراصل خوش کا نام ہے، یعنی یہ کہ ا زل سے ہی خوشی اِنسانوں کی ایک ایسی نعمت رہی ہے۔
جس کے حصول کے لئے سب اِنسانوں نے ہر زمانے ہرمعاشرے اور ہر تہذیب وتمدن میں اپنی زندگی میں آرزو کی ہے اور آج بھی اِس کے حصول کے لئے اِنسان جدید ٹیکنالوجی کا سہارالے رہا ہے آج کے دورکا ایک خوش اِنسان اپنے خوش باش خاندان کی اکائی تصور کیا جاتا ہے اور ایک مایوس اور محرومیوں میں گھراشخص اپنے مایوس اور محرومیوں کاشکار کنبے کی علامت جاناجاتاہے، کہا جاتا ہے کہ ایک خوش باش خاندان دنیاوی جنت اور ایک مایوسیوں اور محرومیوں کا شکار خاندان دنیا میں دوزخ سے بھی بدتر ہے۔
بہرحال! میں کافی عرصے سے اِس گمان میں تھا کہ میں اور میرا مُلک پاکستان تیسری دنیاکے بہت سے ممالک سے بہت بہترہیں مگر آج جب گیلپ انٹرنیشنل نے دنیابھر میں خوش رہنے والے ممالک کی فہرست جاری کی تو اندازہ ہوا کہ میری قوم جس میں، میں بھی شامل ہوں یہ خوش رہنے والی اقوام کی فہرست میں 117 ویں نمبر پر ہے اَب ایسے میں بحیثیت ایک پاکستانی قوم کے ہمیں یہ ضرور غور و فکر کرنا چاہئے کہ ہم خوشی اور مایوسیوں کے کس درجے پر ہیں اور دنیا نے ہمیں کس مقام پر دیکھ کر یہ فہرست جاری کی ہے یہ ہمارے خلاف عالمی سطح پر کوئی سازش تو نہیں ہے ہمیں۔ اِس موقع پر یہ ضرور معلوم کرنا چاہئے اور خوشی سمیت دیگر حوالوں سے ہمیں عالمی سازش کو بے نقاب کرنا چاہئے اور دنیا کو یہ بتانا چاہئے کہ ہم ایسے نہیں ہیں جیسے عالمی ادارے ایک سازش کے تحت ہمارے خلاف سرگرمِ عمل ہیں۔