گزشتہ 16 مئی 2014 کے پارلیمانی نتائج نے جہاں یہ صاف کر دیا کہ ملک کی 69% فیصد منفی ووٹنگ کے باوجود 31% فیصد مثبت ووٹنگ کا عمل ملک کی مضبوط حکومت بنانے کا ذریعہ بن سکتا ہے وہیں یہ بات بھی واضح ہو گئی کہ انتخابات سے قبل اور دوران جن ایشوز کو بڑے زور و شور اور قوت کے ساتھ سامنے لایا جا تا ہے کامیابی کے بعد وہی ایشوز پس پشت چلے جاتے ہیں اور عمارت جن بنیادوں پر کھڑی کی جاتی ہے ان ہی بنیادوں کو ڈھیر کرنے میں ذرا دیر نہیں لگتی۔ لہذا یہ مقولہ صحیح ٹھہرا کہ سیاست میں جو دکھتا ہے وہ حقیقت نہیں اور جو پس پردہ ہے وہ سامنے نہیں آتا۔پھر اگر بیس تیس سال بعد توڑ مروڑ کرحقائق سامنے لائے بھی جائیں توان سے کیافائدہ؟اس پس منظر میں دیکھا جائے تو دنیا کی یہ تلخ حقیقت ہے کہ اقتدار اکثریت کو خاموش کر دیتی ہے۔وہیں یہ پہلو بھی توجہ طلب ہے کہ دراصل اقتدار کیوں کر حاصل کیا جائے۔
آج 26مئی2014 ہے۔ہندوستان کی تاریخ میں پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے والوں کے لیے آج کا دن نہایت اہم ہے۔ان لوگوں کے لیے بھی جو نتائج کے بعد ناکام ہوئے اور ان کے لیے بھی جو کامیابی سے ہمکنا ر ہوئے۔ناکام ہونے والوں کے لیے یہ دن شاید ان کی سابقہ حکمت عملی میں تبدیلی کا ذریعہ بنے۔وہیں کامیاب ہونے والوں کے لیے یہ دن ممکن ہے کہ طے شدہ ایجنڈے پر عمل در آمد کا ذریعہ بن جائے۔قومی و بین الاقوامی میڈیا میں آج چہار جانب ہندوستان چھایا ہوا ہے۔جمہوریت کے مندر میں آج ایک نئے وزیر اعظم نے حلف اٹھایا ہے۔وہیں بڑی بات یہ بھی ہے کہ پڑوسی ملک پاکستان کے وزیر اعظم حلف بردار ی تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدعوہیں۔ دوسری طرف سارک ممالک کی بڑی ہستیوں کے علاوہ وڈوڈرا کے چائے والے بھی مہمان خصوصی کے طور پر تقریب میں شریک ہیں۔خوشی و مسرت کے اس موقع پر انتہایہ ہے کہ سابقہ یو پی اے حکومت کے دوران شدت پسندوں کے تعلق سے نرم موقف اختیار کرنے پر جن لوگوں نے بنگلہ دیش اور پاکستان کو ہمیشہ آڑے ہاتھوں لیا ،اور جو ٹویٹر پر کبھی یہ لکھتے دیکھے گئے کہ وہ سرحدوں پر بھارت ماتا کے بیٹوں کو قتل کرتے ہیں اور تم انہیں چکن بریانی پیش کرتے ہو۔آج احساس ذمہ داری کے بوجھ نے ان ہی کو شاید اس قدر دبا دیا ہے کہ ایک طرف حلف اٹھاتے ہیں تو دوسری طرف ہاتھ بڑھاتے ہیں۔ممکن ہے یہ تبدیلی دونوں ہی جانب سے مثبت ہو لیکن اس ظاہری تبدیلی کے پس پردہ کون سی مجبوریاں ہیں؟یہ ہم جیسا عام فہم شخص شاید کبھی نہ جان سکے۔فی الوقت تو بس ہم یہی جاننا چاہتے ہیں کہ 26مئی 2014ہند کی تاریخ میں کیا کوئی نیا باب لکھنے والی ہے۔
آج کا دن یعنی 26 مئی 2014 کوئی نیا باب لکھنے والی ہے یا نہیں؟یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن ایک لمحہ اس مسئلہ کو چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ جمہوریت کے مندر میں آج جو لوگ داخل ہو رہے ہیں ان کے بارے میں اے ڈی آر کیا کہتا ہے۔ایسوسیئشن فار ڈیموکریٹک رفورم(ADR) کے جائزے کی روشنی میں34%فیصد ممبران پارلیمنٹ وہ ہیںجنھوں نے اپنے افیڈیوٹ( Affidavits)اس بنا پر جمع کروائے کہ ان خلاف مختلف چھوٹی و بڑی عدالتوں میںمجرمانہ کیس چل رہے ہیں۔اس کے باوجود متذکرہ ممبران پارلیمنٹ کو عوام کے ذریعہ حق رائے دہی کے نتیجہ میں سولہویں لوک سبھا میں داخلہ کی اجازت مل چکی ہے۔
Democracy
مجرمانہ کردار کے ممبران پارلیمنٹ کی یہ تعداد گزشتہ 2004اور2009 لوک سبھا میں بالترتیب 24% فیصد اور 30% فیصد تھی جو اب 4%فیصد اضافے کے ساتھ34%فیصد ہو چکی ہے۔وہیں اگر ملک کی اُن بڑی سیاسی پارٹیوں کی بات کی جائے جن کے 30 سے زائد ممبران پارلیمنٹ سولہویں لوک سبھا میں کامیاب ہوئے ہیں توان میں مجرمانہ کردار رکھنے والی پارٹیاں کچھ اس طرح ہیں۔بی جے پی:282 MPs میںمجرمانہ کرداررکھنے والے35%فیصد ،کانگریس:44 MPs میں مجرمانہ کردار رکھنے والے18 %،AIADMK:37MPs میں مجرمانہ کرداررکھنے والے 16%فیصد اور،BJD:20MPsمیںمجرمانہ کرداررکھنے والے15%فیصد۔ وہیں دوسری طرف سولہویں لوک سبھا میں ممبران پارلیمنٹ کی دولت کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ 82 %فیصد MPs ایسے ہیں جن کی دولت ایک کروڑ زائد ہے۔یہ تعداد گزشتہ 2004 کے بالمقابل30 %فیصد اضافہ کے ساتھ ہے۔تو وہیں 2009 کے بالمقابل 58%فیصد اضافہ کے ساتھ ہے۔دولت کی ریل پیل میں آندھرا پردیش کی تین پارٹیاںTDP,TRSاورYSRCPکی اوسط دولت50کروڑ سے زائد ہے۔جبکہ ممبران پارلیمنٹ میں سے زیادہ دولت رکھنے والے گنتور سے TDPکے جیادیوگلّا(Jayadev Galla)ہیں۔جیادیو گلّا کے پاس683کروڑ روپیہ کی مالیت ہے۔اسی طرح کانگریس کے MPsکی اوسط مالیت 16کروڑ تو وہیں بی جے پی کے MPsکی اوسط مالیت11 کروڑ ہے۔سب سے کم مالیت رکھنے والے ایم پی CPI(M) کے ہیں۔جن کی اوسط مالیت 79 لاکھ ہے بالمقابل ترنمول کانگریس کی اوما سرین(Uma Saren) کمتر ترین 5 لاکھ روپے کی مالیت رکھتی ہیں۔یہ وہ معزز ممبران پارلیمنٹ ہیں جنھیں عوام نے اپنے بھر پور اعتماد کے ساتھ سولہویں لوک سبھا میں اس لیے بھیجا ہے کہ وہ ملک میں امن و امان کے قیام اور غربت و افلاس کے خاتمہ میں اپنا موثر کردار ادا کریں گے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ مجرمانہ کردار رکھنے والے اور غریب ملک کے کروڑپتی ممبران پارلیمنٹ مزید اپنے مال و دولت میں اضافہ کرئیں گے یا عوام کی امیدوں پر پورے اتریں گے۔ملک عزیز ہند کی یہ وہ تصویر ہے جو وقت اور حالات کے ساتھ ممکن ہے کہ تصورات میں بھی تبدیلی لائے لیکن آنے والی تبدیلی میں آپ کا کردار کیا ہوگا؟یہ خود آپ ہی کو طے کرنا ہے۔
اس موقع پر مسلمان ہند جو خصوصاً16مئی کے بعد ایک عجیب کشمکش میں مبتلا ہیںانہیں ہم بتا نا چاہتے ہیںکہ آپ کا یہ طرز عمل آپ کی حیثیت کے لحاظ سے مناسب نہیں ہے۔یہ الگ بات ہے کہ ہم اپنی حیثیت سے آج خود ہی واقف نہ رہے ہوں۔لیکن جس طرح انتخابی نتائج کے بعد نہ صرف ناکام زدہ افراد اور پارٹیوں نے ناکامی کا ٹھیکرا مسلمانوں کے سر پھوڑنے کی کوشش کی اور راست یا بلاواسطہ انہیں مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔وہیں خود مسلمان بھی مسلم تنظیموں کے قائدین، علما کرام، قائدین ملت کے فیصلوں کو برا بھلا کہنے سے نہیں چوک رہے ہیں۔سوال یہ ہے کہ ناکامی آپ کی ہوئی ہے یا اُن سیاسی پارٹیوں کے لیڈران کی جن کی روٹی روزی ہی آپ کے توصل سے پہنچتی تھی؟گزشتہ دنوں اتر پردیش میں جب آپ نے بھر پور اکثریت کے ساتھ ایک پارٹی کو کامیاب کیا، تب آپ کو کیا فائدہ حاصل ہوا ؟واقع یہ ہے کہ ریاست میں کامیابی کے سال دوسال ہی گزرے تھے کہ تقریباًسو سے زائد چھوٹے بڑے فسادات کی لپیٹ میں آپ آگئے۔اور اب جب کہ وہ ہار چکے ہیں توکیا ایسا بڑانقصان ہونے والا ہے جس سے آج تک آپ دوچار نہیں ہوئے؟درحقیقت تقسیم تو وہ ہوئے ہیں اور انہیں۔
ان ہی کے اعمال بد نے رسوا بھی کیا ہے۔اس سے آگے بڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نہ صرف وہ اپنی غلطیوں کا اندازہ کر چکے ہیں بلکہ طرز عمل میں تبدیلی بھی لایا چاہتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج بہار کا سیاسی منظر نامہ تبدیل ہو رہا ہے۔ توقع ہے اُن کو اپنی غلطیوں کے سدھارنے کا موقع ملے گا اور نتیجہ میں 2014 کے اختتام تک ہونے والے بہار اسمبلی الیکشن میں، آپ کے اپنے موقف پر برقرار رہنے کے باوجود ،نتائج میں بڑی تبدیلی سامنے آئے گی۔یاد رکھیں ملک کا سیاسی منظر نامہ نہ صرف آج بلکہ گزشتہ 70 سالوں میں لگاتار تبدیلی ہوتا رہا ہے لیکن کامیابی سے ہمکنار وہی لوگ ہوئے ہیں جو ناکامیوں کے بعد بھی اپنے موقف پر جمے رہے، حوصلے بلند رکھے، لائحہ عمل میں تبدیلی کی اور کامیابیوں کے سراغ تلاش کرتے رہے۔
Mohammad Asif Iqbal
تحریر : محمد آصف اقبال، نئی دہلی maiqbaldelhi@gmail.com maiqbaldelhi.blogspot.com